Friday, May 17
Shadow

افسانہ : جھلا ۔ تحریر : ثناء ادریس

ثناء ادریس
لوگ اسے جھلا کہتے تھے ۔ نہ گھر تھا نہ گھر والے ۔ کہاں سے آیا ، کوئی نہیں جانتا تھا ۔ درویش صفت انسان تھا  ۔  جہاں جگہ ملتی وہیں سو جاتا ۔ جو کھانا ملتا کھا لیتا ۔ پر مانگتا نہ ۔ کپڑے ہمیشہ صاف پہنتا ۔ نجانے اتنے اجلے صاف کپڑے اس کے پاس کہاں سے آتے ۔ گاؤں والوں نے اس کے چہرے پر ہمیشہ طمانیت بھری مسکراہٹ دیکھی ۔ اور آنکھوں میں عجیب سی چمک ۔
گاؤں میں جب بھی جنازہ ہوتا وہ نماز کی پہلی صف میں نظر آتا ۔ پھر چپکے سے نظر بچا کر غائب ہو جاتا ۔ قبرستان تک چھپتا چھپاتا جنازے کے پیچھے چلتا اور قبرستان سے دور کھڑا تدفین کا عمل دیکھتا رہتا ۔
مرنے والے کے رشتے داروں کے  تیز چلتے ہاتھوں کی حرکت دیکھ کر دل میں خیال کرتا کہ انہیں اتنی جلدی کس بات کی ہے ۔ میت کو قبر میں اتار کر جلدی جلدی مٹی بھر دی جاتی ۔ تازہ قبر پر پھولوں کی پتیاں چھڑک کر اسے ڈھک دیا جاتا ۔ واہ رے پھول تری قسمت !!! جو زیادہ متقی ہوتا اس کی قبر پر کلمہ لکھی ہری چادر اس خیال سے ڈال دی جاتی کہ صاحب قبر اللہ کا ولی تھا ۔
ہاتھ اٹھا کر چند منٹ دعا مانگتے اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کرتے ۔ قبروں کو پیروں تلے روندتے  گھر کی جانب چل دیتے ۔ میت والے گھر  کھانے کا انتظام کرنا بھی عزت رکھنے کا ایک بہانہ تھا ۔ ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ مرنے والے کا اتنا بھی حق نہ تھا ۔ سب کے جانے کے بعد وہ دبے قدموں قبرستان میں داخل ہوتا ۔ اور تازہ پھولوں سے ڈھکی قبر تک جا پہنچتا ۔ رستے میں پڑتی قبروں کے کتبے پڑھتا جاتا ۔
مرنے والوں کے نام کے ساتھ ان کی ڈگریاں اور عہدے بھی درج ہوتے ۔ کس قدر بے بس و محتاج ہیں نہ ہڈیاں سلامت نہ گوشت۔ زندگی میں اپنی دولت اور اپنی شان و شوکت پر کس قدر اکڑ ہوگی، کاش انسان اپنی قبر کو یاد رکھے، اللہ نے قرآن میں جب ہی تو کہا ہے کہ انسان خسارے میں ہے۔ یہ سوچ کر اسے جھرجھری آ جاتی ۔
مطلوبہ قبر تک پہنچ کر سلام کرتا ۔ اس بھروسے کہ جواب ملے گا ۔ دوزانو زمین پر بیٹھ کر جیب سے چھوٹا قرآن نکالتا گھڑی میں وقت دیکھتا اور بلند آواز سے تلاوت کرنے لگتا ۔ تلاوت کرنے کا دورانیہ اتنا ہوتا کہ جتنا ایک اونٹ ذبح کر کے تقسیم کا مرحلہ مکمل ہو ۔ مقررہ وقت تک تلاوت مکمل ہو جاتی ۔ کھڑا ہو کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتا اور رب سے راز و نیاز کرتا ۔ ہر آمین کے بعد مسکرا دیتا ۔ جیسے گمان ہو کہ قبولیت کا شرف حاصل ہو گیا ۔ دعا کے بعد سلام کر کے رخصت لیتا ۔ اور قبروں سے بچتا بچاتا رات کے اندھیرے میں گم ہو جاتا ۔
سردیوں کی یخ بستہ رات میں بنا لحاف کے وہ کسی درخت کے نیچے لیٹا نظر آتا ۔ شاید اس کی حسیات کام نہیں کرتی تھیں ۔ ایسا گاؤں والوں کو لگتا ۔ کڑاکے کی ٹھنڈ میں بھی وہ گرم کپڑوں سے بے نیاز ہوتا ۔   ایسی ہی ایک صبح گاؤں والوں نے اسے مردہ حالت میں درخت کے تنے سے ٹیک لگائے پایا ۔ لاوارث میت کی تدفین سب نے مل جل کر دی ۔ قبر کی جگہ بھی اونچائی پر ملی ۔ جہاں سے قبر دور سے ہی نظر آ جاۓ ۔
جھلے کو دفنا کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے ۔ کہ اچانک ایک سایا قبرستان میں داخل ہوا اور اس کی قبر پر پہنچ کر تعظیماً سلام کیا ۔ دوزانو ہو کر زمین پر بیٹھا اور قرآن کی تلاوت کرنے لگا ۔ اس دن کے بعد سے جھلے کی قبر پر ، ہر رات دیا جلتا پایا گیا  ۔ یہ دیا کون جلاتا۔۔۔؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا ۔۔۔۔
(ختم شد )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact