تحریر و تبصرہ . پروفیسر محمد اکبر خان اکبر
فکشن یا افسانوی ادب کسی بھی تخلیق کار کے گہرے مشاہدے یا تجربات زیست کا نتیجہ ہوتا ہے. گویا افسانوی ادب کو لمحات گزشتہ کی باز آفرینی کہا جاسکتا ہے۔
محترمہ فوزیہ تاج سر سبز و شاداب پہاڑوں کے دامن میں بسے پاکستان کے خوبصورت شہر ایبٹ آباد سے تعلق رکھتی ہیں انھوں نے ابتداء میں وکالت کا اپنا پیشہ بنایا بعد ازاں خیبر پختون خواہ کے محکمہ جیل خانہ جات سے منسلک ہوگئیں۔
ان کے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا اور ان کا اولین مجموعہ کلام “سنگ ریزے” کے نام سے ادبی افق پر نمودار ہوا. شاعر ایک حساس دل کا مالک ہوتا ہے جب بھی کوئی شاعر نثری تخلیق سامنے لاتا ہے تو اس ادبی فن پارے کی ماہیت سے ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تخلیق کار کی حساسیت اور انفرادیت بلند درجے میں ہوگی۔
عمیق مشاہدہ فکشن نگار کی قوت مخترعہ کو مہمیز کرتا ہے اور اس کے قلم سے ایک اور قابل قدر تخلیق جنم لیتی ہے۔
فوزیہ تاج صاحبہ اپنی پہلی نثری تخلیق جل پری کے بارے میں لکھتی ہیں کہ
“جل پری ایک علامتی کہانی ہے جسے میں نے داستان کے طور پر بیان کیا ہے میں دراصل اپنے معاشرتی نظام کو ایک عرصے سے دیکھ سن اور پڑھ رہی ہوں اور ہمارے اس معاشرے میں عورت نامی مخلوق اس بے دردی سے پستی ہے کہ اس طرح تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان شاید گندم بھی نہیں پستی ہوگی. ” فوزیہ تاج صاحبہ نے اس داستان کا اغاز ضلع جھل مگسی کے ایک مشہور و معروف مقام پیر چھتل شاہ نورانی کے مزار سے کیا ہے جہاں ایک تالاب موجود ہے جس میں خوبصورت مہاشیر مچھلیاں پائی جاتی ہیں البتہ مصنفہ نے پیر چترال شاہ نورانی تحریر کیا ہے جو درست نہیں اس مقام کا نام دراصل چھتل شاہ نورانی ہے اس بارے میں پاکستان کے مشہور اور معروف مہم جو اور مصنف سلمان رشید نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ
” 1831ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے تعلق رکھنے والے جیمز لوئیس نے قلات سے جھل مگسی جانے کے لیے اس راستے پر مخالف سمت سے سفر کیا۔ وہ مگسی قبیلے کے سربراہ نواب احمد خان سے ملنے جارہے تھے۔
جیمز خود کو امریکی ظاہر کرکے چارلس میسن کے فرضی نام کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اپنے سفر میں انہوں نے دیکھا کہ ’ہمارے شمال میں تقریباً ایک میل دُور ایک گنبد نما عمارت موجود تھی، یہ پیر چھتل کی زیارت گاہ تھی جہاں عام طور پر قلات اور کچھی کے درمیان سفر کرنے والے قافلے آرام کے لیے رکتے تھے‘۔”اسی جگہ موتی گوہرام کا مزار بھی فی الحقیقت موجود ہے عین ممکن ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو اور پیر چھتل شاہ نورانی کے بجائے پیر چترال شاہ نورانی لکھا گیا ہو. اس کے علاوہ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی سے ساحل سمندر تقریباً چھ سو کلومیٹر دور ہے لیکن کیونکہ یہ ایک افسانوی تحریر ہے اس لیے گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے ہو سکتا ہے کہ مصنفہ نے جس زمانے کی کہانی بیان کی ہے اس وقت وہاں سمندر کا ساحل موجود ہو کیونکہ ارضیاتی سائنس کے مطابق کروڑوں سال قبل جھل مگسی کا علاقہ سمندر کے قریب ہوا کرتا تھا. یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فکشن نگاری جتنی حقیقت کے قریب ہوگی اتنی ہی اثرانگیزی اور دلچسپی کی حامل ہوگی۔ جہاں تک فوزیہ تاج صاحبہ کے اسلوب نگارش کا سوال ہے تو بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے عام فہم اور سادہ الفاظ کا چناؤ کر کے نہایت منفرد سلیس و رواں انداز میں کہانی کو اگے بڑھایا ہے ان کی اس تخلیق میں منظر نگاری اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے وہ خود اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ “کہانی لکھتے وقت کسی قسم کی منظر کشی کرنا ایک بے حد مشکل امر ہے معمولی سی بھول چوک سے بیانیے پر کاری کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور آنکھوں کے سامنے سے منظر سرک جاتا ہے اور کہانی کے ساتھ ساتھ قاری پر بھی جمود طاری ہو جاتا ہے لہذا میں نے سمندر کے اس سفر کے دوران ایک لہجے کے لیے بھی پلک نہیں جھپکی اور کوشش کی کہ قاری اپنے آپ کو سمندری دنیا اور اس کی مخلوق سے اجنبی محسوس نہ کرے۔ ان کی اس تصنیف کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ وہ بہترین اور اعلی منظر نویسی کرنے پر قادر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جزئیات نگاری کے فن سے بھی خوب واقف ہیں. مصنفہ کی یہ کتاب ہمارے معاشرے کے ایک اہم اور بڑے حصے خواتین کی معاشرتی اور سماجی حیثیت اور ان سے جڑے مسائل کو اجاگر کرتی ہے۔جس کے لیے انہوں نے استعاراتی اور علامتی انداز اختیار کیا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کا عمیق مشاہدہ ہی اس کہانی کی تخلیق کا سبب بنا ہے۔.۔امید ہے کہ ان کا یہ ناول قارئین خصوصاً خواتین قارئین میں مقبولیت اور توجہ حاصل کرے گا۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.