تبصرہ نگار: نصرت نسیم

بہت سندر نام اور بہت پیارے انتساب کے ساتھ تسنیم کی طرف سے یہ گراں قدر تحفہ موصول ہوا۔ کتاب کے پبلشر پریس فار پیس فاؤنڈیشن یوکے کے ساتھ ایسا قلبی تعلق ہے کہ اسے ہم اپنا ہی ادارہ سمجھتے ہیں۔ اس کے روح رواں برادر مکرم ظفر اقبال صاحب عزت و احترام سے نوازتے ہیں اور کتابوں کے تحفے ان کی طرف سے موصول ہوتے رہتے ہیں مگر چین کا یہ سفرنامہ تسنیم جعفری نے بھجوایا ہے جن سے محبت و مودت کا اپنا ایک تعلق اور رشتہ ہے۔

تسنیم سے محبت کا یہ رشتہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے اس تحریری مقابلے سے ہوا جس میں تسنیم کی ادبی خدمات کے حوالے سے تحریری مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ ہم نے ادبی کام کی بجائے ان کی شخصیت پر لکھا اور انہیں ”پیکر مہر و وفا“ کا نام دیا۔ گو کہ ہم ان سے ملے نہ تھے مگر فون پر گفت گو اور ان کی ایثار پسند طبیعت کو دیکھتے ہوئے اس عنوان کے تحت لکھا اور یہ تحریر انعام یافتہ قرار پائی۔

پھر جب 2021 میں ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی تو یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ (انہیں پیکر مہر وفا ہی پایا) جو ہمارا اندازہ تھا، انہیں اس سے بڑھ کر پایا۔ تصنع اور بناوٹ سے مبرا، سادگی و خلوص کا پیکر تسنیم جعفری سے مل کر اور بھی خوشی ہوئی۔ مجھے بھی اور تسنیم کو بھی۔

چھوٹی بہن کی طرح تسنیم کی خوشیوں اور کامیابیوں کے لئے دعا گو رہتی ہوں۔ چین کا شاندار سفر اور پھر اتنا خوبصورت سفرنامہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔

یوں تو چین سے ہمارے قلبی و روحانی رابطے ہیں۔ پہلا تعارف تو وہ حدیث ہے کہ ”علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔“ پھر اپنے محبوب شاعر علامہ اقبال کی پیشن گوئی کہ

ہمالہ سے چشمے ابلنے لگے
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

پھر ہم نے وہ دور بھی دیکھا کہ جب باقی چین کا دنیا سے تعارف کروانے میں پاکستان پیش پیش رہا۔ بھٹو کے دور میں پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ نعرہ زبان زد عام تھا کہ پاک چین دوستی ہمالہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے۔ ہم نے ماؤزے تنگ اور چو این لائی کا دور دیکھا۔

ہم سے ایک سال بعد آزاد ہونے والے چین نے مشکلات و مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ کبھی ایسا وقت بھی تھا کہ چائنیز کراچی آتے تو بلند و بالا عمارات کو حسرت سے دیکھتے اور آج یہ دور ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی چین کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ چین محنت اور ترقی کا استعارہ ہے۔

ابن انشاء کا سفرنامہ ”چلتے ہو تو چین کو چلئے“ ، جمیل الدین عالی اور بہت سے اہل قلم نے چین کے سفر نامے لکھے اور ہم نے ان کی آنکھ سے چین کو دیکھا۔

شاہراہِ ریشم چین اور پاکستان کی لازوال دوستی کی ایک ایسی جیتی جاگتی داستان ہے جس کو چینی و پاکستانی انجینئرز نے اپنے خون سے لکھا ہے۔ ”اور اب یہ جو چین کو علم سے نسبت ہے“ کے سفرنامے میں چین کی ترقی، محنت، نظم و ضبط کا مشاہدہ اور تجزیہ تسنیم نے بہت باریک بینی سے کیا ہے۔

سفر نامے کا آغاز چین کا ویزہ حاصل کرنے کی مشکلات سے ہوتا ہے۔ چین جانے کے خواہش مند لوگوں کے لئے یہ باب راہ نمائی کر سکتا ہے۔ پھر آئر چائنہ میں سادہ غذا کی تفصیل بھی کافی دل چسپ ہے۔

ایک طویل سفر کے بعد مصنفہ گھر جاتی ہیں تو منتظر بھابھی سادہ ڈبل روٹی اور انڈوں کا خاگینہ پیش کرتی ہیں۔ اب یہاں ہم پاکستانی پرتکلف ناشتے اور ظہرانے والے لوگوں کو یہ دیکھ کر حیرت سی ہوتی ہے لیکن آگے چل کر قاری بھی سادہ بریڈ اور خاگینے کا عادی ہو جاتا ہے کیونکہ ہر جگہ تواتر سے یہی کھانا دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک وقت میں بہت سے انڈے کھانے والی بات بھی عجیب سی لگی۔ اس کی تلافی ان کے بھائی یوں کرتے ہیں کہ باہر ظہرانے و عشائیے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ عمدہ ریستوران موجود ہیں جو پاکستانی، چائنیز اور مغربی کھانے پیش کرتے ہیں اور زیادہ تر لوگ ان طعام گاہوں اور برگرز سے پیٹ پوجا کرتے ہیں۔

مصنفہ دوسرے ہی دن دیوار چین دیکھنے گئیں۔ یہ دیوار 13 ہزار 171 میل اور 21 ہزار 196 کلومیٹر طویل ہے۔ اور یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ چین بھی یہ طوالت چھ سالہ آرکیالوجیکل سروے کے بعد 2012 میں جان پایا ہے۔ ایک اور نئی بات یہ پتہ چلی کہ ایک صدی کی تکلیفوں نے چینی قوم سے رنگینی چھین لی ہے۔ اب جاکر عورتوں کو عورتوں جیسے لباس پہننے کی اجازت ملی ہے تو وہ رنگوں کی پہچان بھول چکی ہیں۔ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق تسنیم کے بھائی انہیں کہتے ہیں یہ دیہاتیوں جیسے رنگین کپڑے کیوں پہنتی ہو۔

تسنیم جعفری ادب اطفال کا اہم نام اور بہت سی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ایک لکھاری کی نظر سے انہوں نے چین، وہاں کی ترقی اور لوگوں کے عادات و اطوار کا بنظر غائر جائزہ لیا ہے۔ چین کی صنعتی اور سائنسی ترقی قدم قدم پر انہیں حیران کرتی ہے۔ اس ترقی کے پیچھے حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی ان تھک محنت اور قانون کا احترام دیکھ کر انہیں اپنے ملک، حکومت اور عوام کا محنت سے جی چرانا یاد آتا ہے تو دکھی ہوجاتی ہیں۔ جگہ جگہ سبزہ و گل، جھیلیں اور خوب صورت پارک دیکھتے ہوئے وہ موبائل سے تصویریں لیتی جاتی ہیں جن میں سے بیشتر اس کتاب میں شامل ہیں۔

اپنی طویل بیماری کے بعد یہ پہلی کتاب ہے جس کا مطالعہ میں نے بہت شوق سے کیا اور یہ کسی بھی کتاب کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ خود کو پڑھوائے اور اس میں دل چسپی اور تجسس کا عنصر برقرار رہے اور اگر کتاب سفرنامے کی ہو تو قاری کو لگے کہ وہ ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہے۔

تسنیم کی شخصیت میں جو سادگی اور نفاست ہے، ان کی تحریر ان کی شخصیت کی آئینہ دار ہے۔ سادہ، رواں دواں، مبالغے اور بناوٹ سے پاک اس سفرنامے کو ایک روزنامچے کی طرز پر لکھا گیا ہے۔ اس لئے ان کے سفر کی تمام جزئیات اور کھانوں کا ذکر تواتر کے ساتھ آتا ہے۔ کتاب میں زم زم ہوٹل، سلطان ہوٹل اور میک ڈونلڈ کے کھانوں کا تذکرہ بار بار ملتا ہے۔ ہوٹلز کی صفائی اور سجاوٹ انہیں متاثر کرتی ہے۔

چینی قوم ماؤ کے احکامات کی پیروی دل و جان سے کرتی ہے۔ لہٰذا شام کو پارکوں یا جھیل کنارے تمام لوگ ورزش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو ورزش کرتے دیکھ کر ان کی بھابھی کہتی ہیں یہ ڈانس کر رہے ہیں۔ تسنیم انہیں سمجھاتی ہیں، نہیں یہ ایروبک کی ورزشیں ہیں جنہیں آپ بھی کر سکتی ہیں۔

ان کی چینی بھابھی نو مسلم ہیں اور وہ اس حد تک محتاط ہیں کہ چائنیز ریستوران میں کھانے سے اجتناب کرتی ہیں کہ ساسز میں کچھ حرام نہ ہو۔ پاکستانی دوستوں کے گھر، پاکستان جیسے پرتکلف ظہرانے اور عشائیے انہیں پسند آتے ہیں اور مجھے بھی۔

چھنداؤ کا خوب صورت ساحل سمندر بھی خوب رہا اور اس نے ہمیں بھی راس الخیمہ اور فجیرہ کے سا حل، اس کے دل ربا نظارے اور کروز کے سندر اسفار یاد دلا دیے۔

چین میں گلاس برج جدید فن تعمیر کی انتہا ہے۔ جہاں انہیں تیرہ سو سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑا اور یہ پڑھ کر ہی میری سانس پھول گئی۔ اس کے بعد کا سفر چیئرلفٹ پر طے کیا اور اس کے بعد پھر پتھریلی سیڑھیاں۔ سیڑھیاں اور سیڑھیاں

لگتا تھا ہم ختم ہو جائیں گے، سیڑھیاں ختم نہ ہوں گی۔ آفرین ہے تسنیم پر کہ سینکڑوں، ہزاروں سیڑھیاں چڑھ کر بالآخر انہوں نے شیشے سے بنے اس پل پر قدم رکھ دیا۔ اہل یورپ چین کو جدت کا پاور پاوس ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ انہوں نے اپنا سورج بھی بنا ڈالا ہے اور دریا کے دریا شفٹ کر دیے ہیں۔ تھری گارجز ڈیم بنا لیا ہے اور سنا ہے جس کی حرکت سے دنیا کی گردش بھی متاثر ہوئی ہے۔

یہ باب خاصا دل چسپ ہے اور ہمیں دوبئی فریم میں ایسے ہی ایک شیشے کے پل پر چلنے کا اتفاق ہوا۔ کئی منزلیں بذریعہ لفٹ طے کیں اور پھر شیشے کے پل پر ڈرتے ڈرتے قدم رکھ دیے۔

شیشے کے ایسے 2300 پل پورے چائنا میں بن چکے ہیں کیونکہ چین کے صوبوں کے درمیان ترقی کی صحت مند دوڑ اور مسابقت ہے۔

اکیا کے فرنیچر اور ان کی آؤٹ لِٹ انہیں بہت پسند آئی تو ہمیں بھی دوبئی میں اکیا کے شاندار آؤٹ لِٹ میں جانا یاد آیا۔ جہاں چلتے چلتے میں تھک کر صوفے پر نیم دراز ہو کر لکھنے میں مصروف ہو گئی تھی۔

تسنیم نے پاکستانی سفارت خانے کے سکول کا دورہ کیا تو انہیں وہاں باقی چین کی طرح کوئی جدت اور سجاوٹ دکھائی نہ دی جسے دیکھ کر انہیں افسوس ہوا۔

اس سفر نامے میں جزئیات نگاری اور کردار نگاری بھی خوب ہے۔ ان کے بھائی شوکت بیس سال سے چین میں ہیں اور ایک امریکن کمپنی میں آئی ٹی منیجر ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے ایک بین الاقوامی ویب سائٹ ابابیل بنائی ہے جو پاکستانی طلبہ کی راہنمائی کے لیے ہے۔ وہ دوسروں کی مدد کرنے والے ایک ہمدرد اور فیاض شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ ان کا حلقۂ احباب وسیع ہے۔ انہوں نے تسنیم کو چین کے تمام بڑے شہر اور اہم مقامات کی سیر کروائی۔ اگر ان کے بھائی نہ ہوتے تو ایک سیاح کے لئے اتنی جگہوں پر جانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا۔

تسنیم جہاں جاتی ہیں موسم خوش گوار ہو جاتا ہے۔ تسنیم نے جس طرح ماں کی خدمت کی ہے۔ ماں کی دعائیں اور رحمت تسنیم پر سایہ فگن ہے۔

میں اپنی مخلص اور پیاری سی بہن کو ایک اچھا سفرنامہ لکھنے پر مبارکباد اور دعائیں دیتی ہوں اور سادگی، سلاست اور دل چسپ معلومات پر مبنی اس سفرنامے کی پذیرائی کے لئے ڈھیروں دعائیں اور نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔ پریس فار پیس فاؤنڈیشن یو کے کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں جو کتاب کو بہت محبت سے، دل کش انداز میں شائع کرتے ہیں۔ رہے نام اللہ کا ۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Comments

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact
Skip to content