Saturday, May 4
Shadow

قانتہ رابعہ کی کتاب ” سارے دوست ہیں پیارے”۔ تبصرہ نگار : تہذین طاہر

تبصرہ  نگار : تہذین طاہر
محترمہ قانتہ رابعہ عصرِ حاضر میں اردو ادب کا ایک معتبر نام ہیں۔ وہ ایک بلند پایہ افسانہ نگار اور کہانی کار ہیں۔ قانتہ رابعہ اب تک بچوں اور بڑوں کے لیے بہت سے کتب لکھ چکی ہیں۔ آپ کی ادبی سرگرمیوں کے پیش نظر اب تک آپ کو کئی ملکی اور غیر ملکی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔
زیر نظر کتاب”سارے دوست ہیں پیارے“ مصنفہ کی جانب سے بچوں اور بڑوں کے لیے لکھی جانی والی ننھی مُنی کہانیوں پرمشتمل کتاب ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ کتاب کا سائز اتنا چھوٹا ہے کہ کوئی بھی بچہ با آسانی اسے اٹھا کر کہیں بھی لے جا سکتا ہے۔پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا اور اس محبت سے کتاب کو شائع کیا کہ کوئی بھی بچہ  یا قاری نہ چاہتے ہوئی بھی خود کو اس کتاب کی طرف متوجہ پاتا ہے۔پریس فار پیس فاؤنڈیشن ” قارئین  کو کتاب سے محبت کیسے کروائی جا سکتی ہے“ سے بخوبی واقف ہے۔ اس ادارے کے جانب سے اب تک کئی کتب میری نظر سے گزر چکی ہیں اور کئی کتب پر میں تبصرہ بھی کر چکی ہوں ۔ ہر کتاب کا معیار پہلے سے زیادہ اچھااور بہترین ہوتا ہے ۔ زیر نظر کتاب کو جس محبت اور لگن سے شائع کیا گیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آرٹ پیپر پر تصاویر کے ساتھ شائع ہونے والی کتاب بہت دلکش ہے۔
مصنفہ قانتہ آپا کہتی ہیں  “جو مزہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی ننھی منی کتابیں پڑھنے میں آتا ہے وہ اور کسی میں نہیں آتا۔ اور یہ کہ ڈاکٹر ز آپ کو موبائل، اور کمپیوٹر سے تو منع کر سکتے ہیں لیکن دنیا کا کوئی ڈاکٹر بھی کسی بچے کو کتاب سے منع نہیں کر سکتا۔ “آپا نے کتاب کا انتساب ان عظیم والدین اور ادیبوں کے نام کیا ہے” جو ایک بچے کو مکمل شخصیت سمجھ کر اپنا وقت، توانائی، علمی اور عملی سرمایہ بچوں کی ادب دوستی پر صرف کرتے ہیں“ ۔کتاب میں مصنفہ نے جن کہانیوں کو قلم بند کیا ان میں”کیوں؟“،” مصعب کی داڑھ اور منہ کی چکی“، ”ہیلی کاپٹر“،”سارے دوست ہیں پیارے“،” مشینی انڈہ“شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں بچوں  میں   جامع مطالعہ ، تخلیقی صلاحیت کے فروغ اور  علمی یاداشت کے جانچنے کے لیے سرگرمیاں شامل کی گئی ہیں۔ جس میں موجود سوالوں کے جواب دینے پربچوں کو انعامات  کی پیش کش کی گئی ہے ۔کتاب میں موجود کہانیاں سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ چہروں پر ہنسی بکھیرنے  کا کام بھی کر رہی ہیں۔ کہانی پڑھنے کے بعد اتنا لطف آتا ہے کہ دوبارہ کسی اور کو بھی پڑھ کے سنانے کا دل کرتا ہے۔ الفاظ کا چناؤ اتنا سادہ ہے کہ بچے آسانی سے پڑھ بھی سکتے ہیں اور سمجھ بھی سکتے ہیں۔ کتاب کے شروع میں  شاعر محمد صدیق شاذ نے بچوں کے ساتھ مل کردعامانگتے ہوئے کہا کہ ”آؤ اللہ کے گھر جائیں…. اُس کو اپنا درد سنائیں“۔
پریس فار پیس فاؤنڈیشن لندن(برطانیہ )سے شائع ہونے   والی اس کتاب کی قیمت صرف دو سو ننانوے روپے ہے۔ خوبصورتی، محبت، اور لگن سے ترتیب دی جانے والی یہ کتاب بچوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ہر بچے کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے  ادارے سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

info@pressforpeace.org.uk

https://pressforpeace.org.uk

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact