تحریر : یاسمین حسنی

اسلام نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ بندوں کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردی کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔

ایک شخص کا تعلق اللہ سے ہو اور اس کی مخلوقات کے ساتھ بھی ‘تب ہی قربِ الہٰی حاصل ہوسکتی ہے ۔

ایک شخص کسی کی اولاد کو ستا کر اور ان سے عداوت کا معاملہ کرکے اس کی محبت کو نہیں پا سکتا۔

رسول اکرم  نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا

    ’’جو شخص کسی مسلمان کی دنیوی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی پریشانیاں دور کرے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے گا اللہ اس کیلئے دنیا وآخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ دنیا و آخرت میں اسکے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگارہتا ہے۔‘‘( مسلم)۔

دوسروں کے دکھ دردکواپنا دکھ دردسمجھنا اور اپنی تکلیف کوبھول کردوسروں کی پریشانی دورکرنے کے لئے بے قرار ہو جانا ہی ایثار وہمدردی ہے۔ایک موقع پر جب شدیدجنگ کا معرکہ برپا تھا، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہورہے تھے تو بیک وقت کئی زخمی صحابہؓ پانی طلب کرنے لگے۔  پانی پلانے والا جب پہلے کے پاس گیا تو اس نے دوسرے صحابیؓ کی طرف اشارہ کیا کہ وہ زیادہ ا س پانی کے حقد ار ہیں،دوسرے نے تیسرے کی طرف جبکہ تیسرے نے پہلے کی طرف پانی لے جانے کا کہا۔ ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ جب پانی پلانے والا پہلے کی طرف لوٹا تو وہ شہید ہو چکے تھے۔ دوسرے کی طرف لوٹا تو وہ بھی جام شہادت نوش کر جاچکے تھے۔ تیسرے کے پاس آئے تو وہ بھی اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرچکے تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا ایثارو ہمدردی  تھی صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کا !!!

آج ہماری حالت کیا ہے ! بازار سے لے کر مسجد جیسی مقدس جگہ تک، گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے بس اسٹاپ پر سے،دکان پر کھڑے اشیائے خورونوش خریدنے تک، تندور کے سامنے لگی قطار سے ٹریفک کے رش تک، ہر جگہ ہمارا رویہ کیا ہوتا ہے،یہ ہم سب خوب جانتے ہیں۔ ہمدردی تو دور کی بات ہے ، ہم تو ایسے مواقع پر گالم گلوچ کو بھی عار نہیں سمجھتے۔  لڑائی کو تیار ہوجاتے ہیں،

 دورحاضر میں ہر ایک جلد باز ہے اور ہر ایک بہت سی غلطیاں کرتا ہے۔ اس صورت میں آپ  ہمدودی کا رویہ اپناتے ہوئے دوسروں کو ترجیح دیں گے، تو معاملات بہت ہی آسان ہوجائیں گے۔ ان بے صبری کے اوقات میں، پیار و محبت کا رویہ اپنائیں ۔

 ہمدردی بلاشبہ بڑا عمل ہیں جن کے ذریعے نہ صرف انسانیت کو بھلائی ملتی ہے بلکہ اسلام کی نشر و اشاعت میں ایک بڑا حصہ ہمدردی کا  ہے۔

بارگاہِ رسالتؐ میں ایک شخص آکر کہتا ہے کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بھوکا ہوں کچھ عنایت فرما دیجیے۔ ادھر بیتِ رسولؐ میں بھی فاقہ کشی چل رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ کون اس کی مہمان نوازی کرے گا؟

ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس کی مہمان نوازی میرے ذمے ہے۔ وہ صحابی اُس شخص کو لے کر گھر پہنچے تو اہلیہ سے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ہے؟ اہلیہ نے جواب دیا کہ صرف ایک آدمی کا کھانا ہے اور وہ میں نے آپ کے لیے رکھا تھا، بچوں کو بہلا پھسلا کر سلادیا ہے، تاکہ وہ کھانا آپ کھا سکیں۔ صحابی  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا کہ آج ہمارے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہے، جب میں کھانا اُس کے سامنے رکھوں تو تم چراغ بجھا دینا۔ وہ کھانا کھاتا رہے گا اور میں منہ چلاتا رہوں گا تاکہ وہ سمجھے کہ میں بھی کھانا کھا رہا ہوں۔ چنانچہ اسی طرح ہوا، مہمان نے پیٹ بھر کر کھا لیا اور یہ صحابی فاقے سے رہے۔

صبح جب یہ بارگاہِ رسالتؐ میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرانے لگے اور فرمایا ’’تمہاری مہمان نوازی اللہ کو پسند آئی۔‘‘

اور اگر ہمیں دیکھیں تو

بسوں میں روزمرہ سفر کرتے ہوئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بسوں میں چڑھنے والے بزرگ مرد ہوں یا خواتین، وہ کھڑے ہوکر سفر کررہے ہوتے ہیں۔ اگر اس موقع پر ہمدردی  کا عملی اظہار کرتے ہوئے انہیں سیٹ دے دی جائے تو یہ بھی اللہ کے ہاں اجر کا باعث ہوگا۔

پبلک بسوں میں بعض مائیں اپنے بچوں کو ہاتھ میں لیے تکلیف دہ سفر طے کررہی ہوتی ہیں۔ ان مائوں کو اگر جگہ مل جائے، یہ بھی ایثار ہی کا حصہ ہے۔

بل جمع کروانے کی لائن ہو یا پھر بینک میں کھڑے ہوکر اپنی باری کے منتظر ہوں، ایسے موقع پر کسی مجبور انسان کی مدد کرتے ہوئے اُسے اپنا نمبر دے دینا بھی تو ہمدردی کہلاتا ھے۔

مواخات مدینہ، اسلامی تاریخ  کا بہترین  نمونہ  مکہ کے مہاجر اور انصار کی  ھے۔ ضروری ھے کہ ہمدردی و تعاون پر نہ صرف خود عمل کرنا ہے بلکہ نسلِ نو کی تربیت بھی اسی انداز میں کرنی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب چراغ سے چراغ جلیں گے تو مایوسی کے اندھیرے چھٹ جائیں گے اورایک بے مثال معاشرہ وجود آئے گا۔ آیئے معاشرے کو روشن کرنے کے لیے ایک چراغ ہم خود بن جائیں۔

اسلام رواداری،امن وسلامتی اور احترام انسانیت کا درس دیتا ہے،یہ دنیا کا واحدمذہب ہے جس نے پرامن بقائے باہم کا درس دیا ۔

،دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اساس اور بنیاد امن و سلامتی  رواداری پر قائم ہے۔

ارشادِ ربّانی ہے’’اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ، تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، اللہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز سے باخبر ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات)اس آیت کریمہ نے مساوات کا یہ عظیم اصول بیان فرمایا ہے کہ کسی کی عزت اور شرافت کا معیار اس کی قوم، اس کا قبیلہ یا وطن نہیں ہے، بلکہ تقویٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نےمختلف قبیلے یا قومیں اس لیے نہیں بنائی ںکہ وہ ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتائیں،  شریعت نے ہمیشہ رواداری اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔

آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے دورِ جاہلیت کے تمام وحشیانہ جنگی طریقوں کو منسوخ کردیا اور ایسے قوانین نافذ فرمائے جو آج بھی احترام آدمیت کا درس دیتے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق جنگ کے دوران عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے قتل، عبادت گاہوں اور فصلوں کی تباہی و بربادی اور دشمنوں کے ہاتھ، ناک کان وغیرہ کاٹنے پر پابندی لگادی گئی۔ اسی طرح

”خلیفہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق نے جب فوجیں شام کی طرف روانہ کیں تو ان کو ہدایت دی  عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کئے جائیں۔  مُثلہ (اعضاء کا کاٹنا) نہ کیا جائے راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کی عبادت گاہیں مسمار کی جائیں۔ کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اورنہ کھیتیاں جلائی جائیں۔  آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔ جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔

 پیغمبر رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک اگر دیکھیں تو

فتح مکہ کے دن مسلمانوں پر سابقہ مصائب و آلام کے پہاڑ توڑنے والوں کے بارے میں انسان کے فطری انتقامی جذبہ کے تحت انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ کے منہ سے یہ کلمات نکل گئے تھے،

 اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَةِ ․․․ اَلْیَوْمَ تَسْتَحِلُّ الْکَعْبَة ”آج قتل و قتال کا دن ہے اورآج خانہ کعبہ میں بھی خون بہایا جائے گا۔“ اس کے جواب میں پیغمبر رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کَذِبَ سَعْدٌ ․․․ اَلْیَوْمَ یَوْمُ الرَّحْمَةِ

سعد نے غلط کہا– آج تو رحم و کرم، عفو ودرگزر اور عام معافی کا دن ہے۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پوری دنیا کیلئے کامل نمونہ ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں اعتدال، رواداری اور عدم تشدد کی اعلیٰ ترین عملی مثالیں قائم کی ہیں۔ اسلام کے آغاز ہی سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل مکہ نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کئے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں، قتل کے منصوبے بنائے، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسم اطہر پر نجاستیں گرائیں، جادوگر، مجنون اور نہ جانے کیا کیا نام دئیے مگر بقول ام المومنین حضرت عائشہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام زندگی اپنی ذات کیلئے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔ ہاں اگر کوئی خدائی حرمت کو پامال کرتا تواس صورت میں سختی کے ساتھ مواخذہ فرماتے۔

ایک بار رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم حرم شریف میں نماز پڑھ رہے تھے ابوجہل کے اکسانے پر بدبخت عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور گندگی بھری اوجھڑی لاکر سجدے کی حالت میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر رکھ دی۔ کافر اس منظر کو دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔ کم عمر حضرت فاطمة الزہراء دوڑتی ہوئی آئیں اور اس گندگی کوآپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ہٹادیا۔

اہل مکہ سے ناامید ہوکر آپ نے دعوتِ اسلام کی غرض سے طائف کاسفر اختیار کیا۔ وہاں کے سرداروں نے دعوت قبول کرنے کے بجائے برابھلا کہااور لڑکوں کو پیچھے لگادیا جنھوں نے پتھر مار مار کر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو لہولہان کردیا۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق اس وقت مختلف فرشتے آئے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل طائف کی تباہی کی اجازت چاہی مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اگر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے مسلمان پیدا فرمائے گا۔

مسلمانوں کی خاطر ایک بار آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی زید بن سعنہ سے قرضہ لیا۔ مقررہ وقت ادائیگی سے قبل ہی وہ یہودی آیا اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے نامناسب اور گستاخانہ انداز سے پیش آیا۔ حضرت عمر سے برداشت نہ ہوسکا اوراس کی گردن اڑانے کی اجازت چاہی۔ مگرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر! تمہیں چاہئے کہ مجھے حسن ادائیگی کی تلقین کرتے اوراسے حسن طلب کی۔ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس کا قرض واپس کرنے کا حکم فرمایا بلکہ حسن سلوک کے طور پر بیس صاع زیادہ کھجوریں دینے کا حکم فرمایا

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم غیرمسلموں کو مسجد میں ٹھہراتے۔ ان کو ان کے طریقہ پر مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دیتے۔ ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا۔ اس وقت ان کی نماز کاوقت آگیا تھا۔ اس لئے انھوں نے مسجد ہی میں نماز شروع کردی۔ بعض مسلمانوں نے روکنا چاہا مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کردیا اور فرمایا نماز پڑھ لینے دو۔ چنانچہ عیسائیوں نے مسجد نبوی کے اندر اپنے طرز پر نماز پڑھی

ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پیشاب کیلئے بیٹھ گیا۔ صحابہ اس کو مارنے کیلئے کھڑے ہوگئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا جب دیہاتی فارغ ہوا توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا کہ یہ مسجدیں بول وبراز کیلئے نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کیلئے ہیں۔ پھر ایک شخص کو حکم دیا وہ ایک ڈول پانی لایا اور اس پیشاب پر بہادیا۔

گذشتہ سطور سے یہ بات بہ وضاحت عیاں ہوگئی کہ دین اسلام امن و سلامتی، عدل و انصاف،اعتدال و درمیانہ روی، عفو و درگزر اور رواداری و عدم تشدد کا دین ہے۔ بس آج مسلم معاشروں میں ان احساسات کو فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو ممکن العمل ہوسکیں

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact