شمع اختر انصاری حیدرآباد
جہاں دوستی ہے وہاں جھگڑے بھی لازم ہیں ۔
جھگڑے کی صرف دو وجوہات ہوتی ہیں ۔ غلطی اور غلط فہمی ۔۔
1. غلط فہمی کو بات چیت کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے ۔ مگر ضروری ہے کہ خود بھی سچ بولا جائے اور فریق کی بات کو بھی سچ مان لیاجائے ۔
2. فریق کی غلطی ہے تو دل بڑا کر کے معاف کر دیجیے ۔
3. غلطی آپ کی ہے تو اسے تسلیم کر کے  معافی مانگ کر تعلقات بحال کیجیے اور اپنی اور فریق ثانی کی زندگی کو آسان بنایئے۔
یاد رکھیے :
غلطی کرنا غلط نہیں ہے ۔ غلطی کو قبول نہ کرنا  ،  غلطی پر ڈھیٹ بن جانا غلط ہے ۔
_________
1. اخلاقیات یہ ہیں کہ تنازعہ ہونے کی صورت میں بھی جھگڑے کو صرف دو فریقین تک محدود رکھا جائے ۔
2. کسی نازک لمحے کوئی ذاتی بات بتا دی گئی ہو اس کی تـشہیر نہ کی جائے ۔
3. کسی تیسرے فرد کے بارے میں کچھ کہا سنا گیا ہو اسے بھی خود تک ہی محدود رکھا جائے۔
4. اگر انتہائی مجبوری میں کوئی بات کسی متعلقہ یاغیر متعلقہ شخص کو بتانا  پڑ ہی جائے تو اپنے نظریئے اور خیالات کے مطابق نہ بتائیں ۔
(الف ) ۔بات ، جملے ، الفاظ  کا مکمل پس منظر واضح کیجیے ۔
(ب ) جتنی بات کہی اور سنی گئی ہو اتنی ہی بیان کیجیے ۔
(ج) بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے بجائے  ہلکے پھلکے طریقے میں بیان کیجیے ۔ لیکن کوشش کیجیے  تیسرے فرد تک بات نہ پہنچے ۔
5.  جس معاملے پر اختلاف ہوا ہو صرف اسی پر بات کی  جائے ۔۔ دوسرے تیسرے اور چوتھے معاملے کو ملاکر دوسرے  کو زبردستی مجرم اور گناہ گار  ٹھہرانے کی کوشش نہ کی جائے ۔
6. لوگوں کو جھوٹی سچی باتیں لگا کر فریق کے خلاف محاذ نہ کھڑا کردیا جائے ۔ لوگوں کو اکسا اکسا کر کسی کے خلاف کھڑا کردینا انتہائی گری ہوئی حرکت ہے ۔
7. اپنے جھگڑے کو سلجھاتے وقت   اپنی ہی بات کی جائے ، تیسرے نے کیا کہا اور چوتھے نے کیا سمجھا ۔۔اس طرح کی باتیں نہ کی جائیں ۔
8.اپنے جھگڑے کا ذکر جگہہ جگہہ  نہ کیجیے ۔
9.  جو لوگ آپ کے پاس فریق ثانی کے متعلق کوئی شکایت لائیں کہ آپ کو “یہ” کہا اور ‘وہ” کہا ان کامنہ بند کیجیے کہ یہ ہم دونوں کا معاملہ ہے تیسرے کو درمیان میں جھگڑا بڑھانے کی ضرورت نہیں ۔
____
تنازعہ کو حل کرنے سے پہلے ذہن بنالیا جائے کہ اسے حل کرناہے تو وہ حل ہوجاتا ہے ۔۔ لیکن اگر یہ ذہن بنالیا جائے کہ جھگڑا بڑھانا ہے تو پھر جھگڑا بڑھتا ہی جاتا ہے ۔
جھگڑا شروع کر نے سے پہلے ” وقفہ یا ٹائم آؤٹ دینے” کی عادت اپنائیں ۔ یعنی کہیں کچھ غلط محسوس ہوا تو فورأ ردعمل نہ دیں ۔۔خواہ کتنے بھی مشتعل کیوں نہ ہوں ۔۔
مسئلے کی نزاکت کے مطابق کچھ وقفہ خاموش رہیں ۔ یہ وقفہ گھنٹوں سے دنوں اور ہفتوں کا بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کے کئی فائدے ہیں ۔

. اشتعال کی شدت میں کمی آجائے گی ۔
مسئلے کے مختلف پہلو کھل کر سامنے آجائیں گے جو فوری طور پر نظروں سے اوجھل رہے ۔

. تنازعہ وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود ٹھنڈا ہوچکا ہوگا ۔
____
ایک اہم کردار ان لوگوں کا بھی  ہے جو جھگڑے کو ہوا دیتے ہیں ۔۔ یہ لوگ نہ صرف ادھر کی بات ادھر کرکے فریقین کے دلوں میں مزید نفرت بھرتے ہیں بلکہ جھگڑے میں اپنی ذات کو بھی ملوث کر نے سے باز نہیں آتے ۔
بالفرض کوئی اتنا ہی کہہ دے کے افضل کے گھر کے سامنے ڈکیتی ہوئی ،تو افضل صاحب اس بات پر بھی جھگڑا کرسکتے ہیں کہ میرا نام کیوں لیا ؟وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوں گے کہ ان کی ذات کو مجرم نہیں ٹھہرایا جارہا اور اس حادثے کے بیان کے لیئے یہ  منطقی الفاظ ہیں ۔
اگر آپ کے دوستوں کی آپس میں  کچھ رنجش ہوجائے تو

.بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ خاموش رہیں ۔

. بولناہی پڑجائے تو دل صاف کرنے کی کوشش کریں ۔

. ہمارے پیارے دین اسلام میں اگرچہ جھوٹ بولنے پر سخت وعید فرمائی گئی ہیں لیکن  صلح کے مقصد سے جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
قرآن وسنت میں جھگڑا ختم کرنے اور صلح کروانے کی بار بار ترغیب دی گئی ہے تاکہ معاشرے میں بگاڑ کاسد باب ہوسکے ۔۔
من حیث المسلم ہمارا فرض ہے کہ کرہ ارض پر سکون اور آشتی کو پھیلائیں اور مفسدین کی جماعت میں سے نہ ہوں ۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact