Friday, May 17
Shadow

کہانی : سائبان۔کہانی کار: قیّوم خالد  ،شکاگو امریکہ

قیوم خالد – 

(۱)

ایک چھنّا کا ہوا اور اندر ہی اندر کوئی چیز ٹُوٹ کر کِرچی کِرچی ہوگئی۔ اُنہوں نے سراُٹھاکر اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ وہ گھمبیر سی صورت بنائے زیورات کے معائنہ میں مصروف تھے۔ یہ وہ زیور تھے جنھیں وہ پہن کر دُلھن بنی تھی۔ اِن زیوروں سے کئی خواب وابستہ تھے۔ اُن کے دل میں ایک عجیب سی خواہش نے انگڑائ لی کہ ایک بار صرف ایک آخری بار وہ زیورپہن کر آئینہ میں دیکھے کہ وہ کیسی لگتی ہیں۔آئنہ میں اپنی جوانی کا عکس ڈھونڈیں۔ حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ آئنہ پُرانے عکس نہیں لوٹاسکتے۔ وہ دِل ہی دِل میں اِس خواہش پر مُسکرا اُٹھّیں اور سر کی جنبش سے اس خیال کو ہلکے سے جھٹک دیا۔ اِس خیال سے کہ شوہر کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اُن کے دِل میں زیورات کی چاہت ابھی تک باقی ہے اور اُنھیں بیچنے کا خیال ترک کردیں ۔آج اُن کے شوہر کا مان ٹُوٹ چُکاتھا۔ اُن کی بہنوں کے زیور کبھی کے بِک چُکے تھے لیکن اُن کے اُصولی شوہر نے ہاتھ بندھے ہوئے ہونے کے باوجود کبھی اُن کے زیورات کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ وہ نپی تُلی زندگی گُزارنے کے عادی تھے۔ اپنی ضرورتوں کو وہ اپنی آمدنی کے تابع رکھتے تھے۔ رہی خواہش تو اُن کی کوئی خواہش ہی نہ تھی۔ شائد اُن کی خواہشیں بچپن کی بے آسرا زندگی ہی میں دم توڑ گئیں تھیں۔ ابھی اُن کی عُمر اُنگلیاں تھام کر چلنے کی تھی کہ اُن کے مانباپ نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اُنھیں تائی نے جو خُود بیوہ تھیں پالا پوسا تھا۔ اُن کے گھر میں خواہشوں کا کوئی ڈیرانہ تھا۔ دادا کا چھوڑا ہُوا ایک گھر تھا جِس میں وہ اپنی بیوہ تائی اور تایا زاد بھائی کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ گھر بھی شومئی قسمت سے ”آرائش” کی نظر ہوگیا تھا’ جب سکندرآباد ریلوے اسٹیشن جانے والی کنگز وے   

سڑک بنائی گئی۔ وہ سڑک اُن کے گھر کو روندتی ہوئی چلی گئی تھی۔ پھر اُن کے ایک پھوپھی زاد بھائی نے اُن لوگوں کو پناہ دی تھی۔ اُن لوگوں کی زندگی ایک مکان سے ایک کمرے میں سِمٹ آئی تھی۔ اُس کے بعد وہ خواہش کرتے تو کِس سے کرتے۔ مصائب کا ایک اندھیرا تھا جسے وہ لوگ اپنی پیہم جدوّجہد کی لو سے اُجالنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہی کیا کم تھا کہ پھوپھی زاد بھائی کے احسان کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے’ ورنہ ڈر تھا کہ وہ کہیں چھوٹ نہ جاتی۔ غرض اُنہوں نے ساری زندگی اُصولوں کی کڑی دُھوپ میں طے کی تھی۔ کوئی چھاؤں اُنھیں میسر نہیں آئی تھی اور کسی نے اُن کے ماتھے کا پسینہ نہ پونچھا تھا۔

جب وہ بیاہ کر اُن کے گھر آئیں تھیں تو اُن کے دِل میں بھی ارمان تھے، خواہشیں تھیں۔ وہ اُن کو بھی اُصولوں کی کسوٹی پر گھس دیتے تھے۔ بیوی نے بھی اپنے آپ کو شوہر کے رنگ میں بلکہ بے رنگی میں ڈھال لیا تھا۔ اب اُنھوں نے بھی دِل میں ارمانوں کو بسانا چھوڑ دیا تھا۔ مگر ایک خواہش ایسی تھی جِسے وہ کبھی دِل سے نہیں نِکال سکیں۔ وہ خواہش تھی ایک خوبصورت سے گھر کی جِسے وہ اپنی مرضی سے سجا سنوارسکے۔ گھر اُن کے لئے ایک خواہش تھی جبکہ اُن کے شوہر کیلئے ایک ضرورت۔ اُنھیں ایک آس تھی کہ ایک نہ ایک دِن اُن کی بچت زمینوں کے داموں سے زیادہ ہوجائے گی اور وہ زمین خریدنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ پھر پراویڈنٹ فنڈ اور کچھ ریٹائرمنٹ کے بعد وظیفہ بیچ کر وہ ایک گھر بناہی لیں گے۔ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنی اولاد کیلئے ایک سائبان فراہم کرنا چاہ رہے تھے۔ زمینوں کے دام کبھی اُن کی گرفت میں نہیں آسکے۔ اُن کا اعتماد ٹُوٹ چُکا تھا۔ وقت نِکلا جارہا تھا اور وہ وقت سے شکست کھا چُکے تھے۔ آج اُنہوں نے مجبور ہوکر بیوی کا زیور بیچ دینے کا فیصلہ کرلیا تھا تاکہ اپنی بچت کے پیسے مِلاکر زمین خرید سکیں۔ زیور پرکھتے وقت اُن کے چہرے پر شکست کی لاچاری نمایاں تھی۔

زیور بِک گئے۔ کُچھ خواب بچ گئے۔ کُچھ خواب کِرچی کِرچی ہوگئے۔ کُچھ دِن رنج وملال رہا۔ زمین خریدی گئی’ زیور بِکنے کا افسوس تو تھا لیکن ساتھ ہی زمین خریدنے کی خوشی بھی تھی۔ مکان کی خواہش پھر اُن کے دِل میں انگڑائی لینے لگی۔ اُن کے شوہر مکان کا نقشہ بنوانے میں مصروف ہوگئے۔ وہ مدّرس تھے ہر چیز میں پر فیکشن کے عادی تھے۔ نقشہ کے سلسلے میں بھی وہ خُوب سے خُوب تر کی تلاش میں تھے۔ ایک نقشہ اُنہوں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی کے لڑکے سے بنوایا تھا۔ ایک نقشہ اُن کے پُرانے شاگرد نے بناکر دیا۔ ایک دوست کا گھر اُنھیں پسند تھا اُس کا بھی نقشہ وہ اُٹھا لائے تھے۔ صرف نقشہ بنوانے سے اگر گھر بن جاتے تو تین گھر تیار ہوگئے تھے۔ نقشہ کے علاوہ بھی کئی مراحل تھے’ مسائل تھے۔ پلاٹ جو خریدا گیا تھا وہ شہر کے مضافاتی علاقہ میں پلان کی گئی ایک نئی کالونی میں تھا جہاں پانی کی سہولت نہ تھی۔ بجلی اور ڈرینیج کا انتظام نہ تھا۔ پانی کے بغیر تعمیر مُمکن ہی نہ تھی۔ جن لوگوں کے پاس پیسے کی فراوانی تھی اُن لوگوں نے بورویل یاکنویں کُھدواکر تعمیر کا آغاز کردیا تھا۔ محدود رقم ہونے کی وجہ سے وہ روپیہ خرچ کرکے پانی کا فوری انتظام نہیں کرسکتے تھے۔ بلدیہ کی طرف سے اِن سہولتوں کا انتظام ہونے میں دوچار سال لگ سکتے تھے لیکن اِنتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اِس دوران وہ ریٹائر ہوگئے’آمدنی میں ایک دم کمی ہوگئی۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ خرچ میں کمی کرنا مُشکل تھا۔ وہ اسراف کے عادی ہی نہ تھے کہ خرچ گھٹایا جاسکے۔ بچّے ابھی پڑھ رہے تھے’ اُن کی تعلیم کے بڑھتے ہوئے تقاضے تھے۔ سُکڑتے ہوئے وسائل تھے۔ بڑھتے ہوئے مسائل تھے۔ دِن بہ دِن بھاگتی ہوئی قیمتیں تھیں۔ وہ نئے سِرے سے وسائل جوڑنے میں مصروف ہوگئے۔ وسائل جوڑتے جوڑتے وہ زندگی سے ایک دن شکست کھاگئے اور گھر بسانے کی حسرت دل میں لئے اِس دُنیا سے رُخصت ہوگئے۔

اُن کے شوہر اپنے پیچھے پانچ چھ بیاض چھوڑ گئے تھے جن میں اُن کی آمدنی اور خرچ کا ایک ایک پائی کا حِساب لِکھا ہُوا تھا۔ یہ ایک مُدّرِس کی بندھی ٹکی آمدنی کا حِساب تھا جِس کی ایک اسمگلر’ ایک بے ایمان سیاستدان یا رِشوت خور افسر کی نظر میں کوئی وقعت نہیں تھی لیکن اُن کے لئے یہ ساری زندگی کا حاصل تھا۔ ساری زندگی کا حِساب تھا جِسے اُن لوگوں نے جِیا تھا۔ اُن بیاضوں کے ساتھ قلمدان میں ایک بوسیدہ نقشہ تھا جو شائد اُن کے آبائی گھر کا نقشہ تھا۔ یہ بوسیدہ نقشہ شائد اُن کے لاشعور میں لگی ہوئی ایک گِرہ تھی جو زِندگی بھر مکان بنانے میں حائل رہی۔ مکان کے نقشے اُن ہی بیاضوں کے ساتھ رہ گئے۔ ذاتی مکان کی خواہش پیاسی رہ گئی۔ وقت کی کسوٹی نے ایک بار پھر اُن کے خوابوں کے گھس ڈالا تھا۔ اب مکان بنانے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ بچوں کی تعلیم ختم ہونے تک زندگی چلانا ہی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ بڑا لڑکا انجینئرنگ کے تیسرے سال میں تھا۔ دوسرے لڑکے کو ابھی آرکِٹکچر میں داخلہ مِلا تھا۔ چھوٹا ابھی انٹر ہی میں تھا۔ خوش آئند مُستقبل کے خواب تھے۔ تعلیم چھڑائی نہ جاسکتی تھی۔ بچّوں کی تعلیم اُن کے شوہر کا خواب تھا۔ مسائل سے لڑتے لڑتے جب وہ ہِمّت ہار جاتے تو افسردہ ہوجاتے۔ پھر خُود ہی ڈھارس بندھاتے کہ دوسال ہی کی تو بات ہے لڑکا انجینئر بن جائے گا۔ میرا ہاتھ بٹائے گا۔ مُشکلیں آساں ہوجایں گی۔ زِندگی کے آخری دور میں وہ بھی خواب دیکھنے لگے تھے۔ وہ اپنے خوابوں کو تو اُصولوں کی کسوٹی پر گھس دینے کی عادی تھے لیکن وہ اپنے بچّوں کے خوابوں کو اپنے پسِینے سے سینچنے میں مصروف تھے۔ اب اُن خوابوں کی تکمیل کا بوجھ اُن کی بیوی پر آپڑا تھا۔ یہ فرض اُن کے شوہر اُن پر چھوڑ گئے تھے۔ مکان بنانے کیلئے جو پیسہ زندگی بھر قطرہ قطرہ جوڑا گیا تھا وہ تین سال میں روزمرہ کی زندگی کی کشمکش میں خرچ ہوگیا۔

بڑے لڑکے کی تعلیم ختم ہوئی’ مسائل کی شکل بدل گئی۔ ہندوستان میں سینکڑوں انجینئر بیروزگار تھے۔ میکانیکل انجینئرنگ کی اِتنی مانگ نہ تھی۔ بیٹے نے

ایم ای میں داخلہ لے لیا اور حسب معمول ٹیوشن پڑھا کر گھر کے اخراجات میں حِصّہ بٹاتا رہا۔ دو سال یونہی بیروزگاری کے نظر ہوگئے۔ اب اُس کا دل اُچاٹ ہوچُکا تھا۔ وقت کی رفتار تیز ہوچُکی تھی۔ مشرقِ وُسطیٰ میں تیل کی دولت دریافت ہوچُکی تھی۔ لوگ جوق در جوق مشرقِ وُسطیٰ کا رُخ کررہے تھے۔ آزاد و بیرون کا شور اور غلغلہ تھا۔ مشرقِ وُسطیٰ جانے کیلئے بھی پیسوں کی ضرورت تھی اور وہ تہی دست تھے۔ بیٹا باہر جانے کی سر توڑ کوشش میں لگا رہا’ لیکن وسائل کی کمی کے ہاتھوں ہار جاتا۔ آزاد ویزے اِستحصال اور دھوکہ کی ایک نئی شکل تھے۔ کچھ سچائی اور بہت کچھ جُھوٹ تھا’ دھوکہ تھا۔ دو ایک بار بیٹا بھی دھوکہ کھا گیا۔ اُس کی ہمت بالکل ٹُوٹنے پر آگئی۔ ماں سے نہ دیکھا گیا۔ اُنہوں نے زمین بیچ دی۔ یُوں بیٹے کے مشرقِ وُسطیٰ جانے کے اسباب کا اِنتظام ہوسکا۔ کُچھ خواب بچ گئے کُچھ خواب کِرچی کِرچی ہوگئے۔

(۲)

آج گھر بھراؤنی کی تقریب تھی۔ تینوں بھائیوں کے چہرے خوشی کے جذبات سے تمتما رہے تھے۔ وہ بھی آج خوش تھیں۔ یہ گھر ماجد نے بنجارہ ہلز میں بنوایا تھا۔ گھر میں خود ایک آرکٹکٹ تھا لیکن اُس کے باوجود ماجد نے اِس گھر کا نقشہ جِدّہ کی اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے فرنچ آرکٹکٹ سے بنوایا تھا۔ زمین اور اُس کے اطراف واکناف کے مکانوں کی تصویریں آرکٹکٹ کو فراہم کی تھی تاکہ اُس کا گھر بھی اُس خوبصورت ماحول میں گُھل مِل جائے پہاڑوں میں سجا ہوا خوبصورت مکان تھا۔ محفل اپنے عُروج پر تھی لیکن اُن کے دِل میں ایک کھٹک سی تھی۔ اُنہوں نے اپنے دِل میں جھانک کر دیکھا۔ سارے گھر کی صفائی کرنے کے باوجود جیسے کسی کونے میں کُوڑا رہ جاتا ہے اُسی طرح دِل کے کسی حِصّہ میں کہیں بے وجہ اُداسی ڈیڑا جمائے پڑی تھی۔ اُنہوں نے سر کو جھٹک دیا۔ آج اُداس سوچوں کے تعاقُب کیلئے وقت نہ تھا۔ آج اُداسی ایک جُرم تھی۔

سب لوگ کھانے سے فارغ ہوچُکے تھے۔ بڑے بُوڑھے اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ نوجوانوں کی الگ ٹولی تھی۔ اُن کے بنائے ہوئے کھانوں کی دُھوم تھی۔ خُصوصاً دم کی مچھلی اور مرگ کی دُھوم تھی۔

‘ مِل سکتی ہے” سارہ نے پُوچھا۔ ” آنٹی مُجھے آپ کی مچھلی کی ریسیپی

 ‘

کیا کروگی ریسیپی لے کر، ‘تُمہارے پاس تو اتنی ریسیپی جمع ہیں۔ لیکن پکانے کی تو نو بت ہی نہیں آتی”۔

“اسے ریسیپی مت  مت دیجئے آنٹی۔ اِسے تو صِرف ریسییپی جمع کرنے کا شو ق ہے لیکن پکانے کی تو نو بت ہی نہیں آتی”

حمیدہ نے چھیڑا۔

”سارہ کو تونمک کا تک صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہمیشہ نمک تیز ہوجاتا ہے” اسریٰ نے لُقمہ دِیا۔

” آنٹی مِیٹھابھی آپ نے ہی بنایا ہے”

”نہیں بِینانے بنایا ہے ” اُنہوں نے بہو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آج بہو کے پاؤں خوشی کے مارے زمین پر نہیں پڑھ رہے تھے۔

“So you have arrived”

ماجد کے دوست شہُود نے جیسے اعلان کرتے ہوئے کہا۔ سب اُس کی طرف مُتوجہ ہوکر سُننے لگے۔ جدّہ میں نوکری’ بنجارہ ہلز میں گھر’ خوبصورت بیوی اور کیا چاہیے۔

بیٹے کو یہ سب حاصل کرنے میں سات سال لگ گئے۔ سات سال میں اُس نے وہ کردِکھایا تھا جو اُن کے شوہر تِیس سال میں بھی نہیں کرسکے تھے۔ محنت تو سبھی کرتے ہیں لیکن کِسی کِسی کی محنتیں بار آور نہیں ہوتیں۔ اُنہوں نے پھر اُداس ہوکر سوچا’ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کی محنتیں رائیگاں تھی’ جدّوجہد بے معنی تھی۔ اُنہوں نے خُودکو تسّلی دی۔ وہ وقت اور تھا یہ وقت اور ہے۔ وہ دھیان بٹانے کیلئے پھر نوجوانوں کی باتوں کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ شہُودپاس پڑوس میں رہنے والو ں کا غائبانہ تعارف کرارہا تھا۔ نُکڑ والا جو مکان ہے اُس میں آرمی کے ریٹائرڈ کیپٹن رہتے ہیں’ بہت مِلنسار آدمی ہیں۔ تُمہارے گھر کے سامنے صدیقی صاحب رہتے ہیں۔

Hyderabad waters works

 کے چِیف اِنجینئر ہیں۔ اُن ہی کی وجہ سے اس گلی میں پانی کی قِلّت نہیں ہے۔ اُن سے بھی دوستی کی جاسکتی ہے۔ اُن کے پڑوس میں نواب صاحب رہتے ہیں’ ہاں اُن سے مِلنے سے پرہیز کرنا۔ ویسے بھی وہ وقت سے بہت نالاں ہیں کہ افضل ساگر کے نشیب میں رہنے والے لوگ افضل ساگرکے دہانے تک آپہونچے۔ کیا قیامت ہے ملّے پلّی کے لوگ یہاں تک آگئے۔ اُنہیں شکایت ہے کہ

 NRIs

تین چار سو گز کے پلاٹوں پر گھر بناکر بنجارہ ہلز کا حُسن برباد کررہے ہیں۔ پہلے توبنجارہ ہلز میں نواب اور امراء لوگ رہا کرتے تھے۔ اب تو ہر کوئی بنجارہ ہلز کا رُخ کررہا ہے’ چار پیسے مشرقِ وُسطیٰ میں کیا کمالئے پہونچ گئے بنجارہ ہلز ”یار میرا گھر تو چھ سو گز پر بنا ہوا ہے”۔ ماجد نے احتجاج کیا

”اُس سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتاپہلے یہاں پانچ دس ایکڑ پر بنائے ہوئے باغات اورکوٹھیاں ہوتی تھیں”۔

” یہ چار’ پانچ سو گز کے مکانات پسینے کی کمائی سے بنائے ہوئے ہیں۔ کسی حاکمِ وقت کی عطا کی ہوئی جاگیریں نہیں ہے۔ نشیب والے فراز تک یونہی نہیں پہونچ جاتے۔ اُنہیں بہتے ہوئے دھارے کے مخالف تیرنا پڑتا ہے”۔ماجد تھوڑا سا تلخ ہوگیا

”نواب صاحب کے پڑوس میں’مابے دولت ‘ کا مکان ہے اور یہ کوئی جاگیر نہیں ہے”۔ شہُود نے تلخی کو کم کرنے کیلئے کہا۔

”بڑے خطرناک پڑوس میں رہتے ہو تُم ” امجد نے ہمدردی جتائی۔

”مِسکین آدمی ہوں’ گھر بدل نہیں سکتا۔ باپ دادا کے بنائے ہوئے گھر میں رہتا ہوں”۔ شہُود نے کہا۔

سارہ کی نظر اچانک بِیناکے پیر کی سونے کی چین پڑ گئی۔

”ہائے کتنی کیُوٹ ہے ۔ کب لی تُم نے”

”دو دِن ہوئے”

”بدمعاش ‘ جُھوٹی تُم تو کہہ رہی تھیں کہ پیر کی چین کیلئے ماجد راضی ہی نہیں ہورہے ہیں”۔

امّی جان کے کہنے پر بڑی مُشکِل سے راضی ہوئے۔ امّی نے میری ضِدّ کی حِمایت کی تھی”

”آنٹی زندہ باد” لڑکیوں نے نعرہ لگایا۔

”تواب تمہارا سونے کا شوق گلے اور ہاتھوں سے ہوتا ہُوا پیروں تک پُہنچ گیا”۔ عثمان نے چھیڑا۔

بِینا بیگم کے کیا کہنے۔ کسٹمز کی نظروں سے بچانے کیلئے ایک آدھ چین تو میرے گلے میں بھی ڈال دیتی ہیں” ماجد نے کہا

سونے کی چین ہی تو ہے ماجد بھائی۔ کوئی لوہے کا طوق تھوڑا ہے” فاطمہ نے چھیڑا سب لڑکیاں بِینا کے پیروں پر جُھک کر چین کا معائنہ کرنے لگے۔

اُنہوں نے مُحبّت سے بہُو کو دیکھا۔ گلے میں سونے کی تین لڑیوں والی زنجیر۔ مہندی لگی ہاتھوں میں سونے کے کنگن۔ ہونٹوں پر لگی ہوئی سُرخ لِپ اِسٹک ‘اپنے میاں کی مُحبّت میں سرشار بہُو اُنہیں بہت پیاری لگی۔ ایسی سرشاری جو اُنہوں نے اپنی تیس سالہ ازدواجی زِندگی میں محسوس نہیں کی تھی ‘کیونکہ اُن کے میاں ایک خاص رکھ رکھاؤ والے تھے اور اُس زمانہ میں مُحبّت کے اِظہارکا رِواج ہی نہ تھا۔زِندگی بھرکبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اُنہوں میاں کو یا میاں نے اُنہیں مُسکرا کر دیکھا ہو۔ اُنہوں نے لِپ اِسٹک کبھی لگائی ہی نہ تھی۔ وہ مِسّی کے زمانے کی عورت تھیں۔ مہندی بھی اُنہوں نے شادی کے بعد ایک ہی دفعہ لگائی تھی۔ میاں نے اُنھیں رُکھائی سے ٹوک دیا تھا کہ اُنھیں مہندی پسند نہیں ہے۔ پھر اُس کے بعد اُنہوں نے زِندگی بھر مہندی نہیں لگائی تھی۔ نئی نسل کیلئے زِندگی کا یہ دورکتنا خوبصورت ہے اس میں لمحہ لمحہ زِندگی کو جوڑنا نہیں پڑتا ہے۔ ہر سال نئے کپڑے’ نئے زیور۔ اُن کے زمانے میں تو زیور زِندگی میں صرف ایک بار ہی بنتے تھے شادی کے وقت پھر زِندگی بھر اُنھی زیورات کے ساتھ گزارہ کرنا پڑتا تھا۔ رواج ہی یہی تھا۔ زِندگی مہلت ہی نہیں دیتی تھی زیور خریدنے کی۔

تینوں بیٹے اُن کا بہت خیال رکھتے تھے۔ بیٹا بہُوسال میں ایک مہینہ کیلئے حیدرآباد آتے تھے۔ ماجد نے اِس سال اُنھیں سونے کے کنگن بھی لاکر دیئے تھے۔ تُرکی ڈیزائن کے نفیس مُنّقش کنگن ‘اُنہوں نے خُوش اسلوبی سے وہ کنگن بھی بہُو کو پہنادیئے تھے کہ اب بُڑھاپے میں اُنہیں زیور کی خواہش نہیں ہے کیونکہ اُنھیں اندازہ ہوچلا تھا کہ بہُو کا دل اُن کنگنوں کیلئے ہُمک رہا ہے۔

آج اُنھیں اپنے شوہر کی بہت یاد آرہی تھی۔ کاش وہ زندہ ہوتے اور یہ سب اپنی آنکھ سے دیکھتے کہ گھر میں کیسی بہار آئی ہوئی ہے۔ آج زِندگی میں خُوشیاں بٹ رہی تھیں۔ لیکن وہ اپنا حِصّہ سمیٹنے سے پہلے ہی زِندگی کی محفل سے اُٹھ کر چلے گئے تھے۔ اُنہوں نے تھنڈی سانس لیتے ہوئے سوچا لیکن آج تو تھنڈی سانس بھی لینا ایک جُرم لگ رہا تھا۔

(۳)

کافی کا تلخ گھونٹ لیتے ہوئے اُنہوں نے ڈائننگ ہال میں ایک نِگاہ ڈالی۔ ہرطرف خاموشی تھی۔ سب لوگ سوئے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں رات دعوت کب ختم ہوء۔ وہ جب سونے کیلئے اُٹھ کر گئیں تھیں تو دعوت اپنے پُورے شباب پر تھی۔ سب لڑکے لڑکیاں بِیناکے گُن گارہے تھے۔ ”بِینا کی قسمت کے کیا کہنے۔ تھری چیرس ٹو بِینا زہٹ

اُن کی طبیعت کسلمند سی تھی اور شوہر کی یاد اب تک ذہن میں گُھوم رہی تھی۔ طبیعت کی کسلمندی دُور کرنے کیلئے وہ دور تر نکل گئیں۔

 Bina’s Hut

کِتناخُوبصورت نام ہے۔ اِک اور نام تھا جو اُن کے ذہن کے نہاں خانوں میں کہیں بسا ہُوا تھا۔ ”سائبان” یہ وہ نام تھا جو اُنہوں نے اپنے گھر کیلئے سوچ رکھا تھا۔ اِک ادھوری خواہش ‘ ایک حسرتِ ناتمام’ ٹُوٹے ہوئے دِل کی کسک’ اُنہوں نے اُداس ہوتے ہوئے گیٹ کے سُتون میں جڑے ہوئے سنگِ مرمر کی تختی کو دیکھا۔

 Bina’s Hut

پتّھر پتّھر کی قسمت بھی کتنی مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہوتا ہے سنگِ مرمر جو عمارتوں کے ماتھے پر سجایا جاتا ہے اور ایک ہوتا ہے گنیٹ کا پتھر جو بنیادوں میں لگتا ہے جو بوجھ اُٹھاتا ہے اور کسی کو نظر نہیں آتا۔ اُنہوں نے اُداس ہوکرسوچا۔

***

قیّوم خالد  ،شکاگو امریکہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact