افسانہ نگار:آرسی رؤف

____________

”تم پھر روٹھ  گئیں۔تم بھی ناں ! بات بے بات روٹھ جاتی ہو۔چلو میں تمہارے لیے چائے بنا کر لاتا ہوں،دونوں مل کر  پئیں گے۔“

یہ کہتے ہوئے ارمغان اٹھ کھڑا ہوا۔

جاتے جاتے ایزل پر  ایک طائرانہ نظر ڈالی اور کمرے کے دروازے سے باہر نکل گیا

”تمہیں مجھ سے محبت ہے

محبت کی طبعیت میں ، یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا  ہے؟؟

کہ یہ جتنی پرانی ، جتنی بھی مضبوط ہو جائے

اِسے تائیدِ تازہ کی ، ضرورت پھر بھی رہتی ہے

شاعری میں پروئے ان لفظوں کی مکمل تصویر بنی ڈھلتی عمرکی ایک خوبصورت حسینہ اور سامنے بیٹھا وہ خوبرو مرد جن کی کنپٹیوں پر آتی قلموں کے ساتھ بھنوؤں تک پر سفیدی اتر آئی تھی۔ایک دوسرے کی آنکھوں میں دنیا و ما فیہا سے بے خبر اور بے خطر جھانک رہے تھے۔

ہاتھوں میں ہاتھ لیے، جھریوں سے پر ہاتھوں کی  کپکپاہٹ میں سے محبت کے جذبات  بھرے لمس کو کشید کرتا، وہ معمر جوڑا اپنی دنیا کو جنت بنائے کینوس پر براجمان تھا۔کمرے  کی دائیں دیوار پر سجی وہ پینٹنگ ڈھلتی عمر کی محبت کا منہ بولتا  ثبوت تھی۔

” محبت کی طبعیت میں ، عجب تکرار کی خُو ہے

کہ یہ اِقرار کے لفظوں کو ، سننے سے نہیں تھکتی

بچھڑنے کی گھڑی ہو ، یا کوئی ملنے کی ساعت  ہو

اسے بس ایک ہی دُھن ہے ، کہو مجھ سے محبت ہے

کہو مجھ سے محبت ہے ، تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ “

” بتاؤناں ! کس قدر چاہتے ہو تم مجھے ؟ “

جیسے ابریش نے اس سے پوچھا ہو۔

وہ  ساحل کی گیلی ریت کو دونوں مٹھیوں میں بھر کر شرارت سے کہتا :

”اتنی ۔“

”بس مٹھی بھر محبت؟

مجھے نہیں چاہیے“

وہ  نروٹھے پن سے اٹھ کر

اس سے دور جا بیٹھی۔وہ ہنستا ہوا اس کے سر پہ جا کرکھڑا ہو گیا اور پھر قریب ہی آلتی پالتی مارتے ہوئے  بیٹھ گیا  اور ریت مٹھیوں میں بھر بھر کر اپنی جھولی میں انڈیلنےلگا، جو جینز پر سے ہوتی ہوئی دوبارہ سے ساحل پر بکھری ریت میں ضم ہوتی چل جا رہی تھی۔وہ   عجیب سے انداز میں چہرے پر یاسیت سی سجائے لیکن پھر اچانک ہی امید کی کوئی موہوم سی رجا آنکھوں میں جگا کر بولا:

”یہ دیکھو جان من ! گن سکتی ہو ریت کے ان ذروں کو ؟

نہیں ناں! میرے پاس بھی کوئی پیمانہ نہیں  جو تمہیں بتلا پائےکہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔یہ تو ایک بحر بے کراں ہے ۔ ان گِنَت ہے ۔ اس کا تعین پیمانوں سے ممکن نہیں۔  یہ بے پایاں ہے۔ یہ تو بس دل میں ہلچل مچا دیتی ہے۔ اس قدر بے چین کرتی ہے  کہ کوئی دیوانہ ہو کر گلیوں میں نکل جائےسولی پر چڑھ جاۓ، پٹڑی سے اتر جائے۔ یہ کہہ کر وہ اس ہیولے کو خود سے دور جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔یہاں تک کہ سورج کا نارنجی گولہ سمندر کے پانیوں کے پیچھے افق کے اس پار اتر گیا۔اور سرمئی رنگ کی چادر ہر سو لپٹننے لگی۔اس نے بھی اپنی جینز پر سے ریت کو جھاڑا  اوربے جان قدموں سے  گھر کی طرف چل دیا۔

 ” کچھ ایسی بے سکونی ہے ، وفا کی سرزمینوں میں

کہ جو اہل محبت کو ، سدا بے چین رکھتی ہے

کہ جیسے پُھول میں خوشبُو

کہ جیسے ہاتھ میں پارا ، کہ جیسے شام کا تارا۔”

دائیں طرف کی دیوار پر  عالی شان کمرہ جس میں سامان آسائش کی بھی کمی نہیں تھی۔اپنے سنہری بال شانوں پر بکھراۓ اک پژمردہ سی حسینہ، جس کی رنگت میں زردیاں سی کھنڈی اور آنکھوں میں بلا کی ویرانی۔ یوں لگتا تھا برسوں سے نہیں سوئی ۔

” تم رک نہیں سکتے ارمغان ! پلیز رک جاؤ،مجھے اس طرح چھوڑ کر نہ جاؤ۔“

اس نے جیسے التجا کی۔

”مجھے جانا ہو گا ابریش!

 یہ دنیا میرے لیے نہیں ہے۔ تمہارے اور میرے درمیان جو سٹیٹس کی دیوار ہے اسے میں چاہ کر بھی نہیں پاٹ سکتا۔پھر تم اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہو۔میں اپنے جھونپڑی نما گھر میں تمہارے لیے کوئی خوشی خرید کر نہیں لا سکتا۔“

”مجھے صرف تم چاہیے ہو  اور کچھ نہیں۔“

”یہ سب باتیں کتابوں میں اچھی لگتی ہیں ابریش!ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔“

ایک خیال سا پھر اس کے ذہن میں کوندا تھا۔اور اس کے ساتھ ہی اس کے قدم پھر سے حقیقت کی دنیا میں آن پڑے تھے ۔

—————————————

” محبت کرنے والوں کی سحر ، راتوں میں رہتی ہے

گماں کے شاخچوں میں ، آشیاں بنتا ہے الفت کا

یہ عینِ وصل میں بھی ، ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے”

وہ چائے کےدو  کپ ہاتھ میں لئے ایک نامکمل تصویر کےقریب آبیٹھا تھا۔

”یہ لو یہ تمہاری چائے،اور یہ میری“ ۔

تصویر جیسے بول اٹھی:

”ارمغان مجھے مکمل کر دو۔

مجھے یوں ادھورا نہ چھوڑو

تم تو پہلے سے مکمل ہو،ادھورا تو میں ہوں نہ جانے کب سے۔

وہ پینٹنگ دیکھ رہی ہو؟“

اس نے گویا اس عمر رسیدہ جوڑے کی پینٹنگ کی طرف اشارہ کیا۔

”اگر ہم ایک ساتھ زیست بتاتے تو یہ تم اور میں ہو سکتے تھے۔

اور یہ لڑکی دیکھ رہی ہو یہ بھی تم ہو سکتی تھی لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے سنہری بالوں والی لڑکی کی پینٹنگ کی طرف اشارہ کیا۔

اور پھر اس کے خیالوں کے کینوس پر کھلکھلاتی ہوئی ابریش ایک خوبرو سوٹڈ بوٹڈ نوجوان کے ہمراہ ایٸر پورٹ پر کھڑی اپنے ہنی مون ٹرپ کے لیے پرواز کرنے والی تھی۔

اس نے چاۓ کی پیالی کو پینٹنگ پر الٹنا چاہا لیکن ایک آہٹ سی سن کر پلٹ گیا۔

وہیل چئیرپر موجود بوڑھی دادی اپنے جھریوں زدہ چہرے کے ساتھ اسے شفقت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔پیچھے  شرمائی  لجائی، سر تا پا بڑے سے ڈوپٹے میں لپٹی اس کی خالہ زاد زاریہ کھڑی تھی۔

دیکھ پتر کون آیا ہے؟“”

اس نے ایک اچٹتی سی نظر زاریہ پر ڈالی اور دادی سے جا کر لپٹ گیا۔

ماں باپ کی وفات کے بعد  دادی ہی اس کا سب کچھ تھیں۔

تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو دادی گاٶں میں ہی رہ گئیں اصغر چچا کے پاس۔

پچھلے پورے سال سے اس کا گاؤں چکر نہیں لگا تھا۔

”ارمغان پتر! تو تو ایسا شہر آیا کہ دادی تک کی کوئی  خیر خبر نہ لی۔“

ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر ان کے رخساروں کی جھریوں میں پیوست ہونے لگے۔اسے اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا۔ایک پر چھاٸی کی محبت میں اس نے اپنے خون کے رشتے بھلا دیے تھے۔

وہ خیالوں کی دنیا کا مسافر خیالوں ہی خیالوں میں ابریش کی پوجا کر رہا تھا۔اس نے تو کبھی اس سے اظہار محبت کا ایک لفظ تک نہیں کہا تھا۔وہ اس کی ہمدردی کو محبت کا رنگ دے کر نہ جانے کیسے اس کی یک طرفہ محبت کا اسیر ہو چکا تھا۔

دادی کی شدید خواہش پر اس کی شادی زاریہ کے ساتھ کر دی گئی۔

” محبت کے مسافر ، زندگی جب کاٹ چکتے ہیں

تھکن کی کرچیاں چُنتے ، وفا کی اَجرکیں پہنے

سمئے کی رہگزر کی ، آخری سرحد پہ رُکتے ہیں

تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر

دھیرے سے کہتا ہے

یہ سچ ہے نا ، ہماری زندگی

اک دوسرے کے نام لکھی تھی

دھند لکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے

اسی کا نام چاہت ھے

تمہیں مجھ سے محبت تھی

تمہیں مجھ سے محبت ہے.

محبت کی طبعیت میں , یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے۔”

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact