سنعیہ مرزا
اداسی ٹھہر جائے گی
کہانی بن نہ پائے گی
ادھوری رات کا دکھ
اور پورے چاند کی حکایت
دہکتے تارے اور سورج سے
سنائی جب نہ جائے گی
گماں کی اوٹ سے چاہت
وہم بنتی ہی جائے گی
میسر ہوں گے سب لمحے
مگر تاثیر جائے گی
اسی لمحے اے روحِ من
اندھیرا روشنی ہو گا
تیری آنکھیں چمک ہوں گی
اے روح من
تیرا لہجہ
تیری محفل
تیرے غم
تیرے نوحے ہی
زخم ہوں گے
کرم ہوں گے
ستم ہوں گے
الم ہوں گے
میسر ہوں نہ ہوں لیکن
سراسر وہ بہم نہ ہوں
مگر کم ہے کیا یہ بھی
بہم وہ ہاتھ تو ہونگے