ماوراء زیب
بائیس اپریل 2024، پہلا دن
آج نمل یونیورسٹی، اسلام آباد میں سپرنگ فیسٹیول کے نام سے ایک میلے کا افتتاح کیا گیا۔ میلے میں جہاں بہت سی سرگرمیوں کا اہتمام کیا گیا تھا وہیں شعبۂ اردو زبان و ادب، نمل یونیورسٹی کی طرف سے ایک کتاب میلے کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ دوسرے بہت سے پبلشرز کے ساتھ پریس فار پیس پبلی کیشنز نے بھی اپنی کتابوں کا سٹال نہایت اہتمام کے ساتھ سجایا۔ میزبانی کے فرائض مابدولت کے ساتھ ساتھ حفص نانی اور زبیر الدین عارفی نے نبھائے اور کیا خوب نبھائے۔ بعد ازاں شمیم عارف اور ذوالفقار علی بخاری نے بھی اپنا حصہ بھرپور جوش و جذبے کے ڈالا۔
میلے تک پہنچتے پہنچتے کافی وقت لگ گیا کیونکہ پہلا دن تھا اور راستوں کا اندازہ نہیں تھا۔ سٹال پر پہنچ کر حافظ منیر سے ملاقات ہوئی جو ادارے کی طرف سے کتابوں کا انبار لیے موجود تھے۔ کتابیں لے کر سجانا شروع کیں اور تصاویر کا ایک ناختم ہونے والا مزے دار سلسلہ شروع ہوگیا۔
ادارے کے ڈائریکٹر پروفیسر ظفر صاحب کے پرزور اصرار پرشمیم عارف صاحبہ نمل یونیورسٹی تشریف لائیں۔ شمیم عارف سے پہلی ملاقات تھی اور ماشاءاللہ کیا باغ و بہار اور مست شخصیت ہیں۔ خصوصی اہتمام کے ساتھ پریس فار پیس کے کارکنان سے ملنے آئیں۔ اپنے ساتھ اپنے شوہر، بہو اور بہت ہی پیاری سی پوتی کو بھی لے کر آئیں۔ ایک بہت مزے کا کام انھوں نے کیا اور وہ یہ تھا کہ وہ خالص گڑ سے بنی چائے کا تھرماس بھر کر لائیں اور ڈسپوزیبل کپوں کی بجائے گھر سے خاص طور پر کپ لے کر آئیں کہ ہمارا ادارہ ان کے شہر میں مہمان ہے تو اچھی سی خاطر داری ہونی چاہیے۔ پہلے چائے پیش کی، اس کے بعد سٹال کے لوگوں کو ظہرانے میں چکن کڑاہی کا سالن بمعہ تازہ تازہ روٹیوں کے پیش کیا۔ گھر کا کھانا دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا( ویسے دل چاہ رہا تھا یہاں لکھوں”دل گارڈن گارڈن ہوگیا“ پر ہم اردو زبان پر رحم کرتے ہوئے اس کی ٹانگیں نہیں توڑتے
۔ شمیم عارف نے فخریہ طور پر اپنی چھوٹی بہن ”تسنیم جعفری“ کا تعارف جامعہ کی انتظامیہ کے سامنے پیش کیا اور ان کی کوششوں کو سراہا۔
ذوالفقار علی بخاری خاص طور پر میڈم شمیم عارف سے ملنے آئے اور ان کا نام سن کر ہم چونک گئے۔ اس کے بعد جو نشست جمی کہ مابدولت کے گلے نے دہائیاں دینی شروع کردیں مگر بات ہو بچوں کے زبان و ادب کی تو کیونکر خاموش رہا جائے۔ بچوں کے ادب پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، بہت سی نئی تجاویز سامنے رکھی گئیں جن میں سب سے اہم تجویز یہ تھی کہ سکولوں کے بچوں کو بھی ایسے کتاب میلے میں لانے کا خصوصی اہتمام کیا جائے تاکہ نئی نسل بھی کتابوں کو اپنا دوست بناسکے۔ ذوالفقار علی بخاری نے ناصرف بہت سے بچوں کو اپنی کتب بطور تحفہ پیش کیں بلکہ سٹال پر آنے والے بہت سے کتابوں کے شائقین کو پریس فار پیس سے متعارف بھی کروایا۔
حسن ابن ساقی بھی اپنی کتاب اور ایک ترک دوست”حافظ صفا“ کے ساتھ ہمارے سٹال پر آئے اور بچوں کے ادب پر گفتگو کی۔ احمد رضا انصاری کی کتب پر تبصرہ ہوا اور ان کے ترک دوست کو شمیم عارف نے اپنی کتاب”ننھا سلطان“ (ایک ترک ماں بیٹے کی سچی کہانی) بطورِ تحفہ پیش کی۔
ذوالفقار علی بخاری اور پریس فار پیس کی ٹیم نے اشاعت کے سلسلے میں رابطہ کرنے والے کچھ لوگوں کو صفحے کی مختلف اقسام کے ساتھ معیار اور قیمت کا فرق سمجھایا اور طلباء نے اس بات کو بہت سراہا کہ صفحات کے معیار سے کتاب کے معیار اور قیمت کے فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سٹال پر گہما گہمی آخری وقت تک جاری رہی اور نئی نسل نے بہت سی کتابوں کو سمجھنے کی کوشش کی جوکہ ایک خوش آئند بات ہے۔
زبیرالدین عارفی مسلسل تصاویر اور ویڈیوز بنانے کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اس کوشش میں ان کے موبائل کی چارجنگ 2 بار داغِ مفارقت دیتے دیتے رہ گئی۔
آج کے دن کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ ہماری ایڈیٹوریل ٹیم میں شامل تابندہ شاہد نے اپنے قلمی نام”حفص نانی“ کے ساتھ اپنی پہلی پہلی کتاب ”کامیابی کا نشہ“ کا اجراکیا۔ انھوں نے شمیم عارف اور ذوالفقار علی بخاری کو اپنی کتاب بطور تحفہ پیش کی۔
سب سے مزے کی بات یہ تھی کہ پریس فار پیس کے تینوں میزبانوں(ماوراء زیب، حفص نانی اور زبیرالدین عارفی) کا یہ کسی بھی کتب میلے میں سٹال لگانے کا پہلا پہلا تجربہ تھا۔ تاہم جو بہت زبردست رہا۔ہم تینوں کا دن، طلباء کے ساتھ، کتابوں کی خوشبو سے مہکتی فضا میں سانس لیتے ہوئے، ذوالفقار علی بخاری کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے ہوئے، شمیم عارف کی چلبلی اداؤں اور مزے دار کھانے سے لطف اٹھاتے ہوئے بہت اچھا گزرا۔ پوری ٹیم کے بھرپور تعاون کے ساتھ آج 22 اپریل 2024 کا دن بہت خوبصورت یادیں لے کر غروب ہوا۔
(ابھی مزید دو دن باقی ہیں اس لیے اہلِ ذوق سے گزارش ہے کہ وہ ضرور اس کتب میلے کا حصہ بنیں۔)
===========
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.