تاثرات : ماہم جاوید

مختلف وجوہات کی وجہ سے ہمارے سماج میں کتب بینی کا رجحان  روز بروز  کم ہوتا جا رہا ہے تاہم اس عہد میں بھی کچھ ایسی کتابیں موجود ہیں جو اپنے نام، کبھی  اپنے سرورق اور کہیں  کتاب کے پہلے صفحے ہی سے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلیتی ہیں ، ایسی ہی ایک دلنشیں کتاب اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ “ اسیر ماضی “  حال ہی  ادارہ ” پریس فار پیس پبلیکیشنز کے زیر اہتمام  شائع ہوئی ہے ۔ کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی میرے منہ سے “ واہ “ جیسے الفاظ بے ساختہ نکلے ، میں نے قابلِ ستائش نظروں سے سرورق کو دیکھا جو بہت جاذب نظر ہے ۔

اب کتاب کے مسودے پر بات کرتے ہیں ۔عام طور پر ہمیں ایسے افسانے پڑھنے کو ملتے رہے ہیں جو کسی ایک خاص کردار پر مبنی ہوتے ہیں تو کبھی  دو مختلف کرداروں پر جیسے کہ رومانوی افسانے یا معاشرتی  افسانے جو معاشرے کی تلخ حقیقتوں کی نشاندہی کرتے نظر آتے ہیں تاہم مصنف ” حافظ ذیشان یاسین” نے “ اسیر ماضی “ میں اپنے مخصوص اسلوب کے ذریعے یہ بات ثابت کردی کہ کسی بھی تحریر کی خوبصورتی اس کے مقصد میں پوشیدہ ہے ۔اس کے پیغام میں مخفی ہے ۔

بعض اوقات قلمکار کو اپنی تحریر میں کسی خاص کردار کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ “ اسیر ماضی “ میں بھی مصنف نے قدرت اور قدرتی مناظر سے محبت کرنے والوں کے رنج و الم کی داستان بہت خوب بیان کی ہے۔ مصنف کی تحریر اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ فطرت کے دن بدن ہم سے جدا ہونے کا اثر انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ پُرسکون ذہنوں پر بھی پڑتا ہے ۔اس تبدیلی نے خاص طور پر ان ذہنوں کے سکوں کو تہہ و بالا کردیا ہے جو جیتے ہی قدرت کو دیکھ کر ہیں۔

 موجودہ دور میں ترقیاتی کاموں کے باعث ہونے والی آسانیاں جہاں زندگی کے بیشتر معاملات کو آسان کر رہی ہیں وہیں ان ایجادات کے باعث ہونے والی آلودگی ایک صحتمند زندگی کو کس قدر برباد کر رہی ہے اس کا اندازہ موسم کے بدلتے حالات اور معدوم ہوتی قدرتی مخلوق سے لگایا جا سکتا ہے ۔ “ اسیر ماضی “ میں بھی اسی اہم مسئلے  کو بخوبی مصنف نے بیان کیا ہے اور بہت ہی مختلف ومنفرد انداز کے ساتھ۔

کتاب کے مطالعے کے بعد  یہ بات یہاں لکھنا لازم ہو جاتا ہے کہ مصنف کے پاس لفظوں کا خزینہ موجود ہے ۔

کتاب افسانوی مجموعہ ہی کے طور پر سامنے آتی ہے مگر اس کی تمام تر تحریریں ایک مکمل سلسلہ وار داستاں کی شکل اختیار کرتی ہیں اور ہر افسانہ دوسرے افسانے سے جڑا نظر آتا ہے چاہے وہ ” جنگل کا طلسم ” ہو جہاں جنگل کے ہر ہر حصے کو لفظوں کے موتیوں میں پرو کر خوبصورت منظر کشی کی گئ ہو یا پھر ” سرد موسم ” جہاں موسم کے بدلتے تاثر کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات کی تبدیلی کو بھی خوب بیان کیا گیا ہے ۔

مصنف کی تحریر میں بچپن سے بچھڑنے کا دکھ اور وقت کی بے ثباتی کا غم صاف نظر آاتا ہے جسے انہوں نے اپنے ہر نثر پارے میں کہیں نہ کہیں ضرور بیان کیا ہے چاہے وہ ” اسیر ماضی” ہو یا ” یہ دلگداز مرثیے” جیسی بہترین تحریر ہو۔

آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ کتاب قابل تحسین و ستائش ہے ۔خوب صور ت نثر کا ایک بھرپور خزانہ ہے جہاں لفظوں کے موتی جذبات کے جواہرات اور غم و حسرت و افسوس سے بہتے آنسوؤں کے ہیرے پوشیدہ ہیں ۔

بطور قاری یہ میری زندگی کی پہلی کتاب ہے جو ایک مختلف و منفرد موضوع پر مبنی ہے اور بہت دلچسپ ہے ۔

مصنف کے لیے ڈھیروں دعائیں ہیں ۔اللّٰہ کامیابی و کامرانی سے نوازیں آمین ثمہ آمین ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact