تاثرات:آرسی رؤف۔
گزشتہ دنوں پریس فار پیس نے فیچر نگاری مقابلہ کروایا۔اولین دس انعام یافتگان میں چونکہ ہمارا نام بھی جگمگا رہا تھا۔لہذا ہمیں انعامی کتاب کے طور پر جب مہوش اسد کا یہ ناول موصول ہوا تو ادارے کے لئے ممنونیت کے جذبات دو چند ہو گئے۔
اسی ادارے کے تحت
ان کا افسانوں کا مجموعہ”آئینے کے پار” پہلے ہی میری لائبریری کا حصہ ہے۔
اب ناول کی جانب رخ کرتے ہیں۔
سرورق پر براجمان دوشیزہ کی تخیل میں ابھرتے سبزہ زار کی سیر کی نیت سے ہم پریس فار پیس پبلی کییشنز کے تحت چھپے اپنی موہنی سی مصنفہ مہوش اسد شیخ کے ناول”تیرا عشق بہاروں سا”میں پوری طرح غوطہ زن ہو گئے۔گرچہ اب رومانوی ناولوں سے لطف اندوز ہونے کے دور سے نکل چکی ہوں، لیکن نہ جانے کون سا سحر ہے کہ مہوش کی تحریر پڑھنے کو دل خود بخود ہی مائل ہو جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ زیست کی تلخ اور اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر محو سفر رہ کر جب استراحت کے لئے کہیں پڑاؤ ڈالنے کو جی چاہے تو ہلکا پھلکا ادب پارہ کسی پر بہار پھوار کی صورت سرشار کر دیتا ہے۔کچھ ایسا ہی سرور اس ناول کو پڑھ کر میں نے بھی حاصل کیا۔
گھر کو بکھرنے سے بچانے والی دادی کا مضبوط کردار،مجھے اس قدر بھایا کہ دل میں ٹھان لی،ایسی ہی دادی بنیں گے ہم بھی۔
خاندان سے جڑے رشتوں میں موجود محبت کے کئی رنگوں سے مزین ہونے کے باوجود جس میں باقی کرداروں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ۔البتہ میری نظر میں یہ دو اریشاؤں کے تکمل کی متوازی خطوط پر رواں دواں ایسی کہانی ہے جہاں کبھی اشعر اور کبھی کاشان منظر پر آکر کہانی کے رخ کو موڑنے پر مصر ہیں۔ باہمی تکرار ، انکار اور اصرار،خود پسندی و انا،غلط فہمیوں کے باعث،جذبہ محبت کے باوجود دل کی پوروں کا لہو لہو ہونا قاری کے جذبہ ترحم کو مہمیز کرتا ہے اور کبھی چیں بہ چیں۔ کیونکہ جب یہ جذبہ، دل کو ٹٹولنے پر وہ کسی خاموش ضدی بچے کی طرح اس وقت تک دبک کر بیٹھا رہے جب تک اس کی تلاش میں سرگرداں وجود تھکن سے بے حال نہ ہو جائے۔ اور جب یہ سر ابھارے تو ایسا منہ زور ہو کہ اپنے محبوب کے سوا کوئی دوسرا دکھائی ہی نہ دے تو کہانی کئی رخ بدلتی ہے۔
مصنفہ ناول کا پلاٹ مربوط رکھنے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہیں۔قصر رفیعہ میں تین بہوئیں گر اپنی ساس کی بندھی گرہ نہیں کھولتیں تو وہ بھی انہیں بیٹیوں ک سا مان دیتی ہیں۔زور زبردستی سے رشتے جوڑنے کی روایت کو توڑنا مقصود ہے تو دوسری جانب رشتوں میں ایک دوسرے کے لئے گنجائش پیدا کرنے کی ترغیب بھی موجود ہے۔بیٹی یا نند کے کردارکی عدم موجودگی میں یہ ناول بہوؤں کو ہی بیٹیوں کے روپ میں پیش کرتا ہے۔
مصنفہ اور ادارے کے لئے بہت سی نیک خواہشات۔