اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو اس کے گالوں کو تر کررہے تھے وہ ماضی کے دھندلکوں میں کھویا ہوا تھا ۔اوہ یہ کیا کیا میں نے ؟ کبھی سوچا بھی نہیں تھا اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے ۔اسے ایک ایک کرکے اپنے جیتے ہوئے کیس یاد آرہے تھے کس قدر مدلل دلائل دیتا تھا کہ صرف حق والے ہی نہیں گناہگار بھی باعزت بری ہو جاتے تھے۔اس کی طوطی پورے شہر میں بولتی تھی اور آج وہ بے دم ہوکر پڑا ہے ۔اس کے سامنے جنازہ رکھا ہے لیکن اسے دفنانے کے انتظام  سے پہلے اور بہت سے انتظام بھی کرنے ہیں ۔

۔ راشد زمان بہت کم عرصہ میں شہرت پانے والا ہمیشہ فتح کے جشن منانے والا آج اپنی شکست پر آنسو بہا رہا ہے

اسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے ؟ اس کے سامنے اس کی اکلوتی و لاڈلی بیٹی کا جنازہ رکھا ہوا ہے جس کی اچانک حادثاتی موت نے اسے نڈھال کیا ہوا ہے۔ لیکن وہ اسے دفناتے ہوئے خوف زدہ ہے۔اور اسی خوف کے سبب اس نے کسی کو موت کی اطلاع  بھی نہیں دی ۔

اس کی موت بھی ایک معمہ تھی، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی نازو نعم میں پلی بیٹی کو کس بات نے اتنا پریشان کیا کہ وہ اس کا صدمہ سہہ نہیں سکی اور اچانک حرکت قلب بند ہوگئ۔ یہ تو اسے علم تھا کہ وہ بہت حساس ہے لیکن یہ ملال اسے ستا رہا تھا کہ کوئی پریشانی تھی تو  مجھے کیوں نہیں بتایا وہ یہی سوچتا ہوا اس کے کمرے میں جا پہنچا ۔اس کے استعمال کی ہر چیز کو بغوردیکھنے لگا ۔ہاتھ پھیر کر اس کا لمس محسوس کرنے لگا اسے آج اندازہ ہورہا تھا ۔اپنوں کا غم کیا ہوتا ہے۔وہ بے دم ہوکر اس کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔ تکیہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کا لمس محسوس کرنے کی کوشش میں اسے احساس ہوا کہ اس کے اندر کچھ  کاغذات ہیں۔اس نے فوری ہاتھ ڈال کر نکالے کھولا تو ششدر رہ گیا ۔اسے امید بھی نہیں تھی کہ ایک دن اس کے گناہ اس کے سامنے یوں کھڑے ہوں گے اور ان گناہوں کی سزا اسے ایسے ملے گی۔

یہ تصویر تو جاوید کی تھی وہی موکل جس پر جوان لڑکیوں کے بے حرمتی کا الزام تھا۔راشد زماں جانتے تھے کہ اس الزام میں صداقت ہے لیکن پھر بھی ان کے دلائل نے اسے باعزت بری کرادیا تھا۔اس وقت انہیں نہ جواں لاش کی بے حرمتی کا احساس ستایا تھا نہ اس کے ماں باپ کی آنکھوں سے بہنے والے  آنسو دل کو پگھلا سکے نہ  ان کی بے بسی ،ان کے بندھے ہاتھوں کا درد محسوس کیا تھا ۔آج یہی خوف کہ جاوید جیسے نہ جانے کتنے درندے ہوں  اپنی بیٹی کو دفنانے نہیں دے رہا تھا اور یہ دوسری تصویر یہ تو بابر ہے کفن چور جو میتوں کے دفن ہونے اور رشتے داروں کے لوٹ جانے  کا انتظار کرتا ہے اور ان کے جاتے ہی دفن شدہ میت کا کفن چرا کر اک نئے  جنازہ کی  میت کے لیے بیچ دیتا ہے۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ بابر کی سرپرستی کرنے والا اس کا” مستقل کلائنٹ” تھا وہ اسے ناراض نہیں کرسکتا تھا اسے ہر قیمت پر کیس جیتنا تھا اس کےلیے جھوٹے گواہان خریدے،لفظوں  کی ہیرا پھیری کے ساتھ دلائل کے انبار لگا دیے ۔اپنے تعلقات کا ناجائز استعمال کیا غرض اپنی پوری جان لڑا کر “مجرم” کو “معصوم” بنانےمیں کامیاب ہوگیا ۔

اور یہ خط پیاری بیٹی صوفیہ ۔۔یہ تمہارے والد کے “کارناموں ” میں سے چند ایک ہیں کاش کوئی اس کو سمجھا سکتا تم جانتی ہوں ہم جیسے لوگ اسے “شیطان وکیل” کہتے ہیں تمہیں۔ شاید برا لگے لیکن یہ حقیقت ہے ۔ہمارا نظام مظلوموں کو نہیں مجرموں کو پناہ دیتا ہے اور تمہارے بابا بھی اس میں برابر کے حصہ دار ہیں ۔

تمہاری کلاس فیلو رعنا کی اچانک اور تکلیف دہ موت کے صدمہ سے ابھی اس کے گھر والے باہر بھی نہیں آئے تھے تین دن بعد ہی قبرستان میں بھی اسے محفوظ نہ دیکھ کر والد کا کمزور دل سہہ نہ سکا حرکت قلب بند ہوگئی۔اس کے مجرم کو آزاد کرانے میں بڑا مضبوط کردار تمہارے بابا کا تھا بیٹی انہیں تم روک سکتی ہو خدارا روک لو ہماری بچیاں ژندہ بھی محفوظ نہیں اور قبروں میں بھی نہیں ہم کس سے فریاد کریں ؟

راشد زمان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو خط کو تر کررہے تھے ۔

میری بیٹی کا دل بند ہوگیا یہ پڑھ کر کہ اس کے آئیڈیل باپ کی حقیقت کیا ہے ۔۔مجھے گناہوں کا احساس کب تھا میں نے تو یہ سوچا تھا کہ کیا فرق پڑتا ہے ۔

مرنے کے بعد بے جان لاشے کے کوئی احساسات تھوڑی ہوتے ہوں گے ۔۔میں اپنی بیٹی کو کیسے دفناؤں ؟ کتنے ہی گدھ اب منتظر ہوں گے جنہیں میں نے ہی آزاد کروایا ہاں کوئی شبہ نہیں میں شیطان وکیل ہوں ۔

پھر اس نے فیصلہ کہ مظلوموں کو انصاف دلواؤں گا اور ابتداء جاوید سے کروں گا چاہے کوئی قیمت دینا پڑےلیکن اس سے پہلے اپنی بیٹی کو لحد میں اتارنا تو ہوگا ؛

وہ آنسو پونچھتا ہوا کھڑا ہوگیا ۔قبر میں جواں بیٹی کا لاشہ اتارنا سوہان روح تھا لیکن کرنا تو تھا ۔قبر مٹی ہی سے نہیں لوہے کے دروازے سے بھی بند کی اور تالا لگانا نہیں بھولا ۔اب اس کے کاموں میں بہت اضافہ ہوچکا تھا جس کام کا بیڑہ اس نے اٹھایا آسان نہیں تھا لیکن اتنے ہنگاموں کے درمیان بھی وہ بیٹی کی قبر پر صبح شام جانا نہیں بھولتا تھا ۔جاوید اور بابر کے کیس دوبارہ کھولنے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ ایک نئی واردات کے ساتھ وہ پکڑے گئے تھے  اور ہمیشہ کی طرح انہیں سزا نہ ملنے کا یقین تھا ان کی رسائی اوپر تک تھی اور راشد زماں جیسے معروف وکیل کی ڈور ان کے ہاتھ میں تھی ۔۔کیس شروع ہوا جرم کی تفصیل اور گواہان کے بیان سنے گئے۔مجرموں کو اپنے وکیل کی خاموشی و جھکا ہوا سر کچھ پریشان کررہا تھا۔

 جج کے استفسار پر راشد زماں کھڑے ہوئے اور گویا ہوئے ۔۔میں آج تک اپنے دلائل سے ان مجرموں کو آزاد کراتے آیا ہوں لیکن معزز عدالت کے سامنے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ یہ واقعی مجرم ہیں۔ ان کے جرائم کی فہرست طویل ہے ۔بے جان لاش کی بے حرمتی و کفن چوری ناقابل معافی جرم ہیں اور انہوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ بطور  ثبوت ان کی یہ ریکارڈنگ عدالت کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

 یہ کہہ کر موبائیل اسکرین روشن کی جو کمرہ عدالت میں لگی اسکرین پر بھی واضح دیکھی جارہی تھی۔ جس میں یہ دونوں بیٹھے تازہ واردات کے متعلق بات چیت کرکے محظوظ ہورہے تھے ۔انھیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ دو دن قبل راشد زمان  انھی کے خلاف ثبوت کے لئے ان کے پاس آیا ہے ۔۔معافی کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔مزید دو تین پیشیوں اور کاروائی کے بعد انہیں سزا سنادی گئی اور جس دن سزا سنائی گئی اس دن راشد زماں کو لگا جیسے کوئی بھاری پتھر اس کے سینے سے ہٹ گیا ہو۔ وہ اپنی بیٹی کی قبر پر جاکر زارو قطار رونے لگا ۔

“۔بیٹا اپنے بابا کو معاف کر دینا میں نے کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔مجھے اب اللہ سے تمہارےمردہ جسم کے  محفوظ ہونے کی دعا مانگتے شرم نہیں آئے گی “

 فاتحہ پڑھ کر اپنے ٹوٹے وجود کو سنبھالتے وہ قبرستان سے باہر ہی نکل رہا تھا کہ ایک گولی اس کا سینہ چیرتی آر پار ہوگئی دل پر ہاتھ رکھے وہ زمین پر لیٹتا چلاگیا ۔اس کی شہادت کی انگلی اٹھی ہوئی تھی اور کھلی آنکھیں نوحہ خواں تھی ۔اس دیمک زدہ  نظام پر جہاں جاوید و بابر جیسے لوگ زیادہ دیر سلاخوں کے پیچھے رہ ہی نہیں سکتے کہ ان پر رکھا دست شفقت  آہنی سلاخوں سے زیادہ مضبوط  ہے ۔

۔اس نے اپنی آخری سانس لیتے جاوید کی آواز سنی کہ بابر و جاوید کو سزا دلوانا تم جیسوں کے بس کی بات نہیں اور دھوکا تو ہم معاف کرتے نہیں اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو بارگاہ الٰہی میں فریاد بن کر پہنچ چکے تھے


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content