تحریر: عروج فاطمہ
اسلام آباد کی سردراتوں میں یاسمین راشد گارڈن کے پاس ایک کھلکھلاتی ہوئی ہنسی کی آواز گونجتی ہزاروں لوگوں کو منموست کرنے کے لیے کافی تھی۔ سیاہ لباس میں ملبوس اور سنہری رنگ کی زلفوں کو کھولے ہوئے،چھوٹی چھوٹی آنکھوں والی اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ بھائیوں کی زندگی کے لئے ان کی اکلوتی بہن بسمہ کی ایک مسکراہٹ ہی کافی تھی۔
زندگی کے اتار چڑھاؤ تو زندگی کا بس ایک کھیل ہے لیکن اس کی زندگی میں آیا ایک خاموش طوفان جو اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی آنکھوں کی مسکراہٹ بھی چھین کر لے گیا۔ منظر تو تب بدلا جب اس کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو باہر سے تو شرافت کا لبادہ اوڑھے مگر اندر سے ایک شیطان صفت تھا۔ جوکہ ایک ہی زندگی کے ہزار ٹکڑے کرکے اس نے زندگی کے کسی عبرت ناک موڑ پر انجام دیا۔
بسمہ کی جیسے ہی اس لڑکے پر نظر پڑی تو کچھ لمحوں کےلئے اپنے حواس کھو بیٹھی اور دوسری طرف کا ردعمل بھی یہی تھا۔ ابھی سرد ہوائوں کا راج ہی تھا کہ اچانک سے زوردار بارش کی آمد ہوگئی۔ اتنے میں شاویز جوکہ بسمہ کا بڑا بھائی تھا اس نے بسمہ کو آواز دی اور کہنے لگا جلدی چلو آج بارش میں رہنے کا ارادہ ہے کیا۔
سلمان اس کے نام سے واقف ہو چکا تھا مگر وہ اب بھی اس کے نام سے انجان تھی کچھ لمحوں کے بعد وہ اپنے کمرے میں بیٹھی یہی سوچ رہی تھی کہ آخر وہ شخص تھا کون؟ آخر اس کا نام کیا تھا؟ کیا ہمارا اس طرح آمنا سامنا ہونا اتفاق تھا یا پھر قسمت کا کوئی نیا کھیل
اگلی شام وہ پھر وہاں پہنچی اور انتظار بھری نظروں سے اسے تصور کرنے لگی اور اسی دوران سلمان اس کی نظروں کے سامنے آکھڑے ہوا اور اس کے سامنے آتے ہی بسمہ کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے دوسری طرف سلمان اس سے بات کرنے کا منتظر تھا۔
اس نے ادھر اُدھر نظریں گھمائیں اور سلام پیش کیا۔
بسمہ ایک دم سے بکھلا گئی جی جی وعلیکم السلام، آپ کون؟ بڑی ہمت کرکے اتنے الفاظ کہ سکی اور سلمان نے اپنا مختصر سا تعارف پیش کیا اور آہستہ آہستہ دونوں میں باتیں شروع ہوگئی۔ اس کے بعد ہر شام وہ اسی جگہ ملتے تھے اور اسی طرح ان کو ملتے ہوئے چھ ماہ گزر گئے۔
بسمہ اب دل ہی دل میں اس سے محبت کرنے لگی اور وہ اس کے ذہن اور دل پر حاوی ہو چکا تھا۔ ایک دن اس نے سوچ لیا کہ آج وہ اپنی محبت کا اظہار کرے گی اور اپنی محبت کو پاکیزہ بنانے کے لیے نکاح کا اظہار کرے گی۔ شام پانچ بجے جب وہ گارڈن میں پہنچی تو اس کی عجیب سی کیفیت تھی اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ یہ بات کیسے کہے مگر اس نے ہمت کرکے سلمان سے یہ بات کہہ ڈالی کہ میں نہیں جانتی یہ کیسے ہوا مگر خود پر اختیار نہیں۔ میں تم سے بے پناہ محبت کرنے لگی ہوں اور اسی محبت کو پاکیزہ یعنی نکاح کا نام دینا چاہتی ہوں۔ بسمہ نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا اور جواب کے انتظار میں کھڑی ہوگئی۔
پھر اچانک سلمان کے جواب سے سب کچھہ بدل گیا۔
سلمان نے ایک قہقہہ لگایا اور کہنے لگا میں مجھے تم سے محبت نہیں اور نکاح یہ تم کونسی سوچ میں ہو آج کے دور میں یہ سب نہیں چلتا میں تو بس دل کو بہلانے کےلئے چند پل تم سے باتیں کرتا تھا۔
بس سلمان کا اتنا کہنا تھا کہ بسمہ نے اپنے کانوں کی سماعت اور آنکھوں کی بینائی کھو دی اور اس کا دماغ ساکن ہو گیا۔ اس کی دھڑکن جیسے تھم سی گئی ہو۔ اس نے اپنے حواس کھو دیئے اور ایک سنسان سڑک پر چلنے لگی اسے اپنے اردگرد کے ماحول کی کچھ خبر نہ رہی کہ اتنے میں تیز رفتار گاڑی نے اسے اڑا دیا اور یہ سارا واقعہ سلمان اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔وہ تیزی سے اس کے پاس دوڑا ہوا آیا تو وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اب شاہد وہ خود ہی جینا نہیں چاہتی تھی۔ آخری وقت میں بھی وہ اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ اسی جستجو میں کچھ لمحوں میں اس کی روح پرواز کر گئی۔ یہ سارا منظر سلمان حیرانی اور بے بسی سے دیکھتا رہا اور کچھ نہ کر سکا۔
اس کے بعد سلمان نہ ہی اس کی سوچوں سے آزاد ہو سکا اور نہ ہی کبھی خود کو معاف کر سکا۔
ہے آرزو کے تجھے بھلا دو
ہے دل کی التجا ہر شام روبرو تو ہو
لکھاری کا تعارف
عروج فاطمہ بارہویں جماعت کی طالب علم اور علم و ادب کی دلدادہ ہیں۔افسانہ نگاری میں نام پیدا کرنا ان کا دیرینہ خواب ہے۔ وہ چکوال کے مضافاتی علاقے رپوال سے تعلق رکھتی ہیں۔.
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.