بسمہ تعالٰی

نام کتاب۔۔زندگی ذرا ٹھہرو

مصنفہ ۔۔عطیہ ربانی

تبصرہ : قانتہ رابعہ

ناشر ۔۔پریس فار پیس پبلیکیشنز

قیمت۔۔1200 روپے

عطیہ ربانی

قارئین ناول اور افسانے میں اگر یہ فرق سب سے نمایاں ہے کہ افسانہ ایک نشست میں پڑھا جاسکتا ہے اور ناول ایک نشست میں آسانی سے پڑھنا مشکل ہے تو یہ فرق سب قارئین پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ٹھیک ہے کہ افسانہ میں کرداروں کی بھرمار نہیں ہوتی ۔لمبی چوڑی بحث کا امکان نہیں ہوتا ۔ایک ہی موضوع کو چار چھ صفحات میں سمیٹنا ہوتا ہے ۔لکھنے والے کی توجہ بھی موضوع سے بھٹکنے نہیں پاتی  ، اس فارمولے کے تحت یہ سمجھنا کہ ناول میں ناول نگار جو مرضی چاہے لکھنے میں آزاد ہوتا ہے ۔اس کی مرضی ہے چاہے تو دسیوں موضوعات پر طبع آزمائی کرے۔۔یہ غلط فہمی ہے ۔ناول چونکہ طویل کہانی بلکہ مختلف کہانیوں کو یکجا کرنے کو کہتے ہیں تو میرے خیال میں ناول میں قاری کی توجہ اور ارتکاز کو موضوع پر مخصوص کرنا زیادہ مشکل ہے ۔

ناول میں جہاں قاری کی دلچسپی کم ہوئی ناول ہاتھ سے رکھ دیا جائے گا۔ ایک ناول جس میں بہت سے کردار ہوں ،مختلف موضوعات ہوں، قارئین کے لئے اسی صورت میں دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے جب قاری کو اس میں نئی چیز بہترین انداز میں ملے ۔۔کردار کشی اور سیارے کی مخلوق نہ ہوں انداز  تحریر دلچسپ ہو ۔

اگر یہ سب ایک ناول میں جمع ہوبھی جائے تو بحیثیت مسلمان وہ محض ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی ۔۔۔اگر بہترین ادبی پیرائے میں لکھا ناول آپ پڑھتے ہیں گویا آپ پڑھنے کے دوران اس سے لطف اندوز ہوئے کچھ عرصہ اس کے کردار اور مکالمے آپ کے ساتھ رہیں گے اور بس جبکہ ان سب خصوصیات کے ساتھ ناول بامقصد اور معلوماتی بھی ہو تو یہ میدان حشر میں بھی آپ کے نامہ اعمال میں آپ کے ساتھ رہے گا ۔

آمدم برسر مطلب، تمہید ذرا طولانی ہوگئی ( اور یہ اس وقت ہوا کرتی ہےجب مجھے کوئی تحریر بے انتہا پسند آئے )

ناول ” زندگی ذرا ٹہر و “۔ ایسا ہی ناول ہے جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بامقصد بلکہ اپنے دین کو جاگیر سمجھ کر مطمئن ہوجانے  والوں کے لیے کسی حد تک چشم کشا بھی ہے ۔

ناول کی کہانی کسی طور بھی عام سی نہیں ہے۔ ایک پاکستانی لڑکی رحل زمان پڑھنے کے لیے بلجئیم جاتی ہے ۔جہاں یونیورسٹی فیلوز سارے ہی غیر مسلم ہیں ۔ خنزیر کا گوشت کیوں نہیں کھانا ؟، اسلام وحشیانہ مذہب ہے ، یہ عورتوں کو گھروں میں قید رکھتا ہے اور شادی سے قبل لڑکی لڑکے کے تعلقات کیوں نہیں ہونے چاہئیں؟ جیسے سوالات کا جب سامنا کرنا پڑتا ہے تو اپنے آپ کو نماز روزے کے بل بوتے پر مسلمان کہلوانے والوں کا علم سطحی بھی نہیں ہوتا۔ قائل کرنا تو دور کی بات اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے والے بغلوں میں جھانکنے لگتے ہیں ۔

عطیہ ربانی کا نام میری نظر سے اس ناول کے حوالے سے پہلی مرتبہ گزرا ۔۔ناول کا پیش لفظ جنٹلمین سیریز کے حوالے سے معروف کرنل اشفاق حسین نے تحریر کیا ہے ۔ان کی رائے میرے لئے ہمیشہ سے مستند رہی ہے تو ناول شروع کیا اور سوائے چند روزمرہ کے ضروری کاموں کی تکمیل کے وقفے کے ناول جب تک مکمل نہیں ہوا اسے چھوڑنے پر دل آمادہ نہیں ہوا۔

ناول بہت دلچسپ معلومات سے بھرپور اور بلجیئم کی زبان و مکان کا بہترین تعارف ہے ۔محترمہ عطیہ ربانی کے قلم نے  اس ناول میں کسی ماہر اورچابکدست قلمکار کی طرح  قاری کو گرفت میں رکھا ۔

ناول میں بنیادی طور پر تین چیزیں اہم ہوتی ہیں ۔

پلاٹ

کردار

مکالمے

ناول تینوں کو اس قدر عمدگی سے اختتامی سطور تک قاری کے ساتھ اٹیچ رکھتا ہے کہ کوئی کردار اوپرا لگتا ہے نہ مکالمہ ناقابل فہم اور پلاٹ تو ہے ہی جاندار۔ ناول کی خاص بات  یہ ہے کہ دلچسپ ہونے میں اس کے اندر تجسس، تحئیر اور سلاست شامل ہے ۔دیگر ناول کے ہیرو یا ہیروئین انگلینڈ، امریکہ یا آسٹریلیا جیسے ممالک میں مقیم ہوتے ہیں جبکہ اس ناول کا ہیرو قدرے کم معروف ملک بلجئیم میں مقیم ہے ۔مصنفہ نے ان کی زبان کے چھوٹے چھوٹے فقروں اور بہت زیادہ بولے جانے والے الفاظ کو بہت خوبصورتی سے سمویا ہے ۔

جس دین کو لوگ ” ہمارا پرائیویٹ معاملہ ” کہہ کر اس پر گفتگو پسند نہیں کرتے ناول نگار نے کرداروں کی زبان اس پر سیر حاصل گفتگو کی اور بالکل بھی بور نہیں ہونے دیا تحریر میں بے ساختگی ہے ۔

” انسان کو اللہ نے مٹی سے میرے پاپا کو پیار سے بنایا”۔

ماما کی آواز کانوں میں رس گھولتی لیکن صبح صبح جگاتے وقت وہی آواز بے سری بانسری لگتی “۔

ناول میں مشرق اور مغرب دونوں تہذیبوں کا ایک طرح سے تقابلی جائزہ ہے اور فطری انداز میں ہے ۔ناول کے بہت سے کردار بہت عرصہ تک یاد رہنے والے ہیں نجوی الواسفی، نائل، ایمی وغیرہ ۔

بہت عمدگی سے پاکستانی معاشرت کی بھی پڑتیں کھلتی ہیں اور  یورپ کا کچا چٹھا بھی۔مرکزی کردار رحل زمان کا ہے جو مضبوط اور قابل تقلید کردار ہے ۔عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے پڑھنے والوں کے لئے یہ ناول خوشگوار اضافہ ثابت ہوگا۔ میری رائے میں یہ ناول آج کل کی نسل کے لئے لازم ہو تاکہ انہیں پتہ چلے کہ مسلمان گھرانے میں اتفاق سے پیداہونے والے اور اسلام کو سوچ سمجھ کر قبول کرنے والے میں کیا فرق ہے اور یہ کہ اگر ہمارے بچوں سے کوئی غیر مسلم سوال کرے کہ خنزیر کا گوشت کیوں حرام ہے تو، اللہ نے منع کیا ہے، کہنا ان کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا اس کے لئے دین کا مطالعہ فہم تدبر سائنس کے حوالے سے معلومات ہونا لازم ہے۔

مجھے خوشی ہے ناول میں حیا ، حجاب محرم غیر محرم، تعدد ازدواج جیسے موضوعات پر بھی گفتگو شامل ہے تاہم مفتیان  کرام کی مفصل رائے نہ بھی شامل کی جاتی ان کا خلاصہ یا نچوڑ پیش کرنا کافی تھا ۔

ناول کی کہانی بہت دلچسپ ہے اور انجام قاری کی خواہش کے مطابق کرنے پر میں محترمہ عطیہ ربانی کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ ناول آج کی ضرورت ہے میں اتنے عمدہ اصلاحی ناول پر پریس فار پیس پبلیکیشنز  کی ٹیم کو بھی  مبارک باد دینا چاہوں گی ایسے ناول جو دلچسپ کے ساتھ بامقصد ہوں یقینی بات ہے صدقہ جاریہ بنتے ہیں ۔

عمدہ سرورق بہترین طباعت اور موٹے فونٹ میں لکھا یہ ناول مدت تک قاری کو اپنے حصار میں لینے  کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact