Thursday, May 2
Shadow

معاشرے میں جیہز کی تباہ کاریاں | روبینہ ناز

روبینہ ناز
دین اسلام عورت کو حق مہر اور والدین کی جائیداد میں سے حصہ فراہم کر کے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ حضرت فاطمہ کی شادی کے وقت نبی پاک ﷺ نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ ان کے پاس گزارے کے لئے کیا کچھ ہے۔ حضرت علی نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ ایک چادر اور پانی کا گلاس ہے۔ آپ ﷺ نے یاد دلایا کہ مال غنیمت کا کچھ سامان بھی ہے اسے فروخت کر کے گھر کا سامان لے آئیں۔ حضرت علی نے سامان کی بولی لگوائی۔ حضرت عثمان سارا ماجرا دیکھ رہے تھے۔ سامان کی قیمت چار سو پچھتر درہم لگی۔ حضرت عثمان نے چار سو پچھتر درہم دے کر سامان حضرت علی سے خرید لیا۔ بعد میں تحفے کے طور پر واپس کر دیا۔ حضرت علی نے ان پیسوں سے حضرت فاطمہ کے لئے ضروریات زندگی کی چیزیں خریدیں۔ شادی نہایت سادگی ہوئی۔ حضور پاکﷺ نے اپنی پیاری بیٹی کو کچھ تحائف کے ساتھ رخصت کی
ہمارے ہاں آج کل یہ رسم بد اس قدر پھیل چکی ہے کہ ایک غریب شخص جو اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بمشکل پالتا ہے۔ بیٹی پیدا ہوتے ہی یہ فکر اس کے دامن گیر ہو جاتی ہے کہ خواہ جہیز کے لیے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے مگر بیٹی کی شادی کے موقع پر ساکھ قائم رہے اور برادری میں ناک رہ جائے۔ خود بھلے فاقوں کا سامنا کرنا پڑے ۔مگر بچی کا جہیز تو شان دار ہونا چاہیے۔ خصوصاً قیام پاکستان کے بعد تو یہ رسم اس قدر بڑھ گئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کے لیے لوگ ہرطرح کے غیر قانونی اور ناجائز ذرائع مثلاً چوری،رشوت،سمگلنگ وغیرہ کو بھی استعمال میں لانے لگے ہیں۔ اس طرح امراء کی دیکھا دیکھی زیاده جہیز دینے کی دوڑ میں غریب اپنی غربت کی چکی میں میں پس کر رہ جاتے ہیں صورت حال یہ ہے کہ بہت سے غریب گھرانوں کی شریف زادیاں شادی کی عمر ہونے کے باوجود تمام عمر گھر میں گھل گھل کر گزارنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کے والدین لڑکے والوں کے حسب منشا جہیز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے گویا یہ ایک ایسی رسم ہے کہ جس نے بہت سی بیٹیوں اور بہنوں کی زندگیاں برباد کر ڈالی ہیں  اگر ہمارے ہاں ہوس زر کا یہی رحجان رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب غیرت مند غریب لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر ڈالیں گے۔ یا پھر خود اپنے آپ کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ والدین کی جائیداد میں عورت کا ایک مقررہ حصہ ہوتا ہے ، جو اس کا شرعی حق ہے۔اب وہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ یہ حصہ اس لڑکی کو شادی سے پہلے سے ہی دیتے ہیں، شادی کے موقع پر جہیز کی صورت میں دیتے ہیں یاشادی کے بعد دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں شریعت کے اعتبار سے بھی ان پر کوئی قید نہیں ہے۔ آج کل حکومت نے جہیز کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے قانون تو بنا دیا ہے مگر قوانین کا فائدہ تبھی ہوتا ہے، جب ان پر عمل ہو اور عمل بھی تب ہی ہوتا ہے، جب انسان سچے دل سے اسے قبول کر لے۔ لہذا ضروری ہے کہ پہلے افراد کی سوچ تبدیل کی جائے تا کہ وہ یہ مان لیں کہ جہیز واقعتاً ایک معاشرتی روگ ہے۔ پھر اس کے بعد ضروری ہے کہ سب لوگ اس لعنت کے خاتمے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لاکر اس کی بیخ کنی کر ڈالیں۔ اس سلسلے میں اہل ثروت اور باقی لوگوں کو پہل کرنی چاہیے۔ اگر یہ لوگ شادی بیاہ میں سادگی اختیار کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ غربا بھی ان کی پیروی نہ کریں۔ آج کل بہت سے علماء اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ یہ اپنی لڑکیوں کی شادی بیاہ سادگی سے مسجد میں کرتے ہیں اور معمولی سامان کے ساتھ وہاں سے رخصت کر دیتے ہیں۔اگر نوجوان لڑکے بھی اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھیں تو انھیںں چاہیے کہ وہ جہیز لینے ہی سے انکار کر دیں ۔ خواہ لڑکی والے کتنا زور کیوں نہ دیں جہیز کا نظام ساری دنیا میں کسی نہ کسی طرح آج بھی رائج ہے۔ لیکن اس نظام نے ہمارے ملک کی خواتین کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ خود مختار اور با اختیار لڑکیوں سے شادی کرتے وقت لڑکا اور لڑکے والے جہیز کے بجائے لڑکی کی تنخواہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ وطن عزیز میں لڑکیوں کے والدین اور رشتہ دار، عورت کی آزادی کے ڈر سے لڑکیوں کو تعلیم اور نوکری سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی پر بھاری جہیز دینا پڑتا ہے۔ لڑکی کیونکہ خودمختار نہیں ہوتی اس لیے اسے ساری زندگی شوہر اور سسرال والوں سے دب کر رہنا پڑتا ہے۔ ذہنی، جسمانی تشدد اور طلاق کے واقعات اسی سلسلے کی کڑی ہیں بے چارے والدین قرض حاصل کر کہ اپنی لڑکیوں کو بیاہتے ہیں اورپھر ان کی زندگی قرض اتارنے میں گزر جاتی ہے مگر پھر بھی دامادوں کی فرمائشوں کو پورا کرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح بیٹی کا گھر بنا رہے۔ رسم جہیز قابل لعنت ہے اور انتہائی حقارت سے دیکھے جانے کے قابل ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے یہ فعل نہ سنت ہے نہ واجب اور اسلامی معاشرے میں اس کی نہ کوئی اصلیت ہے نہ حقیقت، بلکہ یہ معاشرے کے لیے ایک ناسور ہے. اگر جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہوجائے اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں گے

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact