سعید صاحب کی طبیعت صبح سویرے سے ٹھیک نہ تھی, گھبراہٹ تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔
ناشتے میں دو لقمے سے زیادہ کھایا نہ گیا تو آسیہ بیگم نے ناشتہ نہ کرنے کا سبب پوچھا ۔
“طبیعت میں بے چینی ہے۔” انہوں نے کمزور آواز میں جواب دیا ۔
آج دکان نہ جائیے تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کے پاس چلیں گے ۔آسیہ بیگم نےتشویش و پریشانی سے کہا ۔
” نہ ۔۔۔۔آج مہینے کی پہلی تاریخ ہے۔ ضروری حساب کتاب کرنے ہیں ۔”
“جیسے آپ کی مرضی۔۔۔ سردی بہت ہے۔ شال لپیٹ لیجئے۔” آسیہ بیگم نے شال پکڑائی تو سر ہلا کر دکان کی جانب چل دیے ۔
سعید صاحب کی کریانے کی دکان تھی ۔
طبیعت مزید بھی بگڑنے لگی تو چھوٹے کو دکان سنبھالنے کا کہہ کر خود ڈاکٹر صاحب کے کلینک کی جانب پیدل چل دیے۔
ابھی کلینک سے چند قدم کے فاصلے پر تھے کہ زمین پر گر پڑے ۔
پررونق جگہ تھی۔ آس پاس دکانیں موجود تھیں۔ راہگیروں کا رش تھا ۔
لیکن انہیں گرتا دیکھ کر کوئی بے قرار یا پریشان ہو کر ان کی جانب لپکا نہ تھا . دکاندار دکانوں سے جھانکنے لگے , سڑک پر چلتے رہگیر رک گئے۔ ایک منٹ تک لوگ خاموشی سے انہیں سرد آنکھوں سے گھورتے رہے ۔
سعید صاحب گہری گہری سانسیں لینے کی کوشش کر رہے تھے ۔
موٹر سائیکل سوار اور گاڑی والے بھی ٹھہر کر دیکھ رہے تھے ۔
ابھی جان باقی تھی ۔لیکن سانس لینے میں انہیں بہت دقت ہو رہی تھی ۔
مجمع میں سے چار آدمی اگے بڑھے سعید صاحب کو سیدھا کیا ۔
“جلدی۔۔۔ جلدی ہسپتال لے کر چلو “چار آدمیوں میں سے ایک شخص نے چلا کر ایک رکی گاڑی والے سے کہا گاڑی والا سنتے ہی کار بھگا لے گیا ۔
کوئی مدد کو نہ آیا۔
بھیڑ تھی… ہجوم تھا… ڈھیروں لوگ تھے .
مگر چار آدمیوں کے سوا کسی کو ایک انسان کی قیمتی جان بچانے کی پرواہ نہ تھی ۔
بے حسی اور لاتعلقی ان کے چہروں سے عیاں تھی ۔
اور ۔۔۔
وہ چار آدمی صحت مند سعید صاحب کو پیدل کلینک کی جانب لے کر دوڑنے لگے ۔
مگر۔۔۔
سعید صاحب کی سانسیں رک چکی تھی ۔
بے حس لوگ چپ چاپ کھڑے سنگدلی سے دیکھنے میں محو تھے اور پھر کچھ لوگ بے جان سعید صاحب کی موبائل فون سے ویڈیو بنانے میں مصروف ہو گئے ۔
Discover more from Press for Peace Publications
Subscribe to get the latest posts sent to your email.