جاوید خان
ایک تھے سیدہدایت حسین شاہ بخاری ،بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ کے علاقے شیندرہ سے ہجرت کر کے اس طرف والے پونچھ میں ،اپنے کنبے قبیلے سمیت آباد ہوگئے۔ان کے والد سید عمر شاہ بخاری ؒ پونچھ میں ہندؤوں اور مسلمانوں دونوں کے سر پنچ ہوتے تھے۔ہدایت شاہ صاحب 1947 میں آزادکشمیر کے موجودہ ضلع سدھنوتی کے کرنل ہدایت اللہ خان کے مسلح جھتے میں شامل ہوگئے تھے۔یہی وجہ بعد مہاجرت کاسبب بنی۔
ہدایت شاہ بخاری صاحب نے اس پونچھ میں شادی کی ان کے اولادیں ہوئیں۔پھر وہ زندگی میں مگن ہوگئے۔جانے کیسے مگر وہ جامع مسجد سون ٹوپہ میں امام ہوگئے ۔سیدھے سادے بندے تھے۔مطالعہ واجبی تھا۔ جو اُس دور کے مطابق کافی تھا۔ ایک عرصے میں ٹوپہ ہائی سکول تب یہ ہائی سکول نہ تھا بل کہ مڈل سکول تھا۔میں عربی کے معلم مقرر ہوگئے۔کہتے ہیں شاہ صاحب پرچوں کی پڑتال کرتے ۔پاس ہونے والوں کے پرچوں پرصرف ‘‘ پ ’’ اَور فیل ہونے والوں کے پرچوں پر ‘‘ف ’’ لکھا کرتے تھے۔انھیں بزرگان دین سے خاص اُنس تھا۔اَور اَہل بیت سے تو لازماًً تھا۔دَوران وعظ اولیاکرام ؒ کے قصے ،کرامات اَور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی سیرت پاک ،دیسی اُردو لہجے میں سنایا کرتے تھے۔ہدایت شاہ بخاری ؒ کی آواز میں کمال کاجادو تھا۔جب سیف الملوک یاپنجابی ،ہندکو اَور پہاڑی اشعار لَے میں پڑھتے تو مجمع جھوم اُٹھتا۔
سیّد فاضل حسین شاہ انہی ہدایت شاہ بخاری ؒ کی دوسری اَولاد تھے۔اَگرچہ کوئی بڑی عالمانہ ڈگری ان کے پاس بھی نہ تھی۔قاریات کاکورس کیاہواتھا۔قرآن پاک اچھاپڑھتے تھے۔زبان پر عجمی لہجے کااَثر تھا۔صوفیانہ کلام یہ بھی بہت خوب صورت پڑھتے تھے۔ذکر و واعظ کی مجالس میں ان سے خصوصی کلام پڑھوایا جاتاتھا۔
میرا اِن سے پہلاسامنا ہواتو مَیں سکول میں پرائمری کاطالب علم تھا۔ٹوپہ جامع مسجد تعمیر کے مراحل میں تھی۔اَور یہ مسجد کی بغل میں بنے کمروں رہائش پذیر تھے۔سکول آتے جاتے یہ اپنے کمرے کے سامنے برآمدے میں کھڑے نظر آتے ۔اُس وقت کشمیر میں تحریک آزادی زوروں پر تھی۔اَکثر ریڈیو سے کشمیر کی تحریک آزادی سے متعلق ترانے بجتے رہتے تھے۔ان کے کمرے کے ریڈیو سے پروگرام ‘حی علی الفلاح ’ کے بعد یہ ترانے اَکثر نشر ہوتے رہتے تھے۔
مسجد اَقصی ٰ روتی ہے کیوں یہ تباہی ہوتی ہے؟
جاگو جاگو صبح ہوئی ۔
اور
میرے وطن ۔۔میرے وطن
میرے وطن !
تیری جنت میں آئیں گے اک دن
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
خاص کر صبح کے اوقات میں سکو ل جاتے ہوئے ان کے ریڈیو سے یہ بول ہوا کے دوش پر دُور دُور تک سنائی دیتے تھے۔پہلے پہل جب میں نے انھیں دیکھا تو ایک دم ان کی شخصیت کاخوب صورت تاثر مجھ پر قائم ہواجو مدت بعد آج بھی باقی ہے۔
میانہ قد ،چمکتا نورانی چہرہ ،سیاہ گھنی داڑھی جس نے آگے بڑھ کر حال ہی میں چہرے کی خوب نمائی کردی تھی۔گھنے سیاہ اَبرو اَور گھنی سیاہ پلکوں کے درمیان چیتاچشم آنکھیں ۔پہلی نظرمیں وہ کوئی صوفی اَور مجاہد مشترکہ روپ لگے۔ایک روحانی شخصیت کابھرپور سراپا جو مراقبائی لہروں کے ساتھ آپ کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرے۔یہ تھی میری ان سے پہلی نظری ملاقات۔اپنے والد سیّد ہدایت شاہ بخاری ؒ کی بیماری کے بعد یہ ان کی جگہ امام ہوگئے۔امامت کامنصب جو تقاضے کرتا ہے یہ اس پر پورے اُترے تھے۔سون ٹوپہ کے علاوہ دوسرے گاؤں کے لوگ بھی ان کاحد درجہ احترام کرتے تھے۔اِن کاگاوں ‘مینجاڑ ’تھا۔جب کہ یہ امام سون ٹوپہ میں تھے۔ان دونوں گاوں کے درمیان ایک بڑا نالاحائل ہے۔علاوہ ان کے گھر سے سون ٹوپہ تک دن بھر کی مسافت بھر پگڈنڈی والا پتھریلا رستا ہے۔آدھی اُترائی پھر چڑھائی ۔ان مٹھی بھر زندگی یہ چڑھا ئیاں اَور اُترائیاں طے کرتے گزر گئی۔
فاضل شاہ بخاری ؒ کے اندر ایک چھوٹاسا فاقہ کش صوفی آلتی پالتی مارے بیٹھا رہتاتھا۔ایک وقت میں مسجد کے ساتھ لنگر کاانتظام تھا۔مگر بعد ختم ہوگیا۔طلبا چلے گئے۔انھیں جو ملتا کھالیتے۔ایک مرتبہ نماز جمعہ کے بعد ان کے کمرے میں گیا۔تو کہنے لگے مجھے سخت بھوک لگی ہے کچھ کھا لوں ۔؟کھانا آیا تو پیاز اَور ڈالڈے میں پکے ہوئے ٹھنڈے چاول ،جو ایک رات قبل کے تھے۔کسی نے پوچھا آپ یہ تناول کریں گے ۔؟یہ تو جمے ہوئے ہیں۔بولے بَس جو میسر ہے اُس پر شکر ہے۔وہی ٹھنڈے چاول کھا کر پانی پیا اَور فقیرانا ہاتھ شکر کے لیے بلند کرلیے۔وہ مصنوعی نہیں اَصلی درویش تھے۔
پورے گاؤں میں ہر گھر کے ،ہر فر د کے دل میں ان کی عزت تھی۔خواتین ،مرد ،بوڑھے بچے اَور جوان اُن کاحد درجہ اَحترام کرتے تھے۔بعض اوقات وہ بھوکے بھی رہے ۔مگر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ہمارے دوستوں میں ایک ہیں مولانا سردار سجاد خان ،یہ فاضل حسین شاہ بخاری صاحب کے اتنے ہی قدردان تھے۔اتفاقاًً انھوں نے ایک دن ٹوپہ پر جمعہ پڑھایا ۔کھانے کاپوچھنے پر انھوں نے کہا جو مل جائے کھا لیں گے۔کھانا آیا تو مولانا سجاد صاحب نے کہا فاضل شاہ صاحب ولی اللہ ہیں ۔ایک تو اس سردی میں راتوں کو یہاں رہتے ہیں۔دوسرا اتنا سادہ اَور ٹھنڈا کھانا کھا کر بھی خوش ہیں۔
والد نے چھوٹی عمر میں ہی ان کی شادی کروادی تھی۔لہٰذا وہ صاحب اَولاد تھے اَور آج کے معروف معنوں میں کثیر الااَولاد تھے ۔اَگرچہ جامع مسجد جس میں وہ پڑھاتے تھے۔محکمانہ طور پر رجسٹرڈ ہے۔اَور اوقاف کی طرف سے اُن کی تنخواہ چند ہزار روپے مقرر تھی۔جو ناکافی تھی۔مگر اُن کے چہرے پر سکون اَور ایک بھرے ہوئے پیٹ والے شخص کاتاثر کبھی گم نہ ہوا۔وہ صحیح معنوں میں اہل سادات کی عزت تھے۔فقر و فاقہ قناعت جو اکثر برصغیر کے صوفیانہ سوانحی ادب کاحصہ ہے۔فاضل شاہ بخاری اُن قصوں کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔
اَگرچہ فاضل حسین شاہ بخاری بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔مگر وہ تمام مکاتب فکر کے لوگ اُن اَحترام کرتے تھے۔ایک مرتبہ متیال میرہ (ایک گاوں ) میں جنازہ ہوگیا۔واپسی پر مَیں
اَور فاضل شاہ صاحب ایک گھر کے پاس سے گزرنے لگے۔مکینوں نے زبردستی روک لیا۔گھر کی بہو کامیکہ بریلوی تھا۔بھائی شاہ صاحب سے پڑھے ہوے تھے۔خاوند ،سسر اَور دیور تبلیغی جماعت سے تھے۔فاضل شاہ صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔اُن کے ساتھ مجھے بھی گھر لے گئے۔کھانے کاوقت نہیں تھا۔مگر خواتین کو جیسے پر لگ گئے۔فوراًًسوئیاں ،کسٹرڈ تیار کرکے ڈونگے آگے رکھ دیے۔پھر چائے ،بسکٹ اَور کیک سے تواضع کی۔گاوں کے ہر گھر میں وہ گھر کے فرد کی طرح تھے۔مگر فاضل شاہ صاحب نے چاردیواری کبھی مذاقاً بھی پار نہ کی۔لگتا تھا کہ ایک اَزلی سنجیدگی انھیں ورثے میں ملی ہے۔جس منصب پہ وہ فائز تھے شاید اس کاتقاضا بھی یہی تھا۔ایک مسلک کے ساتھ جڑے رہنے اَور اس کانمائندہ ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی مسلکی بخار نہ پالا۔ٹوپہ میں ایک نوجوان شیخ عبد الواھاب ؒ کے مکتہ فکر کی چھاپ لیے داخل ہوئے۔اس وقت نوجوان کچی عمر کے تحت کچے جوشیلے جذبات کے بہاو کی زدمیں تھے۔معاشی آسودگی حاصل تھی یوں گھر بار کی فکر سے آزاد تھے۔مسلک کی کتابیں پڑھتے تھے اَور پڑھاتے تھے۔عربی زبان پر گرفت تھی۔فاضل شا ہ صاحب جانتے تھے کہ ان کامکتبہ فکر اَور وہ مذکورہ نوجوان کے فتووں کی زد میں ہے۔مگر انھوں نے ہمیشہ محراب و منبر پر گفتگو کے لیے انھیں موقع دیا۔وہ بحث سے ہمیشہ بھاگتے تھے۔کہتے تھے ان چیزوں کاکوئی فائدہ نہیں بل کہ
نفرتیں اَور مزید اختلاف جنم لیتے ہیں۔
اِن کے والد سیّد ہدایت شاہ صاحب پاکستان میں کسی خانقاہ سے سیّد اَنور علی شاہ ؒ کے مرید تھے ۔مگر یہ جہلم کالادیو میں سلسلہ نقشبندیہ کے صوفی حضرت عبدالواحد صدیقی ؒ سے مرید تھے۔اِن بزرگوں کاطریقہ تدریس نمود و نمائش سے پاک ہے اَور موجودہ مروجہ خانقاہی تصوف سے ہٹ کر ہے۔
ان کے پاس ان کے والد محترم کادیا کپڑوں کایک جوڑا تھا۔یہ ہر جمعہ کو وہی زیب تن کیا کرتے تھے۔بار بار دھوتے ،سکھاتے ،استری کرتے اَور بہ وقت نماز جمعہ پہن لیتے۔حالانکہ بیعت وہ والد سے نہ تھے۔جیسے کے اہل تصوف کا اصول ہے کہ وہ اپنے شیخ کادیا خرقہ خلافت ،کرتا خاص طور پر سنبھال کر رکھتے ہیں اَور خاص موقعوں پر پہنتے ہیں۔
مزاح ان کے مزاج میں تھا۔مگر اعتدال اَور منصب امامت کے دائروں کو سنبھالنے والا۔ نہ کہ پامال کرنے والا۔کسی موقعے پر وہ دوسرے مسلک کے بندے یا پھر اپنے ہم مسلک کو کہہ دیتے ۔‘‘تُسی دوے ہو۔’’ (آپ دوسرے فرقے کے ہیں ۔ذو معنی آپ ذرا دوسرے ہیں ۔)مگر اس انداز سے کے برائی ،پرائی کے ساتھ ساتھ طنز کاشائبہ تک نہ ہوتا۔بل کہ یہ کہتے ہوئے ان کاچہرہ مسکراہٹ کے پیچھے کھلتا رہتا تھا۔ مخاطب بھی چوں کہ مزاج آشنا ہوتا۔لہٰذا وہ بھی جوابی مسکراہٹ کے ساتھ جوابی حملہ کرتا۔
قاری اَخلاق صاحب سردی بھالگراں نامی گاوں سے تھے۔یہ گاوں دریاے جہلم کے کنارے ،پاکستان کاسرحد ی گاؤں ہے۔قاری اَخلاق صاحب گورنمنٹ ہائی سکول سون ٹوپہ میں تعینات تھے۔اَور بھالگراں کی جامع مسجد میں اِمام بھی تھے۔اَخلاق صاحب تھے تو خالص دیو بندی مگر مسلک اُن کے وجود و روح سے ایسے ہی گزر گیا تھا جیسے پتلے کپڑے سے ہوا گزر جاتی ہے۔
صبح سید فاضل حسین شاہ بخاری اپنی مسجد کے بغلی کنارے پر کھڑے رہتے ۔ٹھیک اس وقت قاری اَخلاق صاحب ٹوپہ بازار سے اُتر کر سکول کی طرف جانے والی سڑک پر ہوتے۔علیک سلیک ہوتی۔‘تُسی دوے ہو۔’جیسے جملوں اَور جوابی جملوں کا تبادلہ ہوتا۔پھر دونوں قاری صاحبان اپنی اپنی راہ لیتے۔فاضل شاہ صاحب اکثر دیوبند ،اہل توحید اَور وہابی مکتبہ فکر کے ملنے والے دوستوں سے مصنوعی اندازمیں پوچھا کرتے ۔‘‘سُنیا تُسی آخنے ہو کہ اللہ ہیک اے۔؟’’ (سناہے آپ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے۔؟)
ایک دن یہی سوال اُوپر کھڑے کھڑے فاضل شاہ صاحب نے قاری اَخلاق صاحب سے کیا۔ ‘‘سنیا تُسی آخدے ہو کہ اللہ ہیک اے۔’’ اَخلاق صاحب فی البدیع جواب دینے میں تو ثانی نہ رکھتے تھے۔فوراً بولے ‘‘مَیں کدو ں آخیا کہ ہیک دا۔ٹوپیر ماں دو،دو دے۔’’ (مَیں نے کب کہا کہ ایک ہے ٹوپے پر تو دو،دو ہیں۔)قاری اخلاق صاحب یہ کہہ کر سکول کی طرف تیزی سے نکل گئے ۔فاضل شاہ بخاری دیر تک ہنستے رہے۔
رمضان المبارک کے ایام میں وہ اپنے ہم مکتبہ فکر کے علماء سے مل کر رمضان بھر میں روحانی محافل کا ایک سلسلہ شروع کرتے۔انیس رمضان المبارک کے بعد یہ سلسلہ ختم قرآن کی محافل میں تبدیل ہو جاتا۔آخری پروگرام عموماًً ٹوپہ کی مسجد میں رکھواتے۔ان محافل میں لوگ ان سے نعت اور صوفیانہ کلام خاص طور پر سنتے تھے۔رمضان المبارک کے حوالے سے کسی شاعر کے الوداعی اشعار ہیں۔
الوداع ہو الوداع ہو
ماہ رمضاں الوداع ۔۔!
الوداع ہو الوداع ہو
ماہ رمضاں الوداع
یہ اس درد سے پڑھتے کہ الوداعی جمعہ اَور ختم قرآن کی محافل میں سناٹا چھا جاتا۔آنکھیں آب دیدہ ہوتی جاتیں۔صوفیانہ کلام میں سیف الملوک ،بابابھلے شاہؒ،سلطان باہوؒکے کلام کے علاوہ یہ اشعار پڑھتے ۔
اسم اپنے دی شوق الہی
ہر دم دیویں مینوں
جاں جاں روح جسے وچ ہوے
تاں تاں تیرا اسم پکاواں
اللہ اللہ کردیاں ربّا
جان میری کڈائیں
ماں پیو راضی رہون
فضل کرے رَب سائیں
اشعار کے معاملے میں ان کااپنا ہی ذوق تھا۔زیادہ تر اَیسے اشعار شامل نصاب تھے ۔جن میں دنیا کی بے ثباتی ،عارضی پن اَور جلد چھوڑ جانے والی کیفیات اَور حالات ہیں۔شہید کفایت اللہ کافی ؔ کے یہ اشعار بھی انھیں بہت اچھے لگتے تھے۔انگریزوں نے انھیں پھانسی دے دی تھی۔اَور پھانسی سے چند دیر قبل ہی انھوں نے یہ اشعار کہے تھے۔
کوئی گل باقی رہے گانہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کادین حسن رہ جائے گا
اطلس و کم خواب کی پوشاک پہ نازاں نہ ہو
اس تن بے جان پہ خالی کفن رہ جائے گا
نا م شاہان ِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشاں پنج تن رہ جائے گا
ہم سفیرو باغ میں ہے کوئی دم کاچہچہا
بلبلیں اُڑ جائیں گی خالی چمن رہ جائے گا
جو پڑھے گاصاحب لولاک کے اُوپر درود
آگ سے محفوظ اس کاتن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافی ؔوَ لیکن حشر تک
نام حضرت کازبان پہ سخن رہ جائے گا۔
فاضل شاہ صاحب اچانک بیمار رہنے لگے۔صرف ۳۵ سال کی عمر میں وہ دُوسری دنیا کو چلے گئے۔انھیں اچانک کینسر نے آن دبوچا تھا.