فجر کی نماز پڑھ کر ارم اپنی چارپائی پر بیٹھنے لگی۔ تو اس کی دادی جو ساتھ والی چارپائی پر بیٹھی تسبیح کر رہی تھی ۔”بولی ارم آج تم کالج نا جاؤ چھٹی کرو “۔دادی کی بات سن کر ارم نے کہا “کیوں آج کیوں نا جاؤ دادی آج تو میرا جانا بہت ضروری ہے۔ آج میں بالکل بھی چھٹی نہیں کر سکتی “۔دادی جو تسبیح کرنے میں مصروف تھی۔ رک گئیں اور غصے سے بولی جب بھی چھٹی کا بولو تب ہی کوئی نہ کوئی کام یاد آ جاتا ہے تمہیں۔ بہت عجیب ہے یہ پڑھائی جس میں ایک چھٹی کی اجازت بھی نہیں ہے ۔دادی کی باتیں سن کر ارم نے غصے میں کہا۔ ” ایک چھٹی بس دادی ہر مہینے چھٹی ہوتی ہے کون سا ایسا مہینہ گزرا ہے۔ جس میں میں نے چھٹی نہ کی ہو۔ اور آپ کہہ رہی ہیں کہ مجھے اجازت نہیں ہے حد ہے۔ اور آپ بتائیں یہ کون سے مہمان ایسے آ رہے ہیں۔ جس میں میرا گھر میں ہونا بہت ضروری ہے۔” دادی ارم کی طرف دیکھ کر بولیں تمہارے رشتے کی بات کی تھی تو بس وہی آ رہے ہیں آج اگر ایک چھٹی کر لو گی تو کچھ نہیں ہو جائے گا۔ دیکھو انہوں نے کونسا یہاں بیٹھے رہنا ہے۔ آدھ گھنٹہ کی بات ہے چلے جاناہے۔پھر تم کرتی رہنا جو مرضی کام ۔ ارم دادی کے پاس بیٹھ گئی ۔ لیکن میری تو چھٹی ہو جائے گی نا میں کیا کروں میری بہت اہم کلاس ہے۔اب میں ہر مہینے چھٹیاں نہیں کر سکتی۔ مجھے ڈانٹ پڑتی ہے میرے نمبر اتنی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے کٹ جائیں گے ۔دادی نے پھر کہا تو کٹ جائیں ۔اور اونچی اونچی بولنے لگی میں نے تو عمر کو کہا تھا۔ بس بارہ ہوگئی ہیں بس کرو ختم کروا دو پڑھائی اور اسے اپنے گھر کی کرو۔ پر میری کوئی سنتا ہی کب ہے ۔میں تو ایسے ہی بولتی رہتی ہوں۔ شور سن کر ارم کی امی ان کے کمرے میں آگئیں ۔آتے ہی ارم کو ڈانٹے لگی ۔ کیوں چپ نہیں رہتی ۔تمہاری زبان کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے ۔ آپ دادی سے بھی تو پوچھیں کیا بول رہی ہیں۔ چھٹی کا بول رہی ہیں انہوں نے رات ہی مجھ سے پوچھا تھا صبح تم نے کالج جانا ہے یا نہیں میں نے کہا بھی تھا کہ جانا ہے۔ اور یہ بھی کہا تھا کہ میرا صبح جانا بہت ضروری ہے اور آپ کو بھی تو پتا ہے نا پھر بھی کہ رہی ہیں ۔پتا نہیں کیا مسئلہ ہے آپ لوگوں کو پیچھے پڑے ہو میرے جب سے پڑھنا شروع کیا ہے یہ ہی تماشا لگا ہوا ہے۔ آپ لوگوں کی نظر میں میری پڑھائی کی کوئی قدر نہیں پر میری نظر میں ہے۔ خدا کا واسطہ مجھے پڑھ لینے دیں سکون سے دو سال ہوگئے ہیں ایک دن سکون کا نہیں گزرا ۔
دادی جو گم سم بیٹھیں سب دیکھ رہی تھی۔ ارم کی بات کاٹ کر بولی لو جی اور پڑھاؤ ان کو ان کی زبانیں لمبی ہوتی جارہی ہیں۔ بس کچھ فائدہ نہیں ہورہا ۔باپ کو دیکھو جو دن رات لوگوں سے قرضے مانگ مانگ کر ان کی فیسیں دے رہا ہے ۔اور یہ حال ہے اولاد کا زبان چلاتی ہے حد ہے۔ بھئ میں تو کچھ نہیں بولتی پھر وہ کہیں گی دادی ہماری پڑھائی کے خلاف ہیں ۔ویسے یہ اولادوں کا حال ہے حد ہے۔ اتنے میں باہر سے کسی نے ارم کی امی کو آواز دی تو وہ یہ کہ کر “تم بس آج نہیں جارہی “کمرے سے باہر چلی گئی ۔ارم چپ چاپ اپنی چارپائی پر آکر بیٹھ گئی۔ گیارہ بارہ بجے تک مہمان گھر سے گئے تو وہ کام کر کے اپنے کمرے میں آگئی ۔ابھی بیٹھی ہی تھی کہ ساتھ والے کمرے سے اس کے ابو کی آوازیں آنے لگیں ۔وہ بول رہے تھے کہ میں نے اب انتظار نہیں کرنا اگر انہوں نے پندرہ دنوں میں بھی شادی مانگی تو بس کر دینی ہے۔ میں اب ان کی پڑھائیاں نہیں دیکھوں گا ۔جس کا ہوتا ہے اس کا ہی کر دینا ہے میری منزل بہت بڑی ہے۔ یہ سننے کی دیر تھی ارم کی حالت خراب ہونے لگی ۔ دعا کرنے لگی اللہ میاں ان کو میں ناپسند آؤں ۔
بس آپ کچھ کر دو۔ یونہی سارا دن گزر گیا شام کو امی نے آ کر بتایا کہ وہ کہتے ہیں۔ لڑکی کی عمر بہت کم ہے۔ ہمیں اتنی کم عمر کی لڑکی نہیں چاہیے بس اللہ کے کام ۔دادی جو پاس بیٹھی سن رہی تھی۔ فورا بولی ہماری بھی کچھ غلطیاں ہیں جب ہم نے پہلے ہی رونا پیٹنا شروع کر دینا ہے تو ایسے ہی ہوگا نا ۔دعا کرنی چاہیے کہ سب اچھا اچھا ہو جائے لیکن ہم نے تو رونا شروع کر دینا ہے۔ پتا نہیں کیا رکھا ہے ان پڑھائیوں میں باپ کو نہیں دیکھتیں اس کے سر کے بال اتنے نہیں جتنے قرضے ہیں ۔ مانگ مانگ کے پتہ نہیں کہاں سے لاتا ہے۔ ان کی شادیوں کا بوجھ الگ ہے ۔شرم آنی چاہیے ان لوگوں کو۔ اور یہ ہیں روتی ہیں دو سال رہ گئے ہیں چار رہ گئے ہیں ۔کہاں سے لائے وہ اتنے پیسے کیا کرے وہ۔ اور کون سا نوکریاں مل جاتی ہیں جو یہ اتنا اتنا پڑھ رہی ہیں۔ پکانی تو انہوں نے وہی روٹیاں ہی ہیں۔ جائیں اپنے گھروں کو جا کے سنبھالے اپنے گھر ۔بھئی میں تو کچھ بولتی نہیں ہوں پھر کہیں گی دادی بولتی ہے ۔پر یہ طریقہ اچھا نہیں ۔عالیہ سمجھاؤ ان کو کچھ۔ ارم کی امی جو دادی کی بات دھیان سے سن رہی تھی ۔بولی امی میں کیا سمجھاؤں شرم تو ان کو خود آنی چاہیے۔ پتا نہیں کیا ہے۔ ان کا ابا بھی میری نہیں مانتا میں نے تو کہا تھا بارہ ہو گئی ہیں کافی ہیں۔ بڑی بیٹھی ہوئی ہے اس کا کہیں ہو نہیں رہا اس کا قد چھوٹا ہے یہ ایک مصیبت ہے۔ اور ایک یہ ہے آگے پڑھنا ہے اس کو۔ جو اس سے بھی بڑی ہے اس کے بھی اپنے ہی نخرے ہیں ۔میں بہت پریشان ہوں پڑھا لے جو کرنا ہے کریں ۔باپ جانے اور یہ جانے میں تو بھئ کام والی ہوں تین ٹائم کھانا پکا کے دے دیا بس میری اس گھر میں سنتا ہی کون ہے ۔
ارم جو کب سے یہ سن رہی تھی۔ فورا باہر آ کر کہنے لگی۔ حد ہے اب اس میں ہمارا کیا قصور ہے ہماری پڑھائی کہاں سے آگئی ۔اب ان کو رشتہ پسند نہیں آیا تو ہمارا کیا قصور ہے۔ آپ لوگوں کو ویسے بالکل سوچ نہیں ہے۔ اور کون سے اتنے پڑھائیوں پر خرچے ہو رہے ہیں۔ ہم نے کوئی آگے تو نہیں پڑھنے کو کہا۔ میں نے بس یہی کہا ہے کہ یہ جو میں نے شروع کی ہوئی ہے ۔اتنا خرچ کیا ہے اتنی محنت لگی ہے اس کو پورا ہو لینے دیں ۔پھر آپ کر لینا شادی میں کہیں بھاگی جا رہی ہوں۔ اور ویسے بھی آپ لوگوں نے کون سا میری سنی ہے۔ آج دیکھنے والے آ گئے تھے نا۔ اب یہ ان کی مرضی ہے ان کا فیصلہ ہے آپ ہمیں کیوں برا بھلا کہہ رہی ہیں۔ اور جو بڑی آپی کیے قد کی بات کر رہی ہیں وہ کوئی ہم نے تو نہیں بنایا ۔اللہ نے بنایا ہے ۔ امی جو آپی کے لیے رشتہ آیا تھا وہ کوئی اتنا اچھا نہیں تھا ۔خود کا بیٹا تو ان سے دیکھا نہیں گیا کیا تھا اس کے پاس میٹرک بھی نہیں کیا تھا اس نے اور ہماری بہن نے بی اے کیا ہوا ہے ۔آگے بھی اگر آپ پڑھاتے تو پڑھ لیتی وہ اتنی ذہین ہے وہ سگڑ ہیں ۔اور ہاں جو آج آیا تھا ان کو بڑی عمر کی چاہیے تھی تو آپ آپی کو ان کے سامنے لے جاتیں ۔مجھے یقین تھا ہو جانا تھا یہ رشتہ۔ ارم کی بات سن کر دادی فورا بولی ہاں عالیہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ ہمیں اقصی کو دکھانا چاہیے تھا مجھے امید تھی ہو جانا تھا رشتہ ہم سے بہت بڑی بھول ہو گئی۔
عالیہ بیگم بولی امی دو آ ئے تھے دونوں ہی منع کر گئے۔ اور تیسرا جو تھا وہ ہمیں پسند نہیں آیا ۔تو مجھے امید نہیں تھی اور یہ رشتہ اچھا تھا میں اس کو گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے ان کے ابو سے کہا کہ ہم ارم کی بات چلاتے ہیں۔ اقصی کی نہیں ویسے مجھے بھی اب لگ رہا ہے اقصی ان کو شاید پسند آ جاتی ویسے ان کے بیٹے کا بھی قد کوئی اتنا بڑا تو نہیں تھا۔ ہاں اقصیٰ ان کو پسند آجانی تھی ۔ اور سر پک کر بولی یہ کیا ہو گیا ہم سے یہ سب قصور تمہاری اس اولاد کا ہے۔ عالیہ یہ لوگ مہمانوں کے آنے سے پہلے ہی دماغ خراب کر دیتے ہیں ۔رونا پیٹنا شروع کر دیتی ہیں۔ کچھ سوچنے ہی نہیں دیتی کہیں اور ذہن جاتا ہی نہیں ۔ اگر یہ اس طرح صبح شور نہ مچاتی تو ہم کچھ سوچ لیتے شاید اسی وقت دماغ میں فوراً بات آجاتی ۔پر خیر تم جانو تمہاری اولاد جانے۔
ارم منہ میں بڑبڑائی ان کا کچھ نہیں ہو سکتا ۔اور باہر چلی گئی۔ اسی طرح دو ماہ گزر گئے ارم کے پیپرز میں ایک ہفتہ رہ گیا تو پھر صبح امی آکر بو لیں۔ ارم آج تم کالج نہ جاؤ ۔آج گھر میں مہمان آ رہے ہیں ۔یہ ساتھ والی انٹی جو ہیں رخسانہ انہوں نے مجھے کہا تھا ۔کہ ایک رشتہ ہے اگر آپ لوگ کہو تو میں آپ کے گھر لے آؤں۔ اچھے لوگ ہیں اور وہ کہہ رہی تھی مجھے لگتا ہے یقین ہے تمہاری بیٹی پسند آ جائے گی۔ تو تم آج نہ جاؤ ۔ارم کچھ بولنے ہی لگی تھی پھر دادی کی باتیں یاد آئیں۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ یہ رونا پیٹنا شروع کر دیتی ہیں ۔تو وہ یہ سوچ کر چپ کر گئ کہ اس پر پھر الزام نہ آئے ۔ کام کرتی رہی گھر کے ۔جیسے ہی نو بجے امی نے کہا جاؤ جا کر اقصی کو کہو تیار ہو جائے ۔ ارم بات سن کر حیران ہوئی۔
اچھا تو یہ اقصی کے لیے ہے۔ اس کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی ۔بھاگی بھاگی گئی اور بولی آپی جلدی سے تیار ہو جاؤ مہمان آرہے ہیں تمہیں دیکھنے ۔اقصی جو کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔ اس کا بس کام ہی یہی تھا گھر والوں کے ساتھ لڑنا چیخنا، چلانا ،غصہ کرنا اور بس اپنا کام کرنا پڑھنا۔ ہر وقت کتابیں پڑھتی رہتی تھی۔ یا پھر گھر کے کام کرتی رہتی ۔ رشتے کے بارے میں کچھ نہیں کہتی تھی۔ پیغام سن کر چپ ہو گئی پھر بولی اچھا۔ دس بجے مہمان گھر آگئے گیارہ بجے تک مہمان رخصت ہوئے۔ تو امی فوراً اقصیٰ کے پاس آئیں ۔اور کہنے لگی اقصی تھوڑی سی اونچی ایڑی والا جوتا پہن لیتی تو کیا ہو جاتا ۔اور یہ تم نے میک اپ کیوں نہیں کیا۔ اتنا میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ تھوڑا سا زیادہ کر لینا میک اپ پر تم اولاد ہی پتہ نہیں کیسی ہو مانتی ہی نہیں ۔ اب اللہ خیر ہی کرے ۔حالانکہ آنٹی نے مجھے کہا بھی تھا تھوڑی سی اونچی ایڑی والا شوز پہننے اس کو کہنا ۔اور میک اپ بھی کر لے تھوڑا سا۔ یہ باتیں سن کر اقصی بولی امی میں کوئی لولی لنگڑی ہوں یا پھر میرے چہرے پر داغ دھبے ہیں۔ یہ تو ایک طرح کا دھوکہ ہے ہم جیسے ہیں ہمیں ویسے ہی رہنا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے یہ جو بعد میں مسئلے مسائل ہوتے ہیں وہ شاید اسی وجہ سے ہوتے ہیں۔ کہ ہم اصلیت نہیں دکھاتے ۔عالیہ بیگم نے کہا اچھا چپ کرو جاؤ جا کے کام کرو اپنا ۔اقصی کچن سے فارغ ہو کر کمرے میں آگئی اور آکر پھر کتاب کھول کر بیٹھ گئی ۔ارم نہ جانے وہ آج اتنا کیوں خوش تھی۔ اقصی کے پاس آ کر بیٹھی اور باتیں کرنے لگی ۔آپی کیا ہے ہر وقت کتابیں ہی پڑھتی رہتی ہو پاگل ہو جاؤ گی تم کیا کرنا ہے اتنی کتابیں پڑ کر تم نے۔ چلو باتیں کرتے ہیں چھوڑو ان کو اقصیٰ کتاب سے نظریں ہٹا کر بولی ارم میرا باتیں کرنے کا دل نہیں کر رہا ۔میں نے یہ ناول ختم کرنا ہے تم یہاں سے جاؤ۔ ارم جو بہت خوش تھی بولی ۔ اچھا چلو کر لینا پر آج باتیں کرتے ہیں۔ اچھا تم بتاؤ تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہ رشتہ ہو جائے گا مجھے تو لگتا ہے ہو جائے گا اچھا سوچنا چاہیے اچھا ہوگا ۔
اقصی نے ارم کی طرف دیکھا اور پھر بڑبڑائی ۔میں نے اس بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے پھر پتا نہیں کیا اس کے دماغ میں آیا اور بولنے لگی ۔ارم مجھے کچھ سمجھ نہیں آتی ہم کیسے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو خود تو نہیں بنایا۔ اور کیا میں خوبصورت نہیں ہوں۔ جو پچھلی بار رشتہ ہوا تھا تو سب مجھے کہتے تھے تمہاری پڑھائی کو ہی سلام ہے ۔تو کیا بس میرے پاس یہی ہے۔اچھی نہیں ہوں کیا۔ مطلب پیاری نہیں ہوں ۔ شکر ہے اللہ کا میں معذور نہیں ہوں ۔ میرا کلر بالکل ٹھیک ہے۔ نہ میرے چہرے پر کوئی داغ ہے ۔نہ میں معذور ہوں اور اگر قد کی بات بھی کرتے ہیں تو اتنا چھوٹا نہیں ہے میرا قد۔ مجھے سن کر شرم آتی ہے اس طرح کی باتیں۔ اور تمہیں پتہ ہے جب گھر میں کوئی رشتہ آتا ہے اور دادو کہتی ہیں ارم ،مقدس اور لائبہ کو چھپا دو بھول کر بھی یہ مہمانوں کے سامنے نہ آئیں۔ کیا مطلب ہے اس بات کا کہ میں اتنی ہی زیادہ بدصورت ہوں کوئی مجھے پسند نہیں کر سکتا صرف مجھے۔ دادو کی یہ بات سن کر بہت شرمندگی ہوتی ہے ۔اور میرا دل کرتا ہے کہ میں کہیں دور چلی جاؤں جہاں پر کوئی نہ ہو۔ ارم اقصیٰ کی باتیں سنتی رہی اور سوچتی رہی میری بہن کو اتنی مایوسی کیوں ہے۔
پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا نہیں ایسا کچھ نہیں ہے تم بہت پیاری ہو ۔اور تمہارا قد بالکل ٹھیک ہے۔ یہ لوگ ہی اچھے نہیں ہیں ۔اور دیکھنا جو نصیب میں ہوگا وہ مل کر ہی رہے گا۔ یہ ہمارے نصیب میں نہیں ہے اور اس لیے ہمیں نہیں مل رہا ۔اچھا تم اب اچھا اچھا سوچو۔ لیکن اقصی نے ارم کی باتوں پر کوئی دھیان نہ دیا۔ اپنی دھن میں مگن کہتی ہی جا رہی تھی ۔مجھے تو لگتا ہے یہ بھی نہیں ہوگا اور تمہیں پتہ ہے ہمارے گھر میں کوئی اچھا رشتہ نہیں آیا ۔وہ جو پہلا آیا تھا لاہور سے تمہیں پتہ تھا وہ ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا اور وہ پڑھا لکھا بھی نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ابو اور امی نے کہا کوئی بات نہیں کر لیں گے ہم ۔اور دیکھو وہ ہم پر سے نقص نکال رہے تھے۔ اپنا بیٹا نہیں دیکھا گیا ان سے ۔اور ارم تمہیں پتا ہے وہ جو بہاولپور سے آیا تھا رشتہ ہاں وہ تو بالکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ تمہیں پتہ ہے اس کا قد مجھ سے بھی چھوٹا تھا ۔پھر بھی ان کو میں پسند نہیں آئی ۔کیوں آتے ہیں یہ لوگ ان کو شرم نہیں آتی اپنا آپ دیکھ کر کیوں نہیں آتے یہ۔ میرا دل کرتا ہے میں ان کو گالیاں نکالوں ۔اور تمہیں پتہ ہے وہ جو فیصل آباد سے ہمارے گھر ایک اچھے گھر سے رشتہ آیا تھا پتا نہیں کیسے غلطی سے شاید۔ لیکن تمہیں پتا ہے امی کو کیا کہا تھا آنٹی نے ان کو کیسی لڑکی چاہیے۔ جو لکھی پڑھی ، ہو جس کا قد نارمل ہو جس کی عمر بھی زیادہ نہ ہو جو گھر سنبھال لے۔ اور جب وہ ہمارے گھر آئے تھے تو پسند کس کو کر کے گئے تھے تمہیں پتہ ہے وہ عائشہ کو پسند کر کے گئے تھے۔ اور عائشہ نے ابھی میٹرک میں ہے۔ کیسے ہیں یہ لوگ چاہیے ان کو عقلمند پڑھی لکھی اور گھر سنبھالنے والی لڑکی چاہیے۔اور پسند ان کو سب سے چھوٹی آتی ہے۔ اور ان کی باتیں سنو تو کیا کہتے ہیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے شکل و صورت تو اللہ نے بنائی ہے قد کاٹھ کا کوئی مسئلہ نہیں یہ سب تو اللہ نے بنایا ہے۔
تمہیں پتہ ہے یہ منڈی لگی ہوئی ہے ۔جس طرح ہر چیز میں ترقی ہو گئی ہے۔ ہم کپڑے نئے نئے ڈیزائن بنا رہے ہیں ۔مکانوں کے نئے نئے ڈیزائن بن رہے ہیں۔ کھانے کی نئی نئی ریسپیز آگئی ہیں ۔اس طرح یہ جو لفظ منڈی ہے نا اس نے بھی ترقی کر لی ہے ۔یہ جو ماں باپ ہیں ان کی جو بیٹیاں ہیں یہ بھی ایک منڈی ہے ۔ جس طرح منڈیوں میں جانوروں کو لے جاتے ہیں۔ اور پھر وہاں پر پسند کی جاتے ہیں۔ اس طرح لوگ گھروں میں آتے ہیں ان کے سامنے ماں باپ اپنی بیٹیاں تیار کر کے بھیجتے ہیں۔ پھر ان کی مرضی ان کو پسند آئے یا نہ آئے ۔تمہیں پتا ہے تایا ابو ہمارے گھر آئے تھے ۔انہوں نے رشتہ مانگا تھا ۔اور انہوں نے بھی لائبہ کا کہا تھا۔ اور وہ ہم دونوں سے چھوٹی ہے ۔ کتنی ایج ہوگی میری میں چوبیس کی ہوں ۔ تم مجھ سے ایک سال چھوٹی ہو تم تئیس کی ہو گئی۔ اور دیکھو وہ ہمارے رشتے دار تھے۔ ابو کا بھائی سگا ۔ پر اس کو بھی پسند کرنے میں مشکل پیش آئی ۔یہ دنیا کا نظام کیسا ہے ارم۔ اب نہ کسی بھی رشتے کی بات کرنے کو دل نہیں کرتا ۔یہ ہم مڈل کلاس لوگ جو ہیں نا ہم نے بیٹیوں کو بوجھ سمجھ لیا ہے۔ اتنا بڑا بوجھ جو ہمیں قبر تک پہنچا دے گا۔ اسی لیے ہم لوگ شادیاں نہیں کرتے ہم لوگ اس بوجھ سے جان چھڑاتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ وہ جو ہمیں رشتہ پسند آیا تھا پسند آنے والا تھا بھلا ۔اس لڑکے کو کوئی بیماری تھی اور اچھا کوئی کاروبار نہیں تھا ۔پھر بھی وہ ہمیں پسند آگیا ۔ حالانکہ ہمارے خاندان میں سب کہہ رہے تھے کہ نہیں یہ اچھا نہیں ہے۔ پھر بھی ہمارے لیے وہ اچھا ہی تھا۔ کیونکہ ہم نے شادیاں نہیں کرنی ہم نے تو بوجھ اتارنا ہے۔ کسی بھی طرح اتر جائے ۔اب تمہیں ہی دیکھ لو دو سال ہو گئے ہیں لیکن جب سے تم نے شروع کی ہے پڑھائی کیا ایک بھی دن خالی گیا۔ کوئی ایسا مہینہ جس میں رشتہ نہ آیا ہو یا پھر بات نہ ہوئی ہو ۔پھپھو آگئی تھی مانگنے تایا ابو آگئے تھے مانگنے پر کوئی ایک دن ایسا ہو تو مجھے بتاؤ جو تم نے سکون سے پڑھا ہو۔ ایسا نہیں ہے۔ تو اس لیے میں بھی تمہیں کہتی ہوں۔ کہ یہ جو تم ڈھیٹ بن کے پڑھ رہی ہو چھوڑ دو۔ کیونکہ جب تمہارا خواب ٹوٹے گا تمہیں بہت دکھ ہوگا۔ میں نے بھی سوچا تھا ماسٹر ہو جائے گا۔ چلو ادھر پرائیویٹ ہی پڑھا کر میں اپنا خرچ اٹھاؤں گی۔ میں کسی سے مانگوں گی نہیں۔ لیکن دیکھو ایسا نہیں ہو رہا۔ جب میں تنگ آ گئی میں نے ہار مان لی پڑھائی چھوڑ دی ۔لیکن ان لوگوں نے ہار نہیں مانی۔ تو تم نے بھی اگر دماغ میں کچھ سوچا ہوا ہے تو چھوڑو ان باتوں کو سب چھوڑ دو یہ نوکریاں کرنے والی بات یہ کچھ بننے والی بات ہم مڈل کلاس لوگ ہیں ۔ہم میں بیٹیوں کے خواب کو نہیں دیکھا جاتا۔ ان کی کوئی اوقات نہیں ہے۔ ارم چپ چاپ اقصیٰ کی باتیں سنتی گئی ۔اور پتہ نہیں کیوں اس کی آنکھوں سے آنسوں بہتے گئے۔
باتیں کرتے کرتے اچانک امی کمرے میں آگئی ۔اور بولی یہاں پر بیٹھ کر بڑ بڑ ہو رہی ہے ۔اور باہر سبزی آئی پڑی ہے سنتا نہیں جا کے بناؤ۔ میں کب سے بلا رہی ہوں کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور اقصی بی بی تم بھی خوش ہو جاؤ پتا نہیں تم قسمت ہی کیسی لے کر آئی ہو ۔نہیں ان کو پسند آیا سمجھ نہیں آتی تمہارا کیا کریں ہم۔ پتا نہیں کیسی قسمت لے کر آئی ہو ۔کوئی نماز پڑھ لیا کرو کوئی وظیفہ ہی کر لو تمہارا ہو جائے رشتہ ۔سارا دن ان کتابوں میں گھسی رہتی ہو ذلیل کیا ہوا ہے مجھے اولاد نے میں کیا کروں۔ غصہ کر کے کمرے سے باہر چلی گئیں ۔اقصی ارم کی طرف دیکھنے لگی ۔ اور بولی دیکھا تم کہہ رہی تھی اچھا سوچو اچھا ہوگا کیسے اچھا ہوگا۔ ہم منحوس لوگ ہیں نہیں اچھا ہو سکتا ہمارے ساتھ۔ جاؤ تم جا کر سبزی بناؤ ۔میں تو نہیں جا رہی جب میری قسمت اچھی نہیں ہے۔ میری قسمت میں یہی لکھا ہے باتیں سننا، ڈانٹ کھانا تو میں کیوں فرمانبردار بنو۔ جاؤ تم جا کے کام کرو جب میرا دل کرے گا میں آجاؤں گی۔ کام کرتے رات ہو گئی رات کا کھانا کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے۔اقصی اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی ۔اور ادھر ہی نیچے فرش پر ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ باہر سے آوازیں آتی رہیں اقصیٰ اب آ کر کھانا ہی کھا لو۔ لیکن اقصیٰ کو کوئی آواز نہ سنائی دی۔سب گھر والے سو گئے ۔لیکن اقصیٰ ویسے ہی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی رہی۔ سوچتی رہی ساری باتیں اس کے دماغ میں آتی رہیں۔ چھپا دینے، والی میک اپ کرنے والی ،چھوٹے قد وا لی یہ ساری باتیں اس کے ذہن میں آتی گئیں ۔پاس رکھے پانی کا گلاس جو رنگوں کی وجہ سے میلا ہوا پڑا تھا اس نے اس کو اٹھایا۔ اور زمین پر زور سے پھینکا جس سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ ایرم کے ابو کی آنکھ کھل گئی۔ بولے تم نے کوئی شور سنا کچھ ہوا ہے جاؤ دیکھ کر آ ؤ بچیاں ٹھیک ہیں . سو جاؤ کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے۔ مجھے تو کوئی آواز نہیں آئی ۔یہ سن کر عالیہ بیگم اور عمر صاحب پھر سو گئے۔ اقصی نے ایک ٹکڑا اٹھایا اور اس کو اپنے سامنے کر کے بولی ۔امی اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ پریشان نہ ہوں ۔ ٹکڑا اٹھا کر کلائی پر پھیرنے لگی ہنستی گئی۔ اور بولتی گئی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔جب ہاتھ سے خون نکلتا دکھائی دیا تو اس نے تھوڑا سا ہاتھ نیچے فرش کی طرف کر لیا اور زور زور سے پھیرنے لگی ۔زیادہ خون نکلنے پر اسی خون کے ساتھ لکھا ۔امی سب پریشانیاں ختم ہو جا۔۔۔۔
اتنا لکھتے ہی اس کے ہاتھ سے ٹکڑا گر پڑا ۔اگلی صبح عائشہ یونیفارم کا دوپٹہ اس کمرے سے لینے گئی تو اس نے دروازہ بجایا پر روز کی طرح دروازہ بند نہیں تھا۔ تھوڑا سا کھلا تھا اندر گئی تو چیخ مار کر باہر آئی اس کی چیخ سن کر لائبہ ،مقدس اور ارم فوراً بھاگی آئی کیا ہوا کیا ہوا عائشہ نے کہا۔ آپی ۔۔۔ اور رونے لگ گئی۔ اندر جا کر جب تینوں بہنوں نے دیکھا تو چیخنے لگی۔ عمر صاحب شور سن کر بھاگے بھاگے آئے ۔ کیا ہوا کیا شور مچایا ہوا ہے ۔ ایک آواز میں سب نے کہا آپی ۔اتنا کہنے کی دیر تھی عمر صاحب کی نظر زمین پر پڑی اقصیٰ پر گئی ۔تو ادھر ہی ان کے قدم رک گئے فرش پر کٹے ہوئے بازو کے ساتھ لکھا ہوا پڑھا۔ امی سب پریشانیاں ختم ہو جا ۔بس عمر صاحب ادھر ہی دیوار کے ساتھ لگے رہے کسی کی ہمت نہیں تھی وہ اگے بڑھ کر اس کو اٹھائیں۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.