میرا نام عطیہ ربانی ہے۔ لگ بھگ پچھلی دو دہائیوں سے بیلجیئم میں مقیم ہوں۔ پاکستان سے گریجویشن کیا۔ اس دوران مختلف تحریری مقابلوں میں حصہ لیا اور پذیرائی حاصل کی۔ لکھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ گھر میں چونکہ والدہ کتب پڑھنے کا بہت شوق رکھتی تھیں تو اشعار کہنے اور کہانی بننے پر بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ پہلی کہانی  گیارہ برس کی عمر میں لکھی۔ بعد ازاں بیلجیئم سے باقاعدہ کونٹینٹ رائٹنگ اور تھیٹر سکلز سیکھیں جہاں لکھنے کا موقعہ بھی ملا۔ اور دنیا کے مختلف ممالک کے لوگوں کے ساتھ غیر ملکیوں کے مسائل پر مختلف اسکرپٹ پر کام کرنے کا موقع ملا۔ معاشرتی موضوعات پر مختلف پلیٹ فارمز پر لکھنے کے ساتھ ساتھ، مختلف کردار ادا کرنے اور اپنی بات لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملی۔
معاشرتی مسائل پر مختلف اخبارات میں آرٹیکلز  لکھنے کا موقعہ ملتا ہے ۔ ناول نگاری میں ایڈونچر، سسپنس اور ہیبت یا ہارر جیسے موضوعات پر لکھا۔
جس کا موضوع معاشرتی برائی اور بے جا طاقت کا منفی اور مثبت استعمال ہے۔

پہلا ناول “پھر یوں ہوا کہ۔۔۔” دو ہزار اٹھارہ میں ایمزون پر  شائع ہوا۔دوسر ا ناول “لافانیت ایک سراب”  دوہزار اکیس میں شائع ہوا

جس کا موضوع معاشرتی برائی اور بے جا طاقت کا منفی اور مثبت استعمال ہے۔  
تیسرا ناول “زندگی ذرا ٹھہرو” انشاءاللہ بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔!
مختلف سوشل گروپوں میں مختصر کہانیاں اور افسانے لکھتی ہوں۔ اب تک بے شمار مختصر کہانیاں اور کچھ ناولٹ لکھ چکی ہوں۔ جو مختلف رسائل و ڈائجسٹ کی زینت بنے۔
مکڑی کا جالا
کیا وہ زندہ تھی؟
مکافات عمل
قبر کی کھڑکی
خوف جرم
چند ایک مختصر کہانیاں ہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact