تحریر: سلمیٰ نور
دنیا ایک سرائےہے اور ہم کاندھے پر خواہشوں کا بوجھ لادے مسافر جو کچھ دیر سستانے کے لیے یہاں آ بیٹھے ہیں۔ عقلمند و دانا شخص گھر سے نکلنے سے پہلے منزل کا تعین کر لیتا ہے اور مقام مقصود تک پہنچنے کے راستے بھی ذہن میں رکھتا ہے۔ راہ میں کسی درخت کی گھنیری چھاؤں میں بیٹھتا ضرور ہے لیکن اسے اپنا مسکن نہیں بناتا، تھکن اترتے ہی وقت ضائع کیے بغیر منزل کی چاہ میں چل پڑتا ہے۔
نبی رحمت صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
كُنْ فِيْ الدُّنْيَا كَاَنَّكَ غَرِيْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ
“ تو دنیا میں ایسے رہ جیسے کوئی پردیسی (اجنبی) یا راستے کا مسافر“
دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے کہ سکون سے یہیں کا ہو کے رہا جائے، دنیا تو منزل سے پہلے وہ مختصر سا پڑاؤ ہے جہاں مسافر تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرتا ہے اور آگے جانے کے لیے چل پڑتا ہے۔
ایک بار نبی رحمت صلی اللّٰه علیہ وسلم چٹائی پر آرام فرما ہوئے، جب آپ اٹھے تو آپ کے جسد مبارک پر چٹائی کے نشانات تھے۔ ابن مسعود رضی اللّٰه تعالی عنہ نے کہا:
یا رسول اللّٰه! آپ ہمیں حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے نرم بستر تیار کر کے بچھا دیتے۔ آپ صلی اللّٰه علیہ وسلم نے فرمایا:
“میرا دنیا سے کیا تعلق۔ میرا اور دنیا کا تعلق صرف اس قدر ہے جیسے کوئی مسافر راہ چلتے ہوئے کسی درخت کے نیچے سایہ حاصل کرے، سستائے اور کچھ دیر بعد اسے چھوڑ کر اپنی راہ لے۔“
آج کا انسان دکھوں اور غموں کا بوجھ اٹھائے اس قید خانے کو ہی منزل سمجھ بیٹھا ہے۔ خواہشات کی گٹھڑیاں اٹھائے خود کو ہلکان کیے جا رہا ہے۔ نتیجتاً ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف اسے گھیرے رہتے ہیں۔ دارالعمل کو مستقل ٹھکانہ بنانے کی کوشش اسی طرح ہاتھ شل اور کاندھے جھکا دیا کرتی ہے۔ جو مسافر راہ میں دل لگا لیں وہ منزلوں کے نشاں کھو دیتے ہیں اور راستوں کی خاک ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
افسوس! ہم وہ غمگین ہیں جن کے پاس ہر غم ہے سوائے غم آخرت کے اور ہم وہ خوفزدہ ہیں جن کے پاس ہر خوف ہے سوائے اللّٰه کے خوف کے۔ دنیا تو ایسی چیز ہے کہ جس کے بارے میں کہا گیا:
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَان
“ہر ایک جو اس پر ہے فنا ہونے والا ہے۔“
جب اس دنیا سے تعلق رکھنے والی ہر شے ناپائیدار اور ختم ہونے والی ہے تو پھر ایسی فانی دنیا سے کیا دل لگانا؟ اس جہاں کی ساری خواہشات، ناتمام حسرتیں، غم و اندوہ، خوف و دہشت، ایسے بوجھ ہیں جنہیں ہم متاع جاں سمجھ کر اٹھائےپھرتے ہیں۔
آئیں! ہم بھی اپنے یہ بوجھ اتار پھینکیں اور اس صراط مستقیم کے مسافر بنیں جس کی منزل امن و سکون اور نعمتوں والی جنتیں ہیں۔ جہاں نہ دکھ ہوں گے نہ غم اور نہ سفر کی صعوبتیں ہوں گی۔ زاد راہ وہی لیں جو منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ اللّٰه تعالیٰ نے اس معاملے میں بھی ہمیں تنہا نہیں چھوڑا بلکہ مکمل راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:
فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ
” تو بےشک بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔“
سورۃ البقرۃ آیت 197
اگر کسی کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ ہم کیسے سفر کے مصائب و آلام سے بچ سکتے ہیں تو کتنا بہترین اور مختصر جواب ہے، تقویٰ۔ اس کے حصول کے لیے نہ میلوں کا سفر کرنا پڑتاہے نہ کہیں بڑی بڑی رقموں کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بارے میں نبی آخر الزماں صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئےفرمایا:
التقویٰ ھھنا
” تقویٰ یہاں ہے۔“
بے شک تقویٰ ہی وہ ڈھال ہے جو ہمیں سفر کی صعوبتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ تقویٰ ہی وہ نور ہے جو اندھیروں میں روشنی کر دیتا ہے۔ تقویٰ ہی وہ بہترین لباس ہے جو مسافر کو تمام آلائشوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
سورۃ الاحقاف میں اہل جنت کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(13)اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۚ-جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(14)
ترجمہ:
بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللّٰه ہے پھر ثابت قدم رہے تو نہ ان پر خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جنت والے ہیں، ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ (یہ) جزا ہے اسکی جو عمل وہ کرتے تھے۔
دنیا کے اس خوف و غم کی مکدر فضا سے نکلنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ ہم بھی کہہ دیں ہمارا رب اللّٰه ہے اور اس پر ثابت قدم ہو جائیں۔ اپنے رب کے بتائے راستے پر چل نکلیں جو بالکل سیدھا ہے، مستقیم ہے۔ اس راہ پر چلنے والوں کو نہ تھکاوٹ گھیرتی ہے اور نہ وہ کبھی راہ بھٹکتے ہیں۔
گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو
منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.