نظریہ اور نطریاتی سیاست ۔۔۔۔ قسط ۔ تحریر شمس رحمان 03

نظریہ اور نطریاتی سیاست ۔۔۔۔ قسط ۔ تحریر شمس رحمان 03

نظریاتی سیاست ۔۔تحریر شمس رحمان 

معاشرہ اور معاشرتی تبدیلی سلسلہ وار کالموں کا سلسلہ ۔۔۔ مجموعی قسط 16

کسی نظریے کو اپنانا، لوگوں سے منوانا، اس کو  لوگوں میں پھیلانا یہ سب نظریاتی  سیاست   سے جڑی سرگرمیاں اور اس کے ہی  مختلف  اجزاء ہیں۔ تاہم اس سب  کو جو پہلو نظریاتی سیاست میں  باندھتا اور ڈھالتا  ہے وہ ہوتا ہے  ان ساری سرگرمیوں  کا مقصد۔ سیاست کا مقصد ہوتا ہے  سیاسی طاقت کے ذریعے حکومت و اختیار  یعنی اقتدار حاصل کرنا۔  کوئی سیاست ایسی نہیں ہوتی جس کا مقصد  اختیار حاصل کرنا نہ ہو۔  چاہے وہ کھلے عام نظریاتی سیاست کا پرچار کر رہے ہوں یا   نہیں۔ ہر سیاست کا  کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے۔ ہر سیاسی سرگرمی کسی نہ کسی سیاسی نظریے کے حق میں اور  کسی  سیاسی نظریے کے خلاف ہوتی ہے۔ ہر سیاست کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ یوں قریب سے دیکھنے پر  کوئی بھی سیاست غیر نظریاتی نہیں ہوتی۔

اب آئیے ریاست جموں کشمیر میں نظریاتی سیاست کے آغاز ، ارتقاء اور مستقبل  کے موضوعات پر جانے سے پہلے مختصر طور پر  یہ جان لیں کہ نظریاتی سیاست دنیا میں شروع کیسے ہوئی اور تاریخی مادیت کا  نظریہ جس کی عینک سے ہم   نے میرپوری معاشرے کو دیکھا اس کے مطابق نظریاتی سیاست یعنی آئیڈیالوجی کیا ہوتی ہے۔  یہ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ہمیں  سیاسی نظریات اور  نظریاتی سیاست  کا ٹھوس مادی حالات  سے تعلق سمجھنے میں مدد ملے گی اور اس کی گرد و پیش کی زندگی  سے کٹی ہوئی سمجھ      یعنی مجرد سمجھ    کا گرد و پیش کی زندگی سے تعلق استوار  کرنے میں مدد ملے گی۔

نظریاتی سیاست کی پیدائش اور ارتقاء 

اگرچہ ہم نے آگے چل کر تاریخی مادیت کے  علم کی روشنی میں نظریاتی  سیاست اور خاص طور سے ریاست جموں کشمیر اور پھر آزاد جموں کشمیر میں نظریاتی سیاست کا تجزیہ کرنا اور مستقبل کے لیے بہتر راستے تلاش کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ لیکن اس  کام کو بہتر طور پر کرنے اور سمجھنے کے لیے  اس ماحول اور پس منظر کے بارے میں جاننا اور اس کو سمجھنا ضروری ہے جس میں نظریاتی سیاست یعنی آئیڈیالوجی اور خود تاریخی مادیت کے نظریے  نے جنم لیا اور نشوونما پائی۔  یہاں سے  مارکسزم اور آئیڈیالوجی تک کا مواد  مارٹینز اور  حان کے مضمون ‘ جدید تاریخ میں نظریات’ (آئیڈیالوجیز  ان  ماڈرن ہسٹری)  سے لیا گیا ہے۔

 دنیاوی تجربات اور مشاہدات کی  روشنی میں  سیاسی فلسفہ  بُننے  اور اداروں کا منطقی ، عقلی اور استدلالی تجزیہ  کرنے کا آغاز قدیم مصری، رومنی اور یونانی تہذیبوں میں ہو گیا تھا۔ چینی  اور ہند سندھ کی تہذیب میں بھی ظاہر ہے کہ اپنے  گردوپیش بارے افکار اور نظریات موجود  تھے۔ تاہم  سیاست اور سیاسی نظریات  جن کے ذریعے برصغیر بشمول کشمیر میں جدید عوامی سیاست  یعنی اقتدار میں عوام کی رائے یا طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کا آغاز ہوا ،وہ  نظریات مغرب میں ہی پروان چڑھے اور انقلاب فرانس کے بعد مختلف تحریکوں کی شکل اختیار کر  کے سامنے آئے۔

جدید دنیا میں نظریاتی سیاست کا آغاز  رفرانس کے انقلاب کو  مانا جاتا ہے۔ آئیڈیالوجی کا لفظ پہلی بار انقلاب فرانس کے دوران سائنسی عالم   داستوت ڈی ٹریسی  (1754– 1836) نے استعمال کیا تھا ۔  اس کا  مطلب ‘آئیڈیاز کی سائنس’                  (  علم نظریات یا علم خیالات) قرار دیا تھا۔

 ڈی ٹریسی کی فکر اس کے پیش رو  روشن خیال فلسفیوں  سے حاصل کردہ تھی جن میں  جان لاک ( 1632 – 1704  ) والتیر( 1694-1778) ، کنڈورسٹ(1743-1794) ، کانڈیلاک (1724-1804)     اور کانٹ شامل تھے۔

فرانس میں انقلاب کے بعد پروان چڑھنے والے  نظریات  جیسے لبرل ازم اور سوشلزم  ،  پر روشن خیالی کا گہرا اثر تھا۔منطق  یعنی  ( زیر بحث مسئلے یا معاملے یا مظہر کے بارے میں ) موجود علم اور  عقل استعمال کر کے دلیل دینا یعنی عقلیت/ استدلال پسندی اور    فطری حقوق ان نظریات کے بنیادی اجزاء تھے۔ انیسویں صدی کو بجا طور پر  استدلال اور عقلیت  کی بنیاد پر قائم نظریات کی صدی کہا  جاتا ہے ۔ یہ وہ عہد تھا جب یہ نظریہ تیزی سے  یورپ بھر میں پھیل گیا کہ  ریاست  کو روایتی طور طریقوں سے ہٹ کر   عقل و شعور  سے کشید کیے گئے آفاقی اصولوں کی بنیاد پر سائنسی انداز میں منظم کیا اور چلایا جا سکتا ہے۔

فرانس میں انقلاب کے بعد نظریے کو ‘سچے خیالات کا مجموعہ  ‘ سمجھا گیا  اور  ایسے سچے نظریے  کو    ایک منصفانہ اور اخلاقی طور پر بہتر معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے ضروری  خیال  کیا گیا جہاں فرد کو سوچنے کی آزادی کے ذریعے تعصبات اور مغالطوں سے نجات مل سکے۔

نظریات  جب تحریکوں میں ڈھلے تو  ‘ ازم’   پیدا ہوئے جیسے لبرل ازم، کنزرویٹزم، نیشنلزم، سوشلزم  وغیرہ۔ یعنی  ازم کا مطلب ہوتا ہے نظریے کو تحریک میں ڈھالنا ۔ ہمارے ہاں اس کو  ‘پرستی’ کے معنوں میں پیش کیا جاتا ہے جس سے یوں لگتا ہے کہ خدا کی بجائے کسی اور کی پرستش و پوجا کی بات ہو رہی ہے۔ جب کہ یہ سب سیاسی تحریکیں تھیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے   سیاست میں کلیسا، جاگیردار اور بادشاہ کی آجارہ داری کو بے نقاب کیا جو کلیسا کی اپنے مذہب عیسائیت کی من مانی تشریحات پر قائم تھی ۔   ہر ایک سیاسی تحریک  کے اپنے  اپنے سیاسی  خیالات و نظریات  اور سیاسی ثقافت کے روپ  ( کلچر) تھے۔ ان  سے سیاسی پروگرام پیدا ہوئے جن  کو مستقبل میں  عملی طور پر لاگو کرنا سیاسی تحریکوں  کا مقصد و محور بنا ۔  اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہر ایک  نظریے اور تحریک کا اپنا مخصوص تاریخی  پس منظر   ( متعلقہ خطے کے ماضی ) اور ثقافتی  تناظر  ( حال )  ہوتا ہے۔ مغرب  کے تناظر میں    بادشاہت اور مطلق العنانیت کو ترک کرکے،   یا ان کو ان کی حدود میں بٹھا کر ،حکومت کرنے اور ریاست چلانے    کا نیا انداز جنم لے رہا تھا ۔ ایک نئے معاشرے کی تشکیل کا ایک ایسا عمل شروع ہوا تھا جو پہلے اس شکل میں کہیں نہیں تھا۔

ریاست چلانے اور حکومت کرنے  کا یہ  نیا اندازایسے اصولوں پر قائم تھا جن کو اس کے پیش کار آفاقی یعنی   عالم گیر سمجھتے تھے۔  ان میں سے ایک یہ اصول تھا کہ  سول حکومت کے قوانین کی بنیاد   آزاد افراد کے درمیان  عمرانی معاہدے پر ہونی چاہیے  جن کو برابری کے انسانی حقوق حاصل ہوں۔

دوسرا آئیڈیا یہ تھا  طاقت کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے  “چیک و بیلنس ” کا ایک نظام قائم کر کے  آئینی طور پر  طاقت   انتظامیہ ، مقننہ اور عدلیہ  میں تقسیم کر دی جانی چاہیے۔

تیسرا آئیڈیا یہ تھا کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں اس لیے  ان کے پاس طاقت واپس لینے کا اختیار بھی ہونا چاہیے یعنی اقتدار اعلیٰ کے مالک عوام ہونے چاہیں۔

چوتھا آئیڈیا یہ تھا کہ  ایک خوشحال معاشرے کے لیے  شہری آزادیوں    اور ریاست کی طرف سے منڈی کے معاملات میں دخل نہ دینے کی پالیسی  (لیزی فئیر)   کا  ہونا ضروری ہے۔

فرانس کے انقلابیوں کی امنگیں ان ہی نظریات سے تحریک پائے ہوئے تھیں۔ انسانی اور شہری حقوق، جمہوری آئین ، عوامی حاکمیت ، قانون کی حکمرانی ، جاگیرداروں کی مراعات اور گلڈز کا خاتمہ جو کہ فری مارکیٹ (  منڈی کی آزادی )   کی راہ  میں رکاوٹ تھے۔  انقلاب فرانس کے حاصلات کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈی  ٹریسی اور اس کے کچھ   ہم خیال   مفکرین نے مل کر   ایک ڈھیلی ڈھالی نظریاتی  انجمن     قائم کی جو  این کیتھرین کے مہمان خانے پر ملا کرتے تھے۔ روشن خیال مفکرین کی طرح  ان نظریات ساز مفکرین  ( آئیڈیولاگز) نے بھی اپنے  لیے  ایک قائدانہ  سیاسی کردار چن لیا تھا ۔ ان کو یقین تھا کہ   معاشرے کو سائنسی اور عقلی  اصولوں پر چلائے جانے کے لیے  روشن خیال  شرفا،  عام عوام کی کھوکھلی رائے کے مقابلے میں بہتر  خدمات سر انجام دے سکتے تھے ( خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی) ۔ انہوں نے  نپولین بونا پارٹ کو خوش آمدید کہا کیوں کہ وہ اس کو انقلاب کی  روح کا زبردست محافظ سمجھتے تھے۔ تاہم نپولین نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی  اور ‘نظریاتیوں’         کا منفی معنوں میں استعمال کیا۔  اس نے شہری آزادیوں  اور انصاف پر  تجاوزات کرنے کے اپنے اقدامات  کے نقادوں کو  ‘ مابعد الطبعیاتی  ( میٹا فزیکل) ،  دانش ور اور   نرے بے وقوف بھی کہا جو طاقت کی حقیقتیں نہیں سمجھتے۔ اگرچہ نظریاتی مفکرین نپولین  کی طرف سے طاقت کے ظالمانہ استعمال کے باعث   سیاست سے باہر  ہو گئے لیکن   وہ انیسویں صدی میں  ابھرنے  ہونے والے  اہم نظریات کے محاذ پر آگے آگے رہے۔

اہم سیاسی نظریات

جدید  سیاسی نظریات میں اولین لبرل ازم  اور جمہوریت یا لبرل جمہوریت کا نظریہ تھا۔ درحقیقت یہ انقلاب اور مطلق العنانیت  کا درمیانی راستہ تھا۔ فرانس میں 1830 کے بعد اقتدار  حاصل کرنے والے لبرلز خود کو درمیانے راستے پر چلنے والے Juste milieu ہی کہتے تھے۔ وہ ‘ لیزی فئیر’ (مارکیٹ میں حکومت و ریاست کی عدم مداخلت ) کے قائل تھے اور ریاست کو بورژوازی کی خادم سمجھتے تھے۔  ہمہ گیر ووٹ کے حق  ( یونیورسل سفریج)  پر ان کی رائے یہ تھی کہ محنت اور کفایت شعاری سے امیر بن جاؤ اور ووٹ کا حق لے لو۔

تاہم برطانیہ  میں لبرل نظریے کے  ماننے والوں  نے   آفادیاتی اخلاقیات  کا راستہ اپنایا ۔ اس کا آسان مطلب یہ ہے کہ ہر وہ کام جس سے زیادہ سے زیادہ افراد کو فائدہ  ہو درست اور جو اکثریت کے مفادات کے خلاف ہو وہ غلط ہے۔ یعنی انہوں نے ‘ سماجی فائدے’     کو انسانی حقوق کی بنیاد بنایا۔

اس نظریے کے  رہنما  نمائندے  جیرمی بین تھم (1748-1832)   اور جان سٹیورٹ مل (1806-1873)  تھے۔  ۔  بینتھم  کے خیال میں  قانون ساز کو مصلح یعنی  اصلاحات   کرنے والا ہونا چاہیے  جو ‘ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خوشیاں’ حاصل کر سکے ، جو انفرادی اور اجتماعی مفادات کو ہم آہنگ کر سکے ۔ اس کے خیال میں اس طرح ایک ایسا معاشرہ پیدا ہو گا جہاں مختلف خیالات و افکار، ثقافتوں اور مذائب  و عقائد رکھنے والے افراد اکٹھے رہ سکیں گے۔ جس کو انگریزی میں پلورل Plural  معاشرہ کہا جاتا ہے۔ جہاں افراد اپنی عقل و خرد کی بنیاد پر  اپنے اچھے بُرے سے آگاہ ہوں گے ۔ جہاں  ہر ایک بالغ کو ووٹ کا حق  حاصل ہو گا ۔ جہاں ریاست غیر جانبدار ہو گی اور شہریوں کو اپنے خیالات و عقائد کے مطابق عمل کرنے کی سہولیات فراہم کرے گی۔  ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال کو روکنے کے لیے بینتھم نے بادشاہت اور  ہاؤس آف لارڈز کے خاتمے اور سالانہ انتخابات کی تجاویز کے ساتھ ساتھ   تعلیم کی اہمیت، صنفی مساوات (  معاشرے میں عورت اور  مرد کے لیے برابر مواقع)  اور جانوروں کے حقوق   کی وکالت کی۔

سٹیورٹ مل اور اس کی بیوی  حیریٹ ٹیلر نے  اپنے بزرگوں کے” آفادیاتی اخلاقیات” ( اکثریت کے فائدے کو مدنظر رکھنے)  کے نظریے  کی  کمیوں کجیوں  کو واضح کرتے ہوئے ایسی   فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا جو  نجی ملکیت اور آزاد منڈی کو نہیں چھیڑے گی لیکن معاشرے کے  کمزور ترین افراد  کو بے سہارا نہیں چھوڑے گی۔ جہاں خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہوں ، متناسب نمائندگی ہو  ، اقلیتوں کو نمائندگی حاصل ہو اور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر سب( بشمول عورتوں )  کو رائے کا حق حاصل ہو ۔ جہاں فرد کو اپنے جسم ، زندگی اور ضمیر پر خود مختارانہ حق حاصل ہو ۔

اسی دوران  فرانس کے ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق  رکھنے والا   الیکسی ٹاک ول   ( 1805-1859) نامی شخص جس کا خاندان فرانس میں انقلاب کی زد میں آیا تھا امریکہ گیا۔ وہ مانتا تھا  کہ ‘ جمہوریت کے انقلاب ‘ کو کوئی روک نہیں سکتا  لیکن اس کو   نئے  جمہوری طرز حکومت کے بارے میں یہ فکر تھی کہ اگر جاگیرداروں کا طبقہ درمیان سے غائب ہو گیا تو   اکثریت یعنی کسانوں اور کھیت مزدوروں  کی مطلق العنان  آمریت قائم ہو جانے کا خطرہ تھا،  جہاں فرد بے بس ہو جائے گا۔ تاہم امریکہ میں  اپنے مشاہدات کی بنیاد پر اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ   مقامی سطحوں پر مشترکہ حکومتیں ، چرچ، کمیونٹی انجمنیں اور آزاد صحافت جیسے اداروں  ( سول سوسائٹی/ذمہ دار شہریوں کی انجمنوں)  نے درمیانی قوتوں کا کرداد ادا کرتے ہوئے معاشرے  میں جمہوریت کے آمریت کا روپ اختیار کرنے سے بچا لیا ہے۔ اس نے اپنے دورے کا نچوڑ یہ نکالا کہ  جمہوریت درحقیقت سیاسی  انقلاب نہیں بلکہ  سماجی انقلاب ہے جس میں ہر کوئی دوسرے کو برابر کا شہری سمجھتا ہو اور باہمی حقوق کا حترام کرتا ہو۔  تاہم اس کے خیال میں  اس وقت یورپ والوں  کی سمجھ میں ابھی یہ ‘راز’ نہیں آیا تھا۔ یعنی وہ جمہوریت کے  سیاسی پہلو میں الجھے گئے تھے اور اس کے سماجی پہلو کو نظر انداز کر رکھا تھا جہاں درحقیقت جمہوریت زندہ رہتی اور  پروان چڑھتی ہے۔

انیسویں صدی کے پہلے نصف   تک لبرلوں کے لیے  آئیڈیالوجی  ایک مثبت  اور عملی  شعور  تھا۔ انہوں نے لوگوں میں سیاسی حقوق کی تحریک پیدا کی جس میں سب  سے بڑی   تحریک  برطانیہ میں ‘ چارٹرڈ  ‘  یعنی حقوق کی تحریک تھی جو 1838 سے 1857  کے درمیان ابھری تھی۔ اس مرحلے پر لبرلوں اور یوٹوپئین ( مثالی ریاست یا خیالی جنت ) قائم کرنے والے  سوشلسٹوں میں کئی ایک معاملات پرمماثلت پائی جاتی تھی یعنی وہ ایک جیسے حقوق حاصل کرنے کے حامی تھے۔ مثال کے طور پر دونوں عقلی اور استدلالی  فکرو شعور کی بنیاد پر توقع کرتے تھے کہ ایک منظم اور منصفانہ معاشرہ قائم کرنا ممکن تھا۔ اس کے علاوہ ان کو معاشرے کے جن طبقات کی حمایت حاصل  تھی وہ بھی ایک جیسے ہی تھے جیسے  امنگوں بھرا متوسط طبقہ یعنی مڈل کلاس اور مختلف ہنروں میں ماہر   اپنا کام کرنے والے ہنر مند، تاجر اور لبرل شعبوں  میں پیشہ ور ماہرین۔

تاہم یوٹوپیائی سوشلسٹ لبرلوں سے اس لحاظ سے مختلف  بھی تھے کہ  وہ   مساوی سیاسی حقوق پر اتنی زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے ۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نا انصافیوں کی اصل وجوہات   پیداوار کی غیر مساوی ملکیت اور دولت کی  غیر مساوی تقسیم    میں میں اتری ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ زیادہ زور مشترکہ  پیداوار  کرنے اور  یک جہتانہ  تقسیم پر دیتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے  کہ مل جل کر پیدا کرنے اور   مل بانٹ کر استعمال کرنے سے معاشرے میں انصاف قائم ہو گا۔

 تاہم سوشلسٹوں میں کچھ ایسے تھے جن کا خیال تھا کہ اس طرح سے انصاف قائم کرنے کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ  مالک کبھی  اپنی  ملکیت بانٹے  کے لیے قائل نہیں ہوں گے اور نہ ہی ذرائع پیداوار کے مالک مزدوروں کا استحصال کر کے منافع  کمانے سے باز آئیں گے ۔ موجود نظام کو صرف عوامی بغاوت کے ذریعے ہی بدلا جا سکتا ہے جس میں عوام اپنا حصہ چھین لیں گے۔

یہ وہ ماحول تھا جس میں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نمودار ہوئے۔ انہوں نے  سوشلسٹوں کی اس پر امیدی کو      خوش فہمی  قرار دیا کہ لوگوں کے خیالات اور سوچ بدلے گی تو استحصال اور معاشرتی ناہمواری اور بے انصافی ختم ہو جائے گی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ انسانی تاریخ  میں معاشروں کا تعین خیالات یا آدرش نہیں کرتے آئے بلکہ معاشروں کا تعین معروضی    پیداواری تعلقات   کرتے ہیں۔ معاشرے میں ذرائع پیداوار کے مالکوں (سرمایہ داروں) اور محنت بیچنے والے مزدوروں کے درمیان کشیدگی اور مفادات کا  تصادم  معاشرے کے بنیادی ڈھانچوں میں سرایت  کیا ہوا ہوتا ہے۔ یعنی طبقاتی  سرمایہ دارانہ معاشرے میں  محنت اور سرمائے کا تصادم   معاشرے کی بنیادوں میں شامل ہوتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ  یہ  طبقاتی تضاد  اپنی منطق کے مطابق  اپنے راستے پر آگے بڑھے گا۔ مزدوروں کے حالات زیادہ خراب ہوں گے  کیونکہ سرمایہ داری میں مزدور کی تنخوائیں در حقیقت ساکت ہو جاتی ہیں یعنی ان میں اضافہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مزدور کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے رہتے ہیں۔ مزدور بغاوت کر کے ریاستی اقتدار پر قبضہ کر کے بورژازی ( سرمایہ داروں/زرائع پیداوار کے مالکوں) کو ملکیت سے بے دخل کر دیں گے ۔ یہ ایک عبوری دور ہو گا ، جس  کے بعد کیمونزم آ جائے گا جہاں  سب کو آزادی اور مساوات  حاصل ہوجائے گی۔ اس تناظر میں نظریات  اور کچھ بھی نہیں   سوائے زرائع پیداوار کے اندر پائے جانے والے تصادم کے اظہار کے۔ اس میں غالب نظریات   غالب حکمران  طبقے کے غلبے کو قانونی شکل دینے والے ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں  سیاسی نظریات مستقبل میں ایک منصفانہ معاشرے کی شکل و صورت  دکھانے  والی مثبت عینکیں نہیں تھے بلکہ کمیونزم کی راہ میں رکاوٹ تھے۔

 مارکسز م اور  سیاسی نظریات ( آئیڈیالوجی )  پر تفصیلات اگلے حصے میں۔


Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe to get the latest posts sent to your email.