تحریر: عمار ابن عبدالوحید سلیمانی
“میں بہت عرصہ استادِ کامل کی تلاش میں رہا ، بہت سے اساتذہ کے حلقہ درسمیں بیٹھا ، ابا جی کے فوت ہونے کے بعد آہستہ آہستہ اندازہ ہونا شروع ہوا کہ میری طبعیت مزاج صلاحیتوں کے حساب سے میرے لئے “بہترین استاد تو میرے ہی والد تھے۔۔۔۔ ”
جب ذرا نئی نئی جوانی چڑھی تب ایک روز ابو کو گاڑی پر مطب لے کر جاتے ہوئے ابو نے میری کسی الٹی سیدھی بات  کے جواب میں مجھے سمجھایا اور خاموش ہو گئے
ملے جلے جذبات سے یہ بات میں نے سنی اور دل میں سوچا کہ دادا ابو (حکیم محمد عبداللہ رح) پردادا ابو(مولانا محمد سلیمان)  تو بہت خاص لوگ تھے۔۔۔۔ میں بھی دادا ابو کو ضرور اپنا استاد بنا لیتا۔۔۔۔۔ اور کچھ سمجھتے اور کچھ نا سمجھتے ہوئے میں بھی خاموش ہوگیا
5 سال پہلے 21 نومبر کو بہت سی باتیں جو سمجھ آ کر بھی سمجھ نہیں آتی تھیں وہ سمجھ آنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔
بہت سے سمجھ آ چکیں وہ باتیں جو کبھی کتابی باتیں لگتی تھیں وہ محسوس ہونے لگیں۔۔۔۔
ایک بات اکثر الجھا دیتی تھی کہ دادا ابو پردادا ابو تو (انشاء اللہ) چنیدہ افراد میں سے تھے ۔۔۔۔ ابو بھی خاص آدمی تھی یا عام آدمی۔۔۔ کبھی کبھی لگتا تھا کہ ہیں تو خاص پر اکثر عام سے کیوں محسوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ یا شائد ہر وہ نعمت جو آپ کو میسر ہو تو عام ہی لگتی ہے
یا شائد جب دیکھنے و محسوس کرنے والی آنکھ ہی عام سے بھی گئی گزری ہو تو وہ خاص افراد کی پہچان کیسے کر پائے گی۔۔۔۔
یا شائد خاص اور عام ہونے کا تصور ہی درست نہیں تھا۔۔۔۔
خاص لگنے کی تو بہت سی وجوہات تھیں لیکن ایک صاحب علم و حکمت ہونا بھی تھا ۔۔۔۔ معلوم نہیں کیوں میں صاحب علم افراد سے بہت جلد مرعوب ہو جاتا ہوں۔۔۔۔ شائد اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا ہو۔۔۔۔ مگر اکثر ابو جب کسی صاحب علم سے گفتگو کر رہے ہوتے تو حیرانی ہوتی۔۔۔۔ کہ ابو کو یہ کیسے پتہ… اچھا۔۔۔۔ ابو کو اس علم کا بھی پتہ ہے۔۔۔۔ایک دفعہ بڑے ماموں ڈاکٹر باقر خاکوانی جو اسلامک لا کے پروفیسر ہیں۔۔۔ ان کی گفتگو کسی اور سے چل رہی تھی ۔۔۔ دوران گفتگو انہوں نے کسی عربی کتاب کا حوالہ دیا۔۔۔ ابو نے سر راہے اس کی تصحیح کی فلاں نہیں فلاں کتاب میں درج ہے ۔۔۔۔ انہوں نے بھی فوراً تصدیق کی کہ آپ نے صحیح کہا۔۔۔ میں بیٹھا دیر تک سوچتا رہا کہ ابو فارمیسی کے طالب علم تھے ۔۔۔۔
اسلامیات کے ماسٹرز میں اتنا تو نہیں پڑھا ہوگا کہ عربی کتب کی عبارات بھی یاد رہ گئیں۔۔۔۔
ایسے ہی بہت سے اشعار کا ایک مصرع یاد نا آ رہا ہوتا تو ابو بتا دیتے۔۔۔۔ جس لفظ کا تلفظ معلوم نا ہوتا تو ابو سے پوچھ لیا جاتا ۔۔۔ ایک دفعہ اردوبازار میں ایک انگریزی کے پروفیسر صاحب نے کسی بات پر ابو سے کہا کہ مجھے امید نہیں تھی کہ آپ کی انگریزی بھی اردو کی طرح نفیس ہو گی۔۔۔۔
کبھی اپنے دوستوں کا تذکرہ کرتے جو کسی نا کسی فیلڈ میں معروف ہوتے تو سوچتا کہ وہ آگے نکل گئے آپ نے کیوں نا وہ فیلڈ اختیار کی۔۔۔۔۔ ایک دفعہ پوچھ بھی بیٹھا۔۔۔۔ ابو نے سیدھا سا جواب دیا کہ میری زندگی کا مقصد پیسہ یا شہرت حاصل کرنا کبھی رہا ہی نہیں
پوچھا کہ کیا مقصد رہا تو وہ شعر سنا دیا
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
میں کتابی سا جواب سن کر خاموش ہو گیا۔۔۔۔
پھر جب میری عمر کچھ زیادہ ہوئی تو لگنے لگا کہ ابو عام زیادہ ہیں ۔۔۔
عام لگنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ بظاہر ایک عام انسان والی زندگی تھی۔۔۔۔ جو حقوق اللہ و حقوق العباد پورے کرنے میں گذر گئی۔۔۔۔
حقوق العباد والا معاملہ تو ٹھیک مگر مجھے لگتا تھا کہ یہ درس و تدریس بس لوگ برکت کے لیے سن لیتے ہیں ۔۔۔۔ اب یہ طریقہ تدریس کارگر نہیں ۔۔۔۔ ایک آدھ دفعہ ابو سے تذکرہ بھی کیا۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ بیٹے تمہیں جس طریقے سے تدریس مناسب لگے تم اس طریقے سے شروع کر دو۔۔۔۔
مثال بننا نقاد بننے سے زیادہ مشکل ہے۔۔۔۔
سو میں چپکا رہا
حقوق العباد میں بھی چونکہ ریا نہیں تھی تو کبھی لگتا کہ ابو سمیت ہم سب حقوق العباد میں بھی عام سے لوگ ہیں۔۔۔۔
سب سے مل لیا ۔۔۔ کچھ گپ شپ کر لی۔۔۔ کھا پی لیا۔۔۔ بس
اس میں خاص تو کچھ بھی نہیں
وہ انصاری صحابی حضرت سعد بن مالک والا واقعہ جو سنا تو کئی دفعہ تھا۔۔۔۔ جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب 3 دن لگاتار جنتی کہا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے 3 روز ان کے گھر میں قیام کیا ان کے خاص الخاص اعمال دیکھنے کے لئے جن کی وجہ سے بشارت ملی
اور جب کچھ خاص نا پایا تو اپنا مدعا بیان کیا
حضرت سعد بن مالک نے فرمایا
میں کسی مسلمان سے کینہ نہیں رکھتا اور کسی مسلمان سے حسد نہیں کرتا۔۔۔۔
میں بس سننے تک محدود رہ گیا۔۔۔۔ ابو نے اس کو عمل سے ثابت کیا اور اللہ کی نظروں میں خاص (انشاء اللہ) ہو گئے
ایسی ہی معاش کے معاملے میں کبھی لگتا کہ ابو بس عام سے کاروباری ہیں۔۔۔۔
جب ابو کی کاروباری جدوجہد کی کہانی سنی تو معلوم ہوا کہ ابو تو انٹرپرونیور ہیں ۔۔۔۔ پھر زیادہ پیسہ کیوں نہیں کمایا۔۔۔۔ جب چند پبلشرز ہوتے تھے تب اس شعبے میں آئے۔۔۔ بڑے بڑے لکھاریوں سے دوستی تھی۔۔۔ ان کی کتب خود دوسرے اداروں کو دلوائیں۔۔۔۔ ایک دفعہ میں بھی نے پوچھا بھی کہ آپ نے اشفاق احمد مرحوم کی کتب کیوں شائع نہیں کیں تو کہا بیٹا سب وقت کاروبار کے نام کر دیتا تو دین کے لئے وقت کہاں سے نکالتا ، ، میں نے اللہ سے اتنا مانگا ہے کہ کسی ضرورت کے لئے کسی سے سوال نہ کرنا پڑے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ دینے والا ہاتھ عطا کرے۔۔۔۔۔ باقی خواہشات تو کبھی ختم نہیں ہوتیں۔۔۔۔
ہاں عزت و نیک نامی خوب خوب کمائیں
جب ابو کوکھونے کے بعد زندگی کا رخ بدلا تو جذبات احساسات بھی بدلنے لگے۔۔۔ پھر بہت سے خاص لوگوں(دینی معاملات میں) کی طرف سے گواہیاں آنے لگیں تو احساس زیاں بڑھنے لگا۔۔۔۔ اور جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے احساس زیاں ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔
معاملات ہوں کہ عبادات ، معاش ہو یا تعلیم و تعلم ، مقصد زندگی کی پہچان ہو یا کہ کوئی بھی معاملہ ، گاڑی میں کہی ابو کی بات یاد آتی ہے اور دل کی کسک ذرا تلملا کر احساس زیاں کو تکلیف میں بدل دیتی ہے
5 سال ہونے کو آئے ہر ماہ کوئی نا کوئی ایسا مریض آ جاتا ہے جو لمبے عرصے بعد
آیا ہوتا ہے اور آ کر وہ ان کو اخلاق کی گواہی دے کر دعا کو ہاتھ اٹھا دیتا ہے۔۔۔۔
عبادات کی بات کی جائے تو ان کے ایک ہاسٹل کے کمرے کے ساتھی و ملکی سطح پر مشہور صحافی نے کسی دوست کو کہا میں تو سلیمانی صاحب کو صرف بڑا حکیم سمجھتا تھا۔۔۔۔ یہ تو کچھ اہل نظر نے بتایا تو معلوم ہوا یہ تو بڑے لیکن چھپے ہوئے صوفی بھی تھے۔۔۔
انکی نوجوانی کے دوست اور میاں طفیل مرحوم کے بیٹے میاں احسن فاروق انکی وفات کے چند روز بعد آئے تو آبدیدہ ہو کر ایک ایسا تبصرہ کیا کہ ابو سن لیتے تو خوب ہنستے
کہنے لگے کہ الحمدللہ ہم نے بھی جوانی سمیت ساری زندگی شرافت کی بسر کی لیکن حکیم صاحب تو جینوئن شریف آدمی تھی۔۔۔۔
نفس کو آنچ پر اور وہ بھی عمر بھر رکھنا
بڑا محال ہے ہستی کو معتبر رکھنا
جب زندگی کا مقصد نوجوانی سے ہی واضح ہو جائے تو یہ محال کام بھی محال نہیں رہتا۔۔۔۔
فحش گوئی ، پھکڑ پن ، جھوٹ ،غیبت ،بہتان اور زبان کی تمام عیوب سے عمر بھر خود کو بچا کر رکھنا۔۔۔۔ بولنے یا لکھنے میں تو سہل ہے۔۔۔۔ عمل میں اتنا سہل ہوتا تو صرف 2 چیزوں کو ضمانت پر جنت کی بشارت نہ ہوتی
بندہ مومن کی تقریباً سب صفات جب قرآن و احادیث میں نظر سے گذرتی ہیں تو
ان کا حامل بندہ تلاش کرنے کے لئے نظر دوڑائوں تو پہلی نظر ابو پر ہی پڑتی ہے۔۔۔
چاہے وہ حقوق اللہ سے متلعق ہوں یا حقوق العباد سے متعلق
سلمان آصف صدیقی کے تربیت اولاد پر لیکچر دیکھے تو محسوس ہوا کہ ابو نے ان اصطلاحات کا نام لئے بغیر اچھی تربیت تقریباً اسی نہج پر کی تھی جو قریباً آئڈیل سمجھی جاتی ہے
فجر کی نماز شائد سب کو ہی مشکل محسوس ہوتی ہوگی
ابو مجھے نماز کے لئے اٹھاتے ساتھ ساتھ کان کے قریب لاحول ولا قوہ کا ورد بھی شروع کر دیتے
شروع میں تو چند ثانیے تلملاہٹ ہوتی مگر پھر شیطان اپنی نحوست کو اٹھا کر بھاگ جاتا اور آنکھ کھل جاتی
کبھی میں گاڑی تیز چلاتا تو بجائے اس کے ڈانٹ ڈپٹ کریں۔۔۔۔ سفر کی دعا بآواز بلند شروع کر دیتے۔۔۔۔
مزدور یا نچلے طبقے  سے احترام سے بات کرنا بلکہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ احترام مجھے کچھ عجیب لگتا تھا۔۔۔۔ ایک دفعہ کسی پٹرول پمپ پر پٹرول ڈالنے والے سے گپ شپ کے دوران میرے چہرے پر ناگواری کے اثرات کچھ شدید ہو گئے تو ابو نے محسوس کرلیا۔۔۔۔ اسی لمحے پمپ والا بھاگا بھاگا کمرے سے گاڑی صاف کرنے والا کپڑا لے آیا اور ابو کو کہا انکل جی یہ آپ کے لئے تحفہ۔۔۔۔۔
اب کے ابو نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور کچھ نہ کر بھی بہت کچھ سکھا گئے۔۔۔۔
جس پہلو کو سوچتا جائوں اس میں ابو کی کہی کوئی بات یا عمل یا شعر یا ضرب الامثال ۔۔ کچھ نا کچھ مل ہی جاتا ہے
ایک شعر کئی دفعہ ان کے مونہہ سے سنا
زندگی اپنے ہی پائوں پہ چلا کرتی ہے
پائے اغیار پہ جاتا ہے جنازہ اے دوست
جب ابو کا جنازہ اٹھایا تو ابو کی آواز میں شعر کانوں میں گونجنے لگا
پتہ نہیں کتنوں کا نکاح اور جنازے پڑھائے تھے
جب ابو کا جنازہ ہو رہا تھا تو جنازے کی دعاؤں کے الفاظ لوگوں کے لئے تو پروفیسر مزمل شیخ صاحب کے مونہہ سے ادا ہو رہے تھے۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ ابو ہی آگے کھڑے جنازہ پڑھا رہے ہیں۔۔۔۔
ایک لمبے عرصے تک تو یہی لگتا تھا کہ
تمہاری قبر میں تو میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
پھر 3 4 سال کے بعد زندگی نے ابو کے بغیر آگے بڑھنا شروع کیا
ابو سے محبت تو ظاہر ہے کہ باپ ہونے کے ناطے سے تھی ہے۔۔۔۔ البتہ عقیدت ان کے جانے کے بعد شروع ہوئی۔۔۔۔
اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید بڑھ گئی
ہر گزرتے سال کے ساتھ ابو خاص سے خاص الخاص لگنے لگے ہیں۔۔۔۔
ایک طرف مجھے اپنی نوجوانی میں عام سے دکھنے والے ابو۔۔۔۔ جو اپنے اولاد ہی نہیں اپنے احباب رشتہ دار اور دوستوں سب کا فخر ہیں (اگر خوابوں کا تذکرہ خود نمائی نا محسوس ہوتا تو کچھ اللہ والوں نے قبل از وفات و بعد از وفات ابو سے متعلق کچھ اچھے خواب بھی دیکھے تھے )۔۔۔۔ سب ان کے اخلاق و کردار کی گواہی دینے والے ہیں۔۔۔۔ سب ہی اچھی الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں  ۔
اور ایک طرف میں۔۔۔۔  کہ جس کی ایک خواہش ۔۔۔ جو ہنوز تشنہ ہے۔۔۔۔ ۔۔۔ کہ کاش۔۔۔۔ میں اپنے دادا پردادا جیسا نا سہی ۔۔۔ اپنے والد جیسا ہی بن سکوں۔۔۔
جانے کہ بعد کسی کو یاد آئوں تو دعائے خیر کا مستحق تو ہوں۔۔۔۔
میرے نامہ اعمال میں بھی کچھ تو ایسا ہو کہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے باعث شرمندگی کی بجائے باعث فخر بن سکوں


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content