میں ایک چیڑھ کا درخت ہوں اور راولاکوٹ جیسے ٹھنڈے اور بالائی علاقے میں رہتا ہوں۔مجھے میدانی علاقے دیکھنے کی حسرت ہے مگر شائید قدرت کو یہی منظور تھا کہ میں کبھی بھی میلوں تک پھیلے ہوئے کسی ہموار قطعہ زمین کو نہ دیکھ پایا۔ دنیا عجائبات سے بھری پڑی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میں خود بھی قدرت کا ایک عجوبہ ہوں۔ مجھے میرے دادا نے بتایا تھا کہ ہماری نسل بہت قدیمی نسلوں کے درختوں میں شامل ہے۔
مجھے فخر ہے کہ میرے جد امجد اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جس کو انسان prehistoric زمانہ کہتے ہیں۔ دادا نے یہ بھی بتایا تھا کہ دیار یا دیودار کہلایا جانے والا وہ اونچا درخت جو سامنے والے ٹیلے پر ہر وقت کھڑا رہتا ہے اس کا خاندان بھی قدیم دور سے یہاں آباد ہے۔ میر ا اور دیودار کا رشتہ بھی بہت مختلف نوعیت کا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان سمجھتے ہیں ، مگر یہ جو چھوٹے، موٹے، ٹھگنے ، دبلے پتلے اور نحیف قسم کے پودوں اپنی نسل کی بہتات پر اتراتے ہوئے ہم دونوں پر آوازیں کستے ہیں ان کو ہماری زبان کی سمجھ نہیں ہے۔
ان سب کو اپنی تیزی سے بڑھتی جوانی پر بہت ناز ہے مگر ہمیں اس وقت ہنسی آتی ہے جب یہ جوانی کی عمر میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے پاؤں اکھڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔ میں اور میرا ہمسایہ دیودار کا درخت جب پیدا ہوئے تو ان چوڑے پتوں والے بونے قد کے پودوں میں سے کوئی بھی پیدا نہیں ہوا تھا، البتہ ان کے پردادوں کی نسل کے کچھ درخت موجود تھے ۔
مجھے اور دیودار کو بس یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ جو کچھ ہمارے آس پاس ہو رہا ہے یہ سب ہماری صحت و سلامتی کے خلاف ہو رہا ہے، مگر ہم کسی سے اپنا دکھ بیان ہی نہیں کر سکتے ۔ اس لیے کہ ہماری زبان سمجھنے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ میں اگر اس کہانی کو لے کر بیٹھ گیا تو آپ کو موڈ بھی خراب ہو جائے گا۔ چلیں یہ کہانی پھر کسی وقت سن لیجیے ۔ آج میں آپ کو بڑی دلچسپ کہانی سناتا ہوں کہ ہم یعنی چیڑھ کے پودے پیدا کیسے ہوتے ہیں۔
میں خود کو دنیا کے عجائبات میں سے ایک اس لیے بھی سمجھتا ہوں کہ ہماری پیدائش بھی نرالی ہوتی ہے۔ میں ہی نہیں بلکہ میری نسل سے ملتی جلتی دیگر تمام نسلوں کے پودوں سمیت ہر طرح کے پودے قدرت کے دیئے گئے نظام کے تحت ہی اپنی افزائش کر پاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ انسانوں ، جانوروں اور دیگر اجسام کو نسل بڑھانے کے لیے اپنی ہی نسل کی مخالف جنس کے ساتھ میلاپ کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہمارا میلاپ بہت ہی منفرد ہوتا ہے۔ ہمیں دنیا میں آنے کے لیے تین مرحلوں میں سے گزرنا پڑتا ہے۔
ایک دیودار کے پودے کی افزائش کا پہلا مرحلہ دیگر کئی نسل کے پودوں اور دیگر نباتات کی طر ح پولینیشن ہی ہے۔ پولنیشن کامیابی سے ہونے کے لیے، پولن کو نر پودے سے مادہ پودے میں منتقل ہونا ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمیں قدرت نے نر اور مادہ دونوں کے جسم کی داغ بیل ڈالنے کی صلاحیت دی ہے مگر ہم اس منفرد صلاحیت کا بہت ہی ذمہ دارانہ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے اندر “مردانہ وجاہت” اور “بہادرانہ خصلت ” جیسی دماغ خراب کرنے والی اصطلاحات بھی رائج نہیں ہوتی ہیں۔ اور نہ ہی ہم اپنی مادہ کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ اس لیے نرینہ اولاد کے چکر میں ہم اپنی نسل کے ساتھ بالکل بھی ناانصافی نہیں برتتے۔ بلکہ ہم اپنی مادہ کو اپنے سر کا تاج بنا کر رکھتے ہیں۔
اور اس محبت بھرے سلوک کا حق دار اسے پیدائش کے مرحلے سے سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم جب اگلی نسل کا بیج بوتے ہیں تو اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ اگر مادہ کو پیدا کرنا ہوتا ہے تو اسے ہم ( یعنی چیڑھ کے درخت ) اپنے سبے سے اونچے مقام یا تاج میں پیدا کرتے ہیں، جبکہ نر کا وجود نیچے کی شاخوں پر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے نر بچے اپنے ارد گرد بہت سارے ہم نسل بچوں کے خواہش مند تو نہیں ہوتے مگر پتوں کی باریک نوکیلی شاخوں کے جھرمٹ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بچپن میں وہ بھی بہت دبلے پتلے اور نرم ہوتے ہیں۔ہمارے لیے قدرت نے نر بچے پیدا کرنے کا موسم صرف موسم بہار میں رکھا ہے۔
تحریر : مظہر اقبال مظہر