تحریر : ساجدہ بتول*
کھٹاک کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ زیرو کے بلب کی روشنی میں انہوں نے ایک عجیب منظر دیکھا ۔ ان کی ضروری کاغذات والی الماری کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا اور دوسرا خود بخود کھل رہا تھا ۔ ایک پٹ سے ماسٹر چابی لٹک رہی تھی ۔۔۔۔ انہوں نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی اور پھر ایک دم ان کے منہ سے چیخ نکلنے لگی جو انہوں نے بمشکل روکی ۔ کیونکہ دو چمکتی آنکھیں ان کو دیکھ رہی تھیں ۔ یعنی وہ صرف آنکھیں تھیں ۔ وہاں کوئی ذی روح نہیں تھا ۔ اس کے بعد کا منظر عجیب تر تھا ۔ الماری میں سے ایک فائل خود بخود نکلتی نظر آئی تھی اور پھر وہ باہر نکل کر ہوا میں معلق ہو گئی ۔ ان کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی ۔ ”بھبھ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھوت “
اگلا منظر انتہائی حیرت انگیز تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”اس بات کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے ۔ “ انہوں نے کہا
”مگر مجھے تو آپ بتا چکے ہیں ۔ “ رازی مسکرایا ۔
”ارے! تم تو میرے نائب ہو ناں!“
”اچھا تو اب آگے کا کیا ارادہ ہے ؟ سب سے اہم مرحلہ تو ہم نے طے کر لیا ۔ “
”کان ادھر لاٶ ۔ “
”لیجیے لے آیا ۔ “
اور پھر جب انہوں نے اسے سرگوشیوں میں ترکیب بتائی تو وہ اچھل ہی تو پڑا ۔“
”لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کسی کی آنکھ کھل گئی تو ؟“
تو بھی کیا ہو گا ۔ اور بعد میں میں خود ساری تفصیل راجہ زمان کے گوش گزار کر دوں گا ۔“
”بہتر ہے آپ پہلے ہی بتا دیں ۔ “
”نہیں ۔۔ یہ ایک راز ہے اور فی الحال راز ہی رہے گا ۔ ہم ابھی سے کسی کو کچھ بتا دیں تو دشمن تک بھنک نہ پہنچ جائے ۔ وہ اپنا منصوبہ بدل نہ لے ۔ فائل کی چوری کے لیے کوئی اور وقت نہ مقرر کر لے ۔“
”مگر سررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ رازی کہتے کہتے رک گیا ۔
”کیا ہوا ؟“ وہ چونکے ۔
”مجھے خوف ابھی سے محسوس ہو رہا ہے ۔ اس وقت کیا کروں گا ۔ “ اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کک ۔۔۔ ۔۔ کک ۔۔۔۔۔۔ کیا سر!“ راشد کا منہ مارے حیرت کے کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
”بیٹا یہ اکیسویں صدی ہے ۔ ہر چیز ایڈوانس ہو چکی ہے ۔ “ پروفیسر نایاب درانی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
” مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مجھے کوئی دیکھ ہی نہ سکے ۔“ وہ ابھی تک حیرت کی زد پہ تھا ۔
”یہی تو ہو گا ۔۔۔۔۔۔ تم دن دیہاڑے یہاں سے نکلو گے اور شہر بھر کی رونقوں میں سے گزرتے ہوئے جاٶ گے پھر بھی کسی کو نظر نہیں آٶ گے ۔ “
”بہت عجیب ۔۔۔۔۔ آپ ۔۔۔ آپ ناں! بہت حیران کن شخصیت ہیں۔ “
”بالکل ۔۔۔ بالکل ۔“ وہ بھی اچھے موڈ میں تھے ۔ “
”لیکن اگر رات کا وقت طے کر لیا جائے و بہتر رہے گا ۔ کیونکہ میں تو نظر نہیں آٶں گا لیکن میری بے ڈرائیور گاڑی ضرور مجمع اکٹھا کر لے گی ۔“
”ہو تم ذہین ۔ میں تمہارے منہ سے یہی سننا چاہ رہا تھا ۔ “
”اچھا جی“
”ارے! مم ………. میں کچھ غلط محسوس کر رہا ہوں “
”کیوں ۔۔۔۔۔۔کیا ہوا ؟“ راشد چونکا۔
”مجھے لگتا ہے کہ باہر کوئی موجود ہے اور ہماری ساری گفتگو سن رہا ہے ۔ “ انہوں نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔
”میں ابھی دیکھتا ہوں ۔“ اتنا کہہ کے راشد بیٹھک کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا ۔ جونہی اس نے گلی میں جھانکا ، اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا ۔۔۔۔ ایک لمحے کو تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ۔ جب آنکھیں منظر سے اتفاق کرنے کے قابل ہوئیں تو وہ گھبرا گیا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔
”سس سررررر! “ وہ وہیں کھڑے کھڑے چلایا ۔
”کیا ہوا؟ “ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے پوچھا ۔
”جلدی سے یہاں آئیے!“
پروفیسر درانی اس کے قریب آئئے اور اس کی تقلید میں باہر جھانکا ۔
”میں سمجھا نہیں ۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے “انہوں نے کہا
”میں پاگل ہو جاٶں گا ۔“ راشد نے زور سے ماتھے پہ ہاتھ مارا “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے اندھیرے میں زیرو بلب کی روشنی میں ان کو چار آنکھیں چمکتی نظر آ رہی تھیں اور اس کے ساتھ ہی کھٹ پٹ کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں ۔ سب سے عجیب چیز وہ فائل تھی جو ہوا میں معلق ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار خود بخود اوپر نیچے ہو رہی تھی ۔ ساتھ ہی یوں لگ رہا تھا ، جیسے دو افراد آپس میں کشتی لڑ رہے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چلائے اور چلاتے چلے چلائے ۔
” ارے کوئی ہے! جلدی ادھر آٶ ۔ “
گھر کے دو چار افراد جاگ گئے اور دوڑے چلے آئے ۔ ان کے کمرے کی لائٹ جلائے گئی اور جو منظر سامنے آیا تھا ، اسے دیکھ کر سب دنگ رہ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کو جھٹکے پہ جھٹکے لگ رہے تھے ۔
وہ آج پروفیسر درانی کی غیر موجودگی میں ان کی تجربہ گاہ چلے آٸے تھے اور سامنے جو چیز رکھی تھی اسے دیکھ کر حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹ گئیں
یہ ایک لباس تھا ۔ وہ خود بھی ایک مایہ ناز ساٸینسدان تھے لہٰذا تھوڑی ہی دیر میں اس کا سارا سسٹم سمجھ گئے،
یہ ایک عجیب و غریب لباس تھا ۔ ۔ یہ دو حصوں پر مشتمل تھا ۔
نیچے کا حصہ فراک نما تھا جس میں سارا کا سارا انسان چھپ جاتا تھا ۔ یہ حصہ دھڑ سے شروع ہو کر پیروں تک جاتا تھا حتیٰ کہ پیر بھی اس میں کور ہو جاتے تھے ۔ اوپر کا حصہ جرسی نما تھا جس میں سر چہرہ کمر بازو اور ہاتھ تک چھپ جاتے تھے ۔ بس آنکھیں ہی ننگی رہتی تھیں ۔ اب تک کی ایجادات میں شاید یہ سائنس کی سب سے زبردست ایجاد تھی ۔ اس لباس کو پہننے کے بعد اس کے دونوں حصوں پہ لگائے گئے دو بٹنوں کو جب ذرا سا دبایا جاتا تو سارا کا سارا انسان غائب ہو جاتا تھا ۔ لباس دکھائی ہی نہ دیتا تھا ۔ کیونکہ اس لباس کی چند تاروں میں سے ایسی شعاعیں نکلتی تھیں جو انسانی جسم کی اور اس لباس کی ساخت شیشے جیسی کر دیتیں اور جسم اور لباس دکھائی ہی نہ دیتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائٹ جلنے پہ وہ سب ہکا بکا رہ گئے ۔ سامنے ایک انسان کا حرکت کرتا فقط سر تھا اور اس سے ذرا فاصلے پہ فائل ۔ فائل سے کچھ اوپر دو چمکتی آنکھیں ۔ کمرے میں سوائے راجہ زمان کے اور کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا مگر لگ یوں رہا تھا جیسے دو انسان کشتی لڑ رہے ہوں ۔ ۔۔۔ انسانی سر کو دیکھ کر وہ سب بوکھلا گئے اور کمرہ ایک دم چیخوں سے گونج اٹھا تھا ۔ اس کے فورا بعد ان سب نے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی ۔
”بھوت ۔۔۔۔۔۔ بھوت ۔۔۔۔ بھوت ۔“
وہ سب چلا رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”آخر ہوا کیا ؟“ انہوں نے پوچھا ”تم پاگل کیوں ہونے لگے!“
”سر! یہاں ایک موٹر بائیک کھڑی تھی ۔ وہ خود ہی اسٹارٹ ہوئی اور دوڑتی چلی گئی ۔“
”کیا مطلب!“ انہوں نے بھنویں اچکائین تھیں ۔
”اسے چلانے والا کوئی نہیں تھا ۔“ راشد نے وضاحت کی ۔
”کیا ؟؟“ وہ حیران رہ گئے
”جی ہاں “ راشد کی آنکھوں میں خوف دوڑ رہا تھا ۔
”ضرور تمہیں وہم ہوا ہو گا ۔“ انہوں نے سر جھٹکا
”نہیں نہیں ۔ میں نے خود دیکھا ہے ۔“
”ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کسی نے رسہ لگا کے کھینچی ہو ۔“
”اوہ اچھا لیکن کیوں“ راشد نے پوچھا
”کوئی ہماری توجہ ہمارے کام سے ہٹا رہا ہے “
”اوہو اف ۔۔۔ اب کیا کریں ۔ “
”جلد از جلد اپنا کام مکمل کریں ۔ “ انہوں نے کہا ۔
پروفیسر درانی نے اس ایجاد کو پوری طرح خفیہ رکھا تھا لیکن راشد پہ پورا اعتماد تھا لہذا انہوں نے اسے پوری تفصیل بتا دی تھی ۔ وہ حکومت سے چند راز ہتھیانا چاہتے تھے ۔ جو ان سے دشمن ملک نے مانگے تھے ان رازوں پر مشتمل فائل آج کل راجہ زمان کے پاس تھی اور وہ اس لباس کے ذریعے وہ فائل حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ ان کا منصوبہ تھا کہ راشد رات کے وقت یہی لباس پہن کر جائیے گا اور وہ فائل اڑا لے گا ۔ تالے کھولنےکا وہ ویسے ہی ماہر تھا ۔ اور وہ پہلے بھی اسی لباس میں راجہ زمان کی کوٹھی جا کر سارا ماحول نوٹ کر چکا تھا ۔ فائل راجہ زمان کے بیڈ روم میں ہی کونے میں رکھی الماری میں تھی
اب ان دونوں کو رات ہونے کا انتظار تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”دوست ہو تو تمہارے جیسا “ پروفیسر درانی نے منہ بنایا ”جو کبھی شکل ہی نہ دکھائے “
”سوری یار ۔ بس مصروفیت ایسی رہی کئی دن گھر سے نکلنا نہ ہوا “
”ایسے کون سے تیر مار لیتے ہو“
پروفیسر درانی نے کہا تو پروفیسر سعید نے ایک دم ان کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ ان کو لگا وہ طنز کر رہے ہیں
”ہاں بھئی ۔اب ہم آپ کی طرح ذہین تھوڑی ہیں ۔ “ وہ اداس سے لہجے میں بولے ”اور سناٶ کچھ نیا ایجاد کیا ؟“
”نن نہیں ۔ “ پروفیسر درانی کے اندر کا چور گھبرا گیا ۔ میں تو بس آج کل فارغ پھرتا ہوں ۔بچوں کے ساتھ وقت گزار رہا ہوں ۔ لو چائے آ گئی “
”آخری جملہ انہوں نےچہکتے ہوئے ادا کیا کیونکہ ملازم اسی وقت چائے کی ٹرالی گھسیٹتا اندر داخل ہوا تھا ۔ انہوں نے شکر کیا کہ موضوع بدل گیا
پروفیسر سعید ان کے پرانے دوست بلکہ جگری یار تھے مگر انہوں نے اس لباس کا راز ان کو بھی نہ دیا تھا اور آج تو وہ چاہتے تھے انکو جلد از جلد رخصت کر دیں ۔
آج ہی تو انہوں نے راشد کو فائل چوری کرنے کے لیے بھیجنا تھا ۔ اور پروفیسر سعید ٹپک پڑے ۔
کوئی گھنٹہ بھر کے بعد وہ رخصت ہوئے تو انہوں نے سکون کا سانس لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رازی بائیک سے اترا اور تجربہ گاہ میں داخل ہوا ۔ وہ ساری معلومات لے چکا تھا ۔ پروفیسر درانی کا آج ہی رات کو واردات کرنے کا ارادہ تھا ۔ وہ آئی جی راجہ زمان کی رہائش گاہ پر جا کر اندر کا سارا ماحول اور ناک نقشہ نوٹ کر چکا تھا ۔اب اسے رات ہونے کا انتظار تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رازی اور راشد آپس میں گتھم گتھا تھے ۔ رازی اپنے مخصوص لباس میں راشد کے آنے سے پہلے ہی وہاں موجود تھا اور اسی الماری کے قریب دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا جس میں فائل تھی ۔ جونہی الماری کھلی ، رازی نے اندازے سے ہاتھ آگے بڑھایا اور راشد کے ہاتھ کو جکڑ لیا ۔ راشد اس اچانک آفت سے بوکھلا گیا اور لگا اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کو پیچھے ہٹانے ۔۔۔۔۔ اس دوران راجہ زمان کی آنکھ کھل گئی تھی اور انہوں نے شور مچا کر گھر کے افراد کو بلا لیا تھا ۔ جب تک گھر کے افراد اندر داخل ہوئے ، رازی ایک کامیابی حاصل کر چکا تھا ۔ وہ کسی طرح راشد کے سر پر سے مخصوص لباس کا ایک حصہ اتار چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بھوت ۔۔۔۔۔ بھوت ۔۔۔۔۔۔۔ بھوت ۔“ وہ سب چلا رہے تھے
”خبردار ۔۔۔۔۔ کوٸی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرے گا ۔ “
اس آواز کو سن کر سب چونکے ۔
انسپکٹر شاہد کمرے میں داخل ہو چکے تھے ۔ ان کے پیچھے کئی کانسٹیبل تھے ۔
”اس پوری کوٹھی کو پولیس گھیرے میں لے چکی ہے ۔ یہاں ایک مجرم چھپا ہوا ہے ۔ “ وہ دوبارہ بولے ۔
پھر وہ آگے بڑھے اور اپنے اندازے کی طرف ہاتھ بڑھا کر راشد کے سر کے نچلے حصے سے لباس کھینچنے کی کوشش کرنے لگے ۔ دوسری طرف رازی بھی اسی کوشش میں تھا ۔ ڈبل کوشش تھی لہٰذا راشد کے لباس کی ہکیں کھلتی چلی گئیں ں اور اس کے بدن سے وہ لباس اترتا چلا گیا ۔ اندر سے تھری پیس فام راشد نکل کر ظاہر ہو گیا ۔
جلد ہی اسے ہتھکڑی پہنا دی گئی ۔ گھر کے سارے افراد انگشت بدنداں تھے ۔
”رازی! اب تم بھی مخصوص لباس اتار دو ۔ اب تم محفوظ ہو ۔
ذرا دیر بعد رازی کا بھی عام کپڑوں والا سراپا عیاں ہو چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”یہ خط کوئی شخص آپ کے لیے دے گیا ہے ۔ “ جیلر نے ایک کاغذ لا کر ان کے ہاتھ میں تھما دیا ۔
آج پروفیسر نایاب درانی کی زندگی کا آخری دن تھا ۔ ان کا ناٸب راشد رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور اس نے سب کچھ اگل دیا تھا ۔ اس کے تھوڑی دیر بعد انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا تھا ۔اس واقعے کو دو ماہ گزر چکے تھے ۔ ان کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔ کیس تھانے سے گزر کر عدالت سے ہوتا ہوا بالآخر تختہ دار تک آ پہنچا تھا ۔۔۔ آج ان کو پھانسی دی جانا تھی ۔ مگر ابھی تک ان کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ آخر کون تھا ان کی مخبری کرنے والا ؟
انہوں نے تہہ شدہ کاغذ کھولا
” پیارے دوست! تم حیران ہو گے کہ یہ سب میں نے کیا ۔ تم نے تو اس لباس کی ایجاد کو مجھ سے صاف چھپا لیا تھا وہ تو میں ایک دن تمہاری غیر موجودگی میں تمہاری تجربہ گاہ میں گیا تو اس لباس پہ میری نظر پڑ گئی ۔ تم شاید تھوڑی دیر کے لیے اسے کھلا چھوڑکر کہیں گئے تھے تو قسمت نے میرا ساتھ دیا اور مجھے وہاں لے گئی ۔ پھر میں نے ویسا ہی لباس ایجاد کیا تو مجھے تم پہ نظر رکھنا آسان ہو گئی اور اپنے نائب کے ذریعے میں تمہاری مخبری لیتا رہا ۔ ہاں میرا نائب رازی کئی بار دن کی روشنی میں وہ لباس پہن کر تمہاری تجربہ گاہ گیا ۔ اس طرح مجھے پتہ چلا تم دشمن ملک کے لیے راجہ زمان سے وہ فائل اڑانا چاہتے ہو ۔ جس دن تمہارا اس واردات کا ارادہ تھا میں اس دن بھی تمہارے گھر گیا اور تم نے مجھ پہ طنز مارا کہ ایسے کون سے تیر مار لیتے ہو ۔ تم دیکھ لو میں نے ایک تیر مار ہی لیا جو سیدھا تمہیں ہی لگا ہے ۔ میں نے ہی رازی کو راجہ زمان کی کوٹھی واردات کے وقت بھیجا ۔ میں ہی پولیس لے کر وہاں گیا ۔ کیونکہ تم میرے دوست نہیں ، دشمن تھے ۔ جو میرے ملک کادشمن ہے وہ میرا دشمن ہے ۔ “
فقط تمہارا دشمن
پروفیسر سعید
خط پڑھ کر پروفیسر درانی وہیں بیٹھتے چلے گئے ۔ راشد نے اس دن جس موٹر بائیک کے خود بخود چلنے کی خبر انہیں دی تھی اس کی حقیقت انہیں آج معلوم ہوئین تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رازی اپنی ہی دھن میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک کسی سے ٹکرا گیا
”دھیان سے بھئی “
”اوہ یہ تم ہو “ رازی نے کہا
”نہیں تمہاری روح “
”میری روح اتنی نیک کہاں “ رازی نے ٹھنڈا سانس بھرا
سچ مچ تمہاری روح ہی ہوں ورنہ اگر میں بر وقت پروفیسر سعید کو ساری بات نہ بتاتا وہ آ کر اس لباس کو نہ دیکھتے تو کیسے یہ سب ہوتا “
”آہ سچ کہتے ہو“ رازی بولا ” اس ملک کو تم جیسے ہی وطن دوست نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔ تم نے ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر پروفیسر سعید کو ساری صورتحال بتائی پھر ہم نے دن رات ایک کیا تو وہ لباس ایجاد ہوا اور اس کے بعد بھی تم مسلسل ہم لوگوں سے رابطے میں رہے اور پروفیسر درانی کے عزائم بتاتے رہے ۔ “
”اور تم بھی چوروں کی طرح آتے رہے خود بخود چلتی موٹر بائیک پہ ۔ اگرچہ مجھے سب معلوم تھا مگر میں نے خوفزدہ ہونے کے ڈرامے خوب کیے ۔ پھر ہم دونوں اکٹھے ہی رات کو راجہ زمان کی کوٹھی میں داخل ہوئے اور وہاں جا کر پلان کے مطابق ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔“ کہتے کہتےراشد نے رازی کے ہاتھ پہ ہاتھ مارا اور پھر دونوں ہنستے چلے گئے ۔