اطہرمسعود وانی
پاکستان اور ہندوستان نے غیر متوقع طور پر کشمیر کو غیر فطری اور کشمیریوں کو جبری طورپر تقسیم کرنے والی لائین آف کنٹرول پر فائربندی سے اتفاق کیا ہے۔
جمعرات(25فروری)کو پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم اوز) نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے پر اتفاق کیا ہے، جو امن کی خرابی اور تشدد کا سبب بنتے ہیں۔
دونوں فریقین نے ایل او سی اور دیگر تمام سیکٹرز پر تمام معاہدوں، سمجھوتوں اور جنگ بندی پر سختی سے عمل پیرا ہونے پر اتفاق کیا۔ہندوستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز(ڈی جی ایم اوز) کے درمیان ہاٹ لائن گفتگو اورجاری مشترکہ بیان کے بعد دونوں فریقین نے لائن آف کنٹرول اور دیگر تمام راستوں پر تمام معاہدوں ، افہام و تفہیم اور فائرنگ بند کرنے پر سختی سے اتفاق کیا ہے۔
ہندوستانی دفتر خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ معمول کے دوستی تعلقات کا خواہاں ہے اور پر امن طریقے سے تمام معاملات کو دو طرفہ طریقے سے حل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیانے فوجی عہدیداروں کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے ساتھ لائین آف کنٹرول پر سیز فائر کے سمجھوتے کے باوجود کشمیر میں فوجی کاروائیاں اور فوجیوں کی تعیناتی کا عمل روکا نہیں جائے گا۔ فوجی عہدیداروں کہا کہ جنگ بندی معاہدہ علاقائی امن کی طرف ایک قدم ہے۔
جمعرات کو ہی ہندوستان کے روزنامہ ‘ دی ہندو’ نے اپنی ایک خبر میں دعوی کیا کہ ہندوستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجت ڈوول اور پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر معید یوسف کے درمیان ‘ بیک چینل ‘ سے گزشتہ کئی ماہ سے رابطہ ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معیدیوسف نے ہندوستانی میڈیا کی ان اطلاعات کی تردید کی کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر کی لائین آف کنٹرول( ایل او سی) پہ فائربندی پہ اتفاق ایسی ‘ بیک چینل ڈپلومیسی’ کا نتیجہ ہے اور ان ‘ بیک ڈور ‘مذاکرات میں انہوں نے ہندوستان کے مشیر قومی سلامتی اجت ڈوول کے ساتھ ملاقاتیں کی تھیں۔
ڈاکٹر معید یوسف نے اپنے ایک ٹوئٹ بیان میں کہا کہ ہم نے ہندوستانی میڈیا کے دعوے دیکھے ہیں جو پاکستان اور ہندوستانی ڈی جی ایم اوز کے مابین جنگ بندی کے اعلان کو میرے اور ہندوستانی این ایس اے کے مابین بیک چینل ڈپلومیسی کا سبب قرار دیتے ہیں، یہ بے بنیاد ہے،۔
میرے اور مسٹر ڈوول کے مابین ایسی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے،کنٹرول لائن پر خوش آئند پیش رفت ڈی جی ایم اوز کے قائم کردہ چینل کے ذریعے ہونے والی بات چیت کا نتیجہ ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ ”ہم ہندوستان اور پاکستان کے مابین مشترکہ بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ دونوں ممالک 25 فروری سے شروع ہونے والی لائن آف کنٹرول کے ساتھ جنگ بندی کے سخت عمل کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔”
امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ ونوں ملکوں کے درمیان رابطوں اور لائین آف کنٹرول پر کشیدگی و تشدد میں کمی کی حوصلہ افزائی مسلسل جاری رکھے گا
۔یہ جنوبی ایشیا میں زیادہ سے زیادہ امن اور استحکام کی سمت ایک مثبت اقدام ہے جو ہمارے مشترکہ مفاد میں ہے اور ہم دونوں ممالک کو اس پیشرفت پر قائم رہتے ہوئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ہم بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر اور دیگر امور کے معاملات پر براہ راست بات چیت کی حمایت کرتے رہتے ہیں ۔
امریکی ترجمان نے کہاکہ پاکستان ایک اہم شراکت دار ہے جس کے ساتھ امریکہ بہت سارے مفادات کا شریک ہے۔”ہم اس مسئلے کے معاملے میں واضح ہیں۔ ظاہر ہے ، پاکستان کا ایک اہم کردار ہے جب وہ افغانستان کی بات آتی ہے اور اس کی دوسری سرحد کے اس پار کیا ہوتا ہے۔
اس طرح واضح طور پر ، ہم پوری توجہ دے رہے ہیں ، اور ہم پاکستانیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ افغانستان سمیت کشمیر سمیت اپنے دیگر مشترکہ مفادات سمیت باہمی مفادات کے ان تمام شعبوں میں تعمیری کردار ادا کریں۔جمعرات کو وائٹ ہائوس کے پریس سکریٹری جین ساکی نے بھی اپنی روزنامہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ بائیڈن انتظامیہ خطے کے متعدد رہنماں اور عہدیداروں کے ساتھ قریبی مشغول ہے ، ، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ مثبت قدم فراہم کرے گا مزید مکالمے کا موقع فراہم کرے گا۔یہ کشیدگی کم کرنے کا ایک اہم اقدام ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجرک نے امید ظاہر کی کہ یہ مثبت قدم مزید بات چیت کا موقع فراہم کرے گا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس کے صدر ولکان بوزکیر نے ایک بیان میں کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں1988سے ہندوستان سے آزادی کی سیاسی اور عسکری تحریک جاری ہے اور اس دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیرہندوستانی فورسز کے ہاتھوں شہید کئے گئے ہیں۔ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں دس لاکھ سے زائد بھارتی فوج متعین ہے اور وہاں کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے خلاف ہندوستانی فوج کے آپریشن مسلسل جاری ہیں۔
کشمیریوں کا مطالبہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حل کیا جائے۔ ہندوستان نے5اگست2019کو پارلیمانی کاروائی کے ذریعے ریاست جموں وکشمیرکی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس صورتحال میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں استفسار کیا تھا کہ ” کیا میں ہندوستان سے جنگ کر دوں”۔اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان یا کشمیریوں کی طرف سے ایسا کوئی اقدام نہیں ہونا چاہئے .
جس سے ہندوستان کو آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان پر حملے کرنے کا بہانہ مل جائے۔یہاں اس بات کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں کہ کشمیر اور کشمیریوں کو غیر فطری اورجبری طور پہ تقسیم کرنے والی ” لائین آف کنٹرول’ پہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان فائربندی کے سمجھوتے میں امریکی صدر جوزف بائیڈن انتظامیہ کا کردار ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ‘بیک ڈور چینل’ سے بات چیت اس صورتحال میں باعث تشویش ہے کہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں مزاحتمی تحریک کے رہنمائوں کو قیداور جبر کے ذریعے محدود کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی کشمیریوں کے خلاف فوجی آپریشن بھی مسلسل جاری ہیں۔
کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کے بھر پور دبائو کی صورتحال میں ہندوستان کے ساتھ پس پردہ بات چیت اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ‘لائن آف کنٹرول ‘ پر سیز فائر کے ذریعے دونوں ملکوں کے رابطوں سے عملی پیش رفت سامنے آ رہی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان باہمی اتفاق سے کشمیریوں کو کوئی ریلیف ملتے نظر نہیں آتا۔اس صورتحال میں دونوں ملکوں کے درمیان مزاکرات کن خطوط پر ہو سکتے ہیں،یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔گزشتہ روز ہی امریکی وزیر خارجہ اینٹنی جے بلنکن نے صدر جوزف بائیڈن کے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی مرکزی حیثیت ہے۔
ہندوستانی زیر انتظام کشمیر ایک ملین ہندوستانی فوج کی موجودگی میں ایک جیل کا منظر پیش کر رہی ہے اور دوسری طرف لاکھوں کشمیری اپنے وطن میں اپنے حقوق سے محروم ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کشمیر کے معاملے میں کئی بار باہمی اتفاق کا اظہار کر چکے ہیں.
لیکن اس سے نہ تو کشمیریوں کو اپنے حقوق مل سکے اور نہ ہی کشمیریوں کے خلاف ظلم و جبر کی صورتحال میں بہتری آ سکی۔
بتیس سال سے جاری کشمیریوں کی سیاسی اور عسکری مزاحمتی تحریک کو ہندوستان کے رحم وکرم پر چھوڑ کر ہندوستان سے مزاکرات کی کوئی بھی کوشش کشمیریوں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لئے بھی ناقابل تلافی مہلک نتائج پر منتج ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے سابق سینئر سفارت کار عبدالباسط نے کہا ہے کہ اگر پاکستان ہندوستان کے ساتھ ‘ بیک ڈور ڈپلو میسی’ میں ملوث ہے تو ہم بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں اور اس میں پاکستان اور کشمیری کا ہی نقصان ہے۔
پاکستان کا تو یہ سٹینڈ تھا کہ ہندوستان سے اس وقت تک بات نہیں کی جائے گی کہ جب تک ہندوستان کشمیر سے متعلق اپنے اقدامات واپس نہیں لے گا،وزیر اعظم عمران خان نے تو ایک امریکی اخبار میں بھی یہی بات لکھی اور آج ہم اپنی پوزیشن سے خود ہی پیچھے ہٹ رہے ہیں،آخر ہم کشمیریوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیںَ۔انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت چاہتی کیا ہے،لگتا یہی ہے کہ اشوز کی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.
You must be logged in to post a comment.