Friday, May 17
Shadow

ادبِ اطفال | محمد شاہد محمود

محمد شاہد محمود

فی زمانہ بچوں کے لئے لکھی گئیں زیادہ تر کہانیاں ، بچوں کی سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہیں۔ یہی حشر بچوں کی زیادہ تر نظموں کا کیا جا رہا ہے۔ قابلیت ثابت کرنے کے چکر میں بچوں کی ذہنی سطح مدنظر رکھتے ہوئے نہیں لکھا جا رہا۔ اگر کوئی سبق آموز پہلو اجاگر کرنا مقصود ہو ، تقریر اور فلسفہ کی صورت میں لکھا جاتا ہے۔ ایسا بھی پڑھنے میں آیا ہے کہ راقم کہانی میں بچوں کا کردار جمعہ پڑھنے بھیج دیتا ہے اور پھر باقی کہانی خطیب کی زبانی بیان کر دی جاتی ہے۔ کچھ کہانیاں ایسی بھی پڑھیں ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں ، بچوں کی حساسیت بھی نظر انداز کی جا رہی ہے۔
بلا شبہ بچوں کی تربیت میں دینی علوم شامل ہونے چاہئیں ، یہ ضروری ہے۔ لیکن بچوں کے لئے ایسا ادب مرتب کرنا کہ کم عمری میں ہی انہیں فیکٹ اور فکشن میں تمیز ہی نہ رہے ؟ یہ صرف ہمارے یہاں بتدریج رائج ہو رہا ہے۔
کہانیوں میں پرستان کی  پریاں اب وعظ فرماتی ، پڑھی جا سکتی ہیں اور طلسم کدوں میں تسبیحات کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ عمرو عیار ، ٹارزن ، چھن چھنگلو ، فینٹم ، ننھے میاں کے کارنامے وغیرہ نے بچوں کو مطالعہ کی جانب راغب کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ جب بچے ذرا بڑے ہوئے تب اشتیاق احمد کی انسپیکٹر جمشید ، محمود ، فاروق ، فرزانہ سیریز پڑھنے لگے اور عمران سیریز بھی… پھر خود ہی نسیم حجازی کے ناولز میں دلچسپی لینے لگے۔ بچوں نے پہلے پچپنے کا لطف اٹھایا پھر بڑے ہونے پر دیگر مذہبی کتابوں ، سائنسی کتب اور اردو ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ یوں عمر کے ساتھ ساتھ بڑے ہونے پر فیکٹس اور فکشنز میں فرق بخوبی جاننے لگے۔
بچوں کا ادب بچوں کی دلچسپی ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے لکھنا چاہیے۔ ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھنا ضروری ہے۔ فیری ٹیلز کے ساتھ ساتھ جدید موضوعات پر بھی سہل انداز میں لکھنا وقت کی ضرورت ہے۔
ہم سوشل میڈیا پر اکثر لکھتے ہیں کہ بچوں میں مطالعہ کا شوق نہیں رہا۔ ہم اپنے بچوں کو اسکول سلیبس کے علاوہ کتنی کتابیں پڑھنے کے لئے لا کر دیتے ہیں ؟ بچوں کو ہم موبائل فون تو تھما دیتے ہیں مگر کتاب پیش نہیں کرتے۔ پھر خود ہی افسوس میں مبتلا شکوہ کناں بھی نظر آتے ہیں۔
نتیجتاً بچے کتاب پڑھنے کے بجائے ٹک ٹاک پر پائے جاتے ہیں ، کچھ تو ٹک ٹاک وغیرہ دیکھ کر تسلی کر لیتے ہیں اور کچھ اپنی مثبت صلاحیتوں کو منفی رجحانات کی نذر کرتے ہوئے ، ٹک ٹاک اور اسی طرح کے دیگر پلیٹ فارمز پر خود دکھائی دینے لگتے ہیں۔
جس عمر میں ہم تعلیم و تربیت ، بچوں کا باغ اور نونہال جیسے رسالے شوق سے پڑھتے تھے ، اسی عمر میں بچے اب ، رات و رات سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کے سپنے دیکھ رہے ہیں۔ وجہ مطالعہ میں عدم دلچسپی ہے۔
وطنِ عزیز میں ایسی فیملیز دیکھی جا سکتی ہیں جو بچوں کو اردو یا مادری زبان نہیں سکھاتیں۔ یہاں ایک ماں کو اسکول پرنسپل سے کال پر شکایت کرتے بھی سنا گیا ہے کہ میری بیٹی نے آج دورانِ گفتگو اردو کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، اپنا معیار درست کیجیے۔ ہم نے کینیڈا شفٹ ہونا ہے۔
امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا وغیرہ میں ایسے والدین بھی دیکھے گئے ہیں جو اپنے بچوں پر زور دے کر کہتے ہیں کہ گھر میں اردو زبان بولا کرو اور کچھ کو مادری زبان بولنے کی تلقین کرتے بھی دیکھا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں مقیم باشعور والدین بچوں کو آبائی وطن گھمانے ضرور لاتے ہیں تاکہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت سے آگاہ رہیں اور اس سے جڑے رہیں۔
معیاری اردو ادبِ اطفال کے ذریعے ، دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوئے ، نا صرف بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کیا جا سکتا ہے بلکہ بچوں کو اپنی ثقافت اور اردو زبان سے بھی روشناس کرایا جا سکتا ہے۔ حالیہ اردو ادبِ اطفال کے پیشِ نظر بچوں کا معیاری اردو ادب مرتب کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

 

لکھاری کا تعارف

محمد شاہدمحمودایک منجھے ہوئے قلمکار،کہانی وافسانہ نگار اور ناقدہیں۔ فیصل آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ اپنے پیشہ ورانہ کیرئرمیں متعدد ائیرلائنز میں جاب کے دوران مختلف علاقوں میں رہنے کا موقع ملا۔ جہاں متنوع رسم و رواج اور ثقافتیں دیکھ کر لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اردوادب مطالعہ کا شوق شروع ہی سے ہے۔ ایف اے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد  ائیر ٹریڈ میں دلچسپی ہونے کے باعث آیاٹا سنگا پوراورآیاٹا تھائی لینڈ سے ایاٹا افتا ٹریننگ حاصل کی، جس میں دنیا بھرکے مختلف زیزرویشن سسٹمز ائیرپورٹ سیکیورٹی سسٹمز اور سیٹیلائٹ کے ذریعے موسم کا حال پڑھنے کی تربیت وغیرہ شامل ہیں۔انھوں نے بحیثیت انسٹرکٹر بھی فرائض انجام دیے جس میں کسٹمر سروسز اور ائیر روٹنگ بھی شامل ہیں۔ ان کی تحریریں  مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوتی ہیں اس کے علاوہ ان کا تخلیقی کام چار کتابوں میں شامل ہے۔ افسانہ اورمختصر کہانی میں ان کی خاص دلچسپی ہے۔ بچوں کے ادب میں بھی فعال رہے ہیں۔تبصرہ نگاری میں ان کی رائے کو ادبی حلقوں میں معتبر سمجھا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact