افسانہ نگار : محمد توصیف

مجھے اکثر خوف گھیر لیتا ہے، کشت الفاظ ویران پڑ جاتی ہے اور قلم گونگا۔ میں عدم کے اندھیروں میں بے نقاب مردہ چہروں کو ماتم کرتا دیکھتا ہوں۔ پرچھائیوں کے لاحاصل تعاقب، آہ و نارسائیوں کی چیخیں سنتا ہوں۔  ایسے لگتا ہے جیسے ساحل دنیا سے ریت پھسل گئی ہے، لہریں گرداب زیست کا سفینہ چاک کر چکی ہیں۔ محبت اور شہرت گھپ اندھیرے میں کہی غرق ہو چکی ہے۔ بار بار مسلسل وقوع پزیر ہوتے اس چکر سے مجھے عالم کے بے معنی پھیلاؤ پر کامل یقین ہو چکا ہے۔ عالم زیست کی مستور تمناؤں میں میری روح کے گوہر بے رنگ ہو چکے ہیں۔ میں فرار کے لغو قصے گھڑتا ہوں تاکہ مجھے سکون میسر ہو۔ پر مجھے یقین کامل ہے، اس لامعنویت کے عمیق چکر میں ہم خود ہی روشنی اور خود ہی تاریکی ہیں۔

وہ اچانک  رک گیا۔ وحشت ناک خاموشی میں دھیمی سانسیں بھرتے کمزور بدن اور بکھرے بالوں والے دیہاتی، بوڑھی عورتیں اور بچے سب کے سب گوش توجہ سے کھڑے دید تبرک سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ وہ آہستہ آہستہ بولتا جاتا جیسے دھیان سے سیپی گوہر سینچتی ہے۔ اس کے لفظ لفظ میں حکمت و دانائی تھی۔

ایک کمزور دہقان آگے بڑھا۔ اس کی فصل اور اکلوتی بکری سیلاب کی نظر ہو چکی تھی۔

“میں لاولد ہوں۔ میری بیوی گزر چکی ہے اور اسباب کو طغیانی سیلاب کی بہا لے گئی۔ میرے پاس کوئی سہارا باقی نہیں بچا.”

راہگیر نے سرد آہ بھری اور چاند کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “بادل تیرا روپ نیم شب ڈھانپ لیں گے اور تارے اضطراب و مایوسی سے بُنی تاریک چادر پر نمودار ہوں گے۔ تم دیکھو گے کہ رقاصہ ہست و بود تمہیں آغوش میں لے لے گی۔ اس عہد رفتہ کے بے اہنگ سر تمہاری یاداشت کی مقدس پتھریلی چٹانوں کو توڑ دیں گے۔ خوش یا مایوس، تم بلآخر سو جاؤ گے۔ آہ، نیند خواب کے قاتل بھی۔ یاد رکھو، بیداری آوارہ خیالی اور اذیت کو جنم دیتی ہے۔ مصائب کی چادر اوڑھ کر درد کو سہلاتے ہوے غم کو بہلایا جا سکتا ہے۔ اے یاران جہاں گرد، مجھے افسوس ہے کہ خوشی اور جدائی کا راستہ ایک رہا۔ پر خوشی یہ کہ آنے والا کل گزرے شب و روز جیسا نہیں ہو گا۔”

راہگیر نے آگے بڑھ کر شفقت سے اسے بوسہ دیا۔

رات جب طویل ہو جائے اور کھوکھلی آوازوں کے ہجوم میں تم خود کو غرق کر لو، جب شر و لالچ کی زہریلی ہوا سے تمہاری سانسیں اٹک جائیں، تو کان لگا کر سنو، سہمے ہوے اندھیرے میں کسی ایسے شخص کو جس نے سڑے ہوے جسم کی مانند دل کو پاؤں تلے روند ڈالا ہو۔ تم ماضی کی درخشندگی اور حال کے آلام کا ادراک حاصل کر لو گے۔

ہجوم سے ایک نواجوان آگے بڑھا۔ اپنی محبوبہ کی نارسائی کا ستایا ہوا۔ قبل اس کے کہ وہ بول پاتا دانا نے حالت پھانپ لی۔

عمر کے اس حصے میں لہو کی تغیانی تمہاری نبض کو پھلا دیتی ہے۔ پارہ پارہ ہو جانے کے خوف سے تم چھت کی آڑھی ترچھی لکیروں میں کسی مکڑی کو دیکھتے ہو جو اپنی ہی جھاگ میں، اپنی ہی زردی اور خفقان میں سوکھتی جاتی ہے۔ ایک چکر دار آواز کا ترکش وقت کے لمحات کو پار کرتا ہے۔ ایک سنگیت کا سر جو ٹھہرے ہوے پانی میں آہستہ آہستہ تہہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ میں جانتا ہوں تمہارے جسم میں سرسام پیدا کرنے والے احساس کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ اے معصوم تحیر میں گھلے ہوے  پرندے، اپنی بلوغت کے ایام یاد کرو۔ اپنی ماں کے پیار کو، بہن کی مہندی کو۔ وہ مھیم نامعلوم اور فراموش کردہ احساسات تمہارے مصائب کو اپنے اندر سما لیں گے۔ جیسے مہندی سفیدی کو چھپا لیتی ہے۔

اے لوگوں! میں ہر سال یہاں اسی راستے سے گزرتا ہوں۔ دیکھو، کس طرح ہمشیہ ہی تمہارے پاس سنانے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ ابدی خوشی کا کوئی راز نہیں۔ حال کو جیتے رہو۔ دنیا کی کسی زیبا ترین آواز میں نغمہ سرائی جیسا کوئی نام یاد کرو۔ ہاں میں جانتا ہوں، امید کافی نہیں ہوتی۔ آوازیں سست پڑ جاتی ہیں اور سنگیت کی مدھرتا کچھ بیتا یاد دلاتی ہے۔ پر ان احساسات میں تم ضرور کسی ملائم موسم میں مرنے کی دعا کرنا۔ تاکہ چمن کے گل اور یاسمنوں کی سفیدی تمہاری لحد کو سجا دے۔ ایک یادگار کے طور پر۔

راہگیر نے عبادت گاہ کے دالان میں لگے امبری کے پھول دیکھے۔ ایک کو توڑا اور عمر رسیدہ بیوہ کے حوالے کر دیا جو ایام سرفرازی کو یاد کر رہی تھی۔

تمہارے زہن کے دریچوں میں یادوں کے سازندے محو رقص ہیں۔ وہ کسی نغمے کی دھن میں لوٹنے جیسی ہیں۔ کسی کہانی کے باب کی طرح جو تمہیں بے انتہا پسند ہو۔ ہاں، یادیں درد سے جنم نہیں لیتی۔ وہ ماضی کا سرمایہ ہیں۔ وہ گزرے لمحات ہیں جو کھوجنے سے بچ گئے، وہ تمہارے پاس ہیں جیسے باغ کسی دانا مالی کی نگہداشت میں ہو۔ پر سنو!

 وہ جوں جوں بڑھیں گی تم گھلتی جاؤ گی۔ تمہاری آنکھوں سے غم قطرہ بہ قطرہ پگھل جائے گا۔پر تمہارا سیاہ و سرکش سایہ سورج کی باتوں کا اسیر ہو چکا ہے۔ جان لو، یادوں کے پھندے تمہیں بلند کریں گے اور ایک چنگاری تمہیں نگل لے گی۔  تم نے انہیں چاہا ہو گا۔ یقیناً تبھی احساسات یادوں کے ساتھ پوری جان لئے زندہ ہیں۔ وہ تم سے محبت کرتے تھے، جیسے بے جگری سے سوکھے لب ، عطش سے جھلسے ہوے۔ تم نور اور اپنی مملکت کی زیبائش ہو۔

اس نے دور پہاڑوں کی طرف دیکھا، سفید برف پوش چوٹیوں کو جن کی ملائم گھاس اور پھولوں پر  شہد کی مکھیاں رقص کرتی ہیں۔ جہاں سورج اپنی کرنیں احتیاط سے برف کو سونپتا ہے  جو اس کی دیوانگی میں پگھل کر زمیں کو شادابی بخشتی ہے۔ جہاں جگنوں اور تالاب مل کر تاریکی کا مذاق اڑاتے ہیں۔ عذر مقبول کہ وہ ہماری چاہت پوری نہیں کر پاتے۔

وہ جان گئے کہ دانا راہگیر کیا کہنا چاہتا تھا۔ “اگر تم وہ سب بھول گئے ہو تو مجھے اپنی یاد رفتگاں میں بحر طور شامل کرنا۔ آہ، کہ میں نے کتنا چاہا کہ تم سے فراموش کردہ قصے بیان کروں پر تم مزمت میں مشغول رہے۔”

 تم یہ سب بیان کر رہے ہو جیسے چاند کمسن بچے کی مانند نمودار ہو اور اندھیرے میں روشنی بکھیر دے۔ نیند ہماری پلکوں سے دور اور عافیت غائب ہو چکی ہے۔ ہمیں لگتا ہے چاند تاروں کو الوداع کہہ رہا ہے۔ پر ہاں، کتنی ہی راتیں اگرچہ طویل، گہری اور تاریک تھیں پر تمہارے الفاظ کی برکت سے خوشنما صبح جیسی حسین بن گئی ہیں۔ تم عظیم ہو اے شخص۔

ایک بوڑھی خاتون نے راہگیر کے لئے کلمہ شکر ادا کیا۔ یہ وہی تھی جس کے گھر پہلی بار اجنبی نے قیام کیا تھا۔

ہم نے سب دنیا سے حاصل کیا اور وہ  اسی کو لوٹ جائے گا۔ یہاں تک کہ قوت اور فہم کا ربط بھی۔ میرے دوستوں، تم سب فطرت کو دیکھو اور اس سے آشنا ہو جاؤ۔ شور مچاتی ہواؤں سے، سونے کے لیے سمٹے پھولوں اور چاند کے لئے سینہ کھولے سمندر سے۔ پر ہم سب اس سے کتنا دور ہیں۔ باں، بہت دور اور ناآشنا۔ ہائے بدقسمتی کہ ہمیں یہ مسرور نہیں کرتا۔ ہاں ہم بدعقیدہ اور رموز فطرت سے ناواقف ہیں۔ ان حسین چوٹیوں کے کنارے کھڑے ہو جاؤ اور فطرت کی سانسوں میں خوشبو بکھیر دو۔ خود کو اس ازیت سے نجات تم خود ہی دے سکتے ہیں کیونکہ وہ تمہارے تصورات سے ہوتی ہوی تمہارے خون میں تمہارے ہی سبب آئی ہے۔ ہم جو دیکھتے ہیں وہی اختیار کر لیتے ہیں، من و عن محبت یا ناپسندیدگی سے استثنیٰ۔ ناراضگی اور نامہربانی کے انداز میں دشت کے کسی جھنڈ میں ایک تکلیف دہ انکشاف اور مایوسی کے ساتھ وقت تمہارا پیچھا جاری رکھے گا۔ پر گزرے کل کے سبب خود کو ملامت مت کرو۔ وہ تمہاری قدیم سچائی کو منہدم کر دے گا۔

پہاڑوں سے دھند چھٹنے لگی۔ دیہاتی آنسوں بہا رہے تھے۔ راہگیر نے پوٹلی ہاتھ میں لیتے ہوی الوداعی نگاہ سے انہیں دیکھا۔ وہ سب اسی حال میں تھے۔

روشنی چراغ سے اہم ہوتی ہے۔ جیسے قلم کے بغیر سیاہی موجود ہو تو کام چلایا جا سکتا ہے۔

وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا پہاڑوں کے بیچوں بیچ دھندلکے میں کہی غائب ہو گیا۔ اسے کہی اور بھی جانا تھا۔ انہی راستوں سے جنہیں وہ ہمیشہ استعمال کرتا آیا تھا۔ یاس و مایوسی میں مبتلا لوگوں کے لیے جو ویسے ہی رہے۔

    “وہ ہماری مدد کے لیے آئے گا! وہ ضرور آئے گا!

 کیونکہ مصیبتیں اور تکلیفیں برقرار رہیں گی۔” بوڑھی راہبہ کے اس اعلان پر سبھی لوگ دھیرے دھیرے غائب ہو گئے۔

لکھاری کا تعارف

محمد توصیف

: گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact