از قلم : عصمت اسامہ۔
یہ کون اٹھ کے گیا ہے ؟
کہ جس کے نقش ـ قدم سے
زمین و آسماں ضو فشاں ہیں
ملت ـ براہیم سے
پھر اک اسماعیل نے
خود کو پیش کیا ہے
شہیدوں کا قافلہ کب رکا ہے؟
یہ شرف جس کو مل گیا
وہی زیب ـ داستاں ہے
جس کے لہو کی سرخی سے
ہر اک چشم خونچکاں ہے
قاتلوں کو کیا خبر ہو ؟
اس پاک لہو نے ہر بار
اسلام کی کھیتی کو
گل رنگ کیا ہے
یہ جام شہادت جس نے پیا
وہی اس کا مزہ جانتا ہے
احمد یاسین کے بیٹوں نے
کیسا محاز گرم کیا ہے ؟
جس کی حرارت نے
جہاد کے جذبہ سے
سینوں کو دہکا دیا ہے
امت کو ملنے والا ہر زخم
اب اس کی زیست کا ساماں ہے