Friday, May 17
Shadow

یہ سب کا وطن ہے، بچا لو اسے / ماوراء زیب



: ماوراء زیب

” ارے بیٹا! یونیورسٹیز کے داخلے بند ہوجائیں گے۔ آپ کب داخلہ لو گی؟“انھوں نے اپنی ہمسائی کی بیٹی سے پوچھا۔

آج 14 اگست کی وجہ سے ان کی ہمسائی نے بریانی بنائی تھی۔ ان کی بیٹی جب بریانی دینے آئی تو وہ اس بچی سے داخلوں کی بات کرنے لگ گئیں۔

” پتہ نہیں آنٹی! میرے ابو کہتے ہیں پہلے بارھویں کا نتیجہ تو آنے دو۔“

” لیکن بیٹا داخلہ تو گیارھویں کے نتیجے کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جب تک بارھویں کا نتیجہ آئے گا تب تک تو اچھی یونیورسٹیز کے داخلے بند ہوجائیں گے۔ پھر آپ کو اگلے سیمسٹر کے داخلوں کا انتظا کرنا پڑے گا۔“

” ارے نہیں آنٹی! داخلے تو ہوجاتے ہیں۔ ابو کہہ رہے تھے پیسوں سے سب کام ہوجاتا ہے۔“

وہ اس سترہ سالہ بچی کی بات سن کر ساکت رہ گئیں۔ وہ بچی چلی گئی لیکن ان کے سامنے ماضی کو کھڑا کر گئی۔ ماضی کی بوسیدہ پوشاک اور جھکے ہوئے کندھے دیکھ کر وہ بےساختہ اسے سہارا دینے آگے بڑھیں۔ماضی کے منہ سے نکلتے جملے انھیں حال سے بےگانہ کرتے گئے۔

ان کا ڈومیسائل بننا ازحد ضروری تھا کیونکہ انھیں یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔ داخلے کی آخری تاریخ گزر جانے کے بعد ان کے پاس دوسرے سیمسٹر کا انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ان کے بابا جان نے بغیر پیسوں کا استعمال کیے سیدھے طریقے سے ڈومیسائل بنوا رکھا تھا مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھیں۔ انھوں نے جب اپنی پریشانی کا ذکر اپنے بابا جان سے کیا تو انھوں نے مسکرا کر بتایا کہ وہ  بہت عرصہ پہلے ڈومیسائل بنوا چکے ہیں چونکہ ڈومیسائل کا کام لمبا ہوتا ہے اس لیے انھوں نے تمام اسناد پہلے ہی بنوا لی تھیں۔ وہ حیران ہوگئیں۔
” لیکن بابا جان! ڈومیسائل تو دو دن میں بن جاتا ہے۔ یاد نہیں ہے اس دن وہ ماما کے کزن آئے تھے تو بتا رہے تھے کہ میں پانچ ہزار دے آیا ہوں اب بنا خواری کے دو دن بعد ڈومیسائل بن کر آجائے گا۔ آپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے کیا؟ “

” بیٹا! میرا کمایا گیا پیسہ اتنا فالتو نہیں ہے کہ میں اس سے جہنم خریدتا پھروں۔ مجھے بس یہ پتہ ہے کہ جائز طریقہ اختیار کرنے کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے اور صبر سے سب کام ہوجاتے ہیں۔“

بابا جان کی سنجیدگی نے انھیں دسویں کلاس میں رشوت کے متعلق پڑھی گئی حدیث یاد دلا دی۔

*حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ”رشوت لینے اوردینے والا دونوں ہی دوزخ میں جائیں گے“۔ (طبرانی)*

اس حدیث کے یاد آتے ہی ماضی نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور انھیں حال میں دھکیل دیا۔ ان کی آنکھوں میں آئے آنسو اس بات کی دلیل تھے کہ وہ آج یہ حدیث سمجھنے کے قابل ہوئی ہیں۔ یہ کہہ کر پیسے خرچ کردینا کہ میں نے اپنی کمائی سے اپنے لیے آسانی خریدی ہے غلط ہے۔ اگر شریعت میں حلال پیسے کی شرط ہے تو اس کے ساتھ ساتھ حلال طریقے سے خرچ کرنے کے راستے بھی بتائے گئے ہیں۔ رشوت ترقی کے دروازے بند کردیتا ہے آج اس بات کا اندازہ ملکِ عزیز کی حالت دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔

اپنے بابا جان کی وفات کے بعد بارہا ایسے مواقع آئے کہ وہ پیسے خرچ کر کے اپنا کام نکلوا سکتی تھیں لیکن انھوں نے اپنے پیسے رشوت کے طور پر کبھی استعمال نہیں کیے۔ ان کی گھٹی میں یہ بات موجود تھی کہ جس ادارے میں رشوت دے دی وہ ادارہ کبھی ترقی نہیں کرے گا۔ جب ایک ادارے میں لوگ رشوت دینا چھوڑ دیں گے اور جائز طریقے سے ہی کام کروانے کی کوشش کریں گے تو اس ادارے کے سربراہان رش اور ہجوم سے بچنے کے لیے خود اپنے ادارے کو جدیدیت سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں گے۔لیکن ہمارے لوگ رشوت دے کر جلدی جلدی کام نکلوانے کے چکر میں زیادہ پیسے ذمہ داران کو دے کر حق داروں کی تلفی کر دیتے ہیں۔رشوت کا کوئی حساب نہیں ہوتا جب ناجائز طریقے سے مال آرہا ہو تو پھر کوئی بھی ادارے کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچتا۔ غرض ایک رشوت نسلوں تک کو ترقی سے دور کردیتی ہے۔ اسی لیے رشوت کے متعلق اتنی سخت وعید آئی ہے۔ظاہر ہے یہ ایک عمل پوری قوم کو کھائی میں گرادیتا ہے۔
——————–
رات کو اپنے میاں کو یہ بات ایسے ہی کہی تو وہ کہنے لگے کہ پاکستان میں کوئی بھی جائز کام بغیر پیسوں کے جلدی نہیں ہوتا۔ نجانے وہ کیوں بپھر گئیں۔ لفظوں کا ایک بپھرا ہوا چشمہ تھا جو ان کی زبان سے جاری ہوگیا۔
” کیا مطلب ہے کہ پاکستان میں بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتا۔ کون ذمہ دار ہے اس سب کا؟ ظاہر ہے ہم سب۔ ہمارے اندر صبر نہیں ہے بس ہر کام جلدی جلدی ہوجائے۔ جلدی جلدی اور بھاگتے بھاگتے کب عمر کی نقدی ختم ہوجاتی ہے اندازہ بھی نہیں ہوتا اور ہم اپنی قبر میں ڈھیروں بوجھ لے کر اتر جاتے ہیں۔ ملک خراب نہیں ہے بلکہ ہم خراب ہیں جو جلدی جلدی کے چکروں میں سفارش اور رشوت سے کام لیتے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں کہ

*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کی لعنت برستی ہے“۔(رواہ ابن ماجہ)*

جب ہر وقت لعنت برسانے والے کام کریں گے تو خاک ہمارے ملک پر رحمت برسے گی۔ رشوت کو تو لوگ کچھ سمجھتے ہی نہیں۔“
ان کا سانس پھول گیا تھا، کمزوری زیادہ بات کرنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی تھی۔

ان کے شوہر مسکرائے اور کہنے لگے،” بیگم سنجیدہ ہی ہوگئی ہو۔ جانتا ہوں خواری اٹھا کر، ذلت سہہ کر اور صبر آزما انتظار کے بعد کام ہوجاتا ہے۔ تمھارے کہنے پر بچوں کو یہ سب کام سکھا رہا ہوں لیکن کل کو یہ بچے بڑے ہوکر ہمیں ہی سنائیں گے کہ باپ نے ہمیں غلط تربیت دے دی۔“

” نہیں سنائیں گے۔ ہم اپنے بچو‌ں کو یہ بھی سکھائیں گے کہ اس دنیا میں رہنا اتنا آسان نہیں ہے بس اللہ عزوجل پر یقین رکھ کر آنحضرت ﷺ کی سیرت کی پیروی کرو سب اچھا ہوگا۔“

” اتنا یقین ہو تو ہم ولی نہ بن جائیں۔ کم سوچا کرو ملک کے بارے میں۔ جذباتی ہی ہوجاتی ہو۔“

” کچھ بھی ہو بس بچوں کے اذہان اس بات سے پاک ہونے چاہییں کہ پیسے دے کر سب کام ہوجاتے ہیں۔ ہمارے بچوں کے دل و دماغ میں رشوت کا خیال بھی نہیں آنا چاہیے۔“

” ہم دوا کے ساتھ ساتھ دعا سے بھی کام لے رہے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں کوشش کرنا ہی ہے نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس مالکِ دو جہاں پر یقین رکھو ان شاءاللہ ہمارے بچے رشوت سے دور رہیں گے۔“
شوہر کی تسلی پر وہ بس سر ہلا کر رہ گئیں۔
———————-
ظہر کی نماز کے وقت وہ ساری خرابیوں کی کڑی ڈھونڈ رہی تھیں اور ان کے ہاتھ میں ایک ہی سرا آرہا تھا ”صبر“۔ ہم سب میں صبر کی کمی ہوگئی ہے۔انھیں یاد تھا کہ ان کی ماں کہتی تھیں کہ کبھی صبر کی دعا نہ مانگنا کہ صبر اپنے ساتھ مصیبتیں لے کر آتا ہے۔ انھیں آج احساس ہورہا تھا کہ صبر نہ مانگ کر بہت بڑی غلطی کردی۔ صبر صرف مصیبت کے وقت تو نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ہر موقع پر صبر کیا جاتا ہے۔

میٹر لگوانے کی درخواست جمع کروائی ہے تو میٹر لگنے تک کے وقت کا سکون سے انتظار کرنا صبر ہے، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بننے کے لیے فارم جمع کروایا ہے تو اب سارا عمل سکون سے پورا کرنے کے لیے صبر سے کام لینا ہے، بجلی کا بل زیادہ آگیا ہے اور اس کی تصحیح کروانی ہے تو صبر سے کام لے کر سکون سے کام کرنا ہے۔ انھیں یاد آیا جب ان کے بابا سندھ میں رہائش پذیر تھے اس وقت ہر مہینے ان کا بل دس ہزار تک آتا تھا اور بابا جان ہر مہینے درخواست دے کر دوبارہ سے میٹر ریڈنگ کرواکر بل کی تصحیح کروایا کرتے تھے۔ تقریباً ہر چھ مہینے بعد اسلام آباد میں واپڈا کے مرکزی دفتر میں سندھ میں موجود بجلی کی شکایات درج کروایا کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے تنگ آکر پوچھ ہی لیا کہ آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں؟ ان کے بابا کہنے لگے کہ میں جائز طریقے سے احتجاج کرتا ہوں، اپنی شکایات درج کرواتا ہوں اس امید پر کہ مجھے نہیں تو میری آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچے۔

بحیثیتِ قوم ہم میں صبر کی کمی آگئی ہے اور صبر کی کمی ہمیں رشوت اور سفارش کی طرف لے جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اپنے بچو‌ں کو یہ سکھائیں کہ وقت پر کام کرو، ہم کہتے ہیں آرام سے رہو پیسوں سے سب کام ہوجاتا ہے۔ ایک ب فارم بھی بنوانا ہو تو تعلق ڈھونڈتے ہیں، بچے کا سکول، کالج میں داخلہ کروانا ہو تو تعلق ڈھونڈتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری ادارے سے کوئی بھی کام ہو ہم تعلق ڈھونڈتے ہیں یا رشوت دے کر کام کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وقت پر کام کرتے نہیں اور جب کام کروانا ہو تو صبر سے کام لیتے نہیں۔ پھر جلدی جلدی کے چکروں میں جہنم خریدتے پھرتے ہیں۔ صبر کرتے نہیں، شکر سے واسطہ نہیں، دنیا کے خوف میں مبتلائے دل ہے اور کوستے فوج اور حکمرانوں کو ہیں کہ یہ سب غلط ہیں۔ اگر خرابی فردِ واحد سے شروع ہوتی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ درستگی بھی فردِ واحد سے شروع ہوتی ہے۔

وہ ایک عزم کے ساتھ اٹھیں اس سال کے آزادی کے دن میں ایک عہد خود سے کیا کہ اپنے بچوں بتانا ہے کہ صبر سے کام لینا سیکھو۔ رشوت کی طرف جانے سے بہتر ہے کہ صبر سے کام لے کر جنت کا راستہ صاف کرو۔ اس دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے، ایک نہ ایک دن ساری مشکلوں سے چھٹکارا مل جائے گا لیکن اگر رشوت دے کر جہنم خرید لی تواس سے زیادہ خسارے کا کام کوئی نہ ہوگا۔ اپنی نسلوں کو بچانا ہے تو ان کی گھٹی میں صبر کی خوراک شامل کرنا ازحد ضروری ہے۔ اور پھر مسلمان تو وہ قوم ہے جو ایک بار خود سے عہد کر لے کہ اب ابلیس کے ہتھکنڈوں سے بچنا ہے تو پھر اس سے مضبوط کوئی نہیں۔

*تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ*
*تم کوئی شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے*
=============

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact