Saturday, April 27
Shadow

عباس علی شاہ کے مقالہ پر نگاہِ عاجزانہ/ آفتاب شاہ

آفتاب شاہ سیالکوٹ

ایک علمی مقالہ بغیر تحقیق اور تنقید کے ردی کی دکان ہوتا ہے۔ اور ایسی ردی کی دکانیں ملکِ خداداد میں جابجا بکھری پڑی ہیں ۔موجودہ عہد میں جہاں پر ہر شعبہ زوال کا شکار ہے وہاں پر یونیورسٹیوں میں لکھے جانے والے مقالہ جات بھی اس علت کا شکار نظر آتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ مقالہ جات تحقیقی اور تنقیدی اوصاف سے عاری نظر آتے ہیں شعبہ اُردو کے غبی اور گپی اساتذہ کرام اپنی رقم کھری کرنا چاہتے ہیں جبکہ طلباء و طالبات ڈگری کے حصول کے لیے آسان پسندی کا شکار نظر آتے ہیں اس آسان پسندی میں اساتذہ کرام کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے جو گلی محلوں کے شعراء اور ادیبوں پر مقالہ جات لکھنے کی اجازت دے کر وقت ٹپانے کی خوبصورت روائت کو نبھاتے چلے جارہے ہیں شاگردانِ ارسطو و افلاطون چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا موضوع مل جائے جس پر زیادہ محنت درکار نہ ہو اور چند دنوں میں مقالے کی ہنڈیا تیار کر کے اساتذہ کرام کے سامنے رکھ دی جائے دلچسپ اور دردناک بات تو یہ ہے کہ نہ تو قوم کے معمار ادب کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں اور نہ ہی مستقبل کے مقالی بیمار ادب کے فروغ کے لیے لکھ رہے ہوتے ہیں ایسے میں جب مہرباں پیسہ اور طالبِ ڈگری کی خواہشات یک رخی ڈگر پر استوار ہوں تو مقالے کی ہنڈیا پوری آب وتاب سے شوں شاں کرتی ہوئی تیار ہو جاتی ہے۔ مقالے کی یہ ہنڈیا جلد بازی، تحائف، تعلق داری، سرقہ، نقل، لفظی اُتران، بے ڈھنگے اسلوب اور ڈگری کی طلب میں سامنے آتی ہے اب اُردو ادب کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ اس کاٹھ کے مقالے کو بغیر پرکھے اور جانچے ادب کی آگ پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جہاں پر بغیر غور و فکر کے استناد کی مہر بھی عطا کردی جاتی ہے اور جب یہ کاٹھ کا مقالہ ادیبوں اور نقادوں کے چوکِ قلمِ آزاراں میں پہنچتا ہے تو بیچ چوراہے اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے کہ مصنف کے ساتھ ساتھ ماہرینِ تعلیم کو بھی لفظ آلود کر دیتا ہے۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکالنا بھی غلط ہوگا کہ تمام اساتذہ کرام ایک جیسے ہیں یا پھر تمام طلباء و طالبات ایک ہی سوچ کو بروئے کار لاتے ہیں ۔ کیونکہ اکثریت اسی طریقہ پر چلنے کو مقالے کی عزت قرار دیتی ہے اس لیے یہ بات ان ہی لوگوں پر منطبق ہوگی۔ محنتی اور اچھے اساتذہ کرام آج بھی بہترین کام کرواتے ہیں ۔ لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ ایک اچھے مقالے کو لکھنے کے لیے کون سے اجزاء لازم ہیں اس تناظر میں بغیر شک و شبہ کے اگر بہترین نگران اور استاد میسر آجائے تو طالبِ علم کا بوجھ آدھا رہ جاتا ہے اس کے بعد ایک اچھے مقالے کے لیے سب سے اہم چیز موضوع کا انتخاب ہوتا ہے کیونکہ موضوع ہی لکھنے والے کو تحقیق کی راہوں کا مسافر بناتی ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تحقیق مقالے کے لیے اس آکسیجن کا کام کرتی ہے جس سے اس کی روح کا تعلق ادب کی دنیا سے جڑا رہتا ہے۔ اس سے اگلہ مرحلہ مقالے کا تنقید کی کسوٹی پر پورا اترنا ہے ایک اچھے مقالے کو تنقید کا ہنر ہی بہتری کی جانب لے کر جاسکتا ہے کیونکہ توصیفی اور تعریفی مقالہ جات کبھی بھی اُردو ادب کے دامن پر اپنے انمٹ نقوش ثبت نہیں کرسکتے اس لیے مقالہ نگار کے لیے لازم ہے کہ وہ تنقیدی اوصاف کو تحریر کا زیور بنا کر رکھے ۔تبھی وہ خوبیوں اور خامیوں کا محاکمه کرسکے گا۔ایک اچھے مقالے کے لیے حوالہ جات کی تلاش اور ان کا استعمال بھی مقالے کو چار چاند لگا دیتا ہے اسی طرح  اگر مقالے کا اسلوب عمدہ، جاندار ، تسلسل بیاں اور ادبی چاشنی کا رنگ رکھتا ہو تو مقالہ اپنی مثال آپ دکھنے لگتا ہے۔ حقیقت میں ایک اچھا مقالہ سوالات اٹھاتا ہے اور ان کو جوابات کے لیے ناقدین کو مدعو کرتا ہے۔ 

ایسا ہی ایک مقالہ پاکستان میں اردو حمدیہ قصیدہ نگاری کے نام سے لکھا گیا ہے۔ ایم فل اردو کا یہ مقالہ عباس علی شاہ نے تحریر کیا ہے یقینی طور پر اس کا موضوع نہ صرف بہترین ہے بلکہ اپنی وسعت کے اعتبار سے اس موضوع کو پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی لکھا جاسکتا ہے۔ اتنے عمدہ موضوع کا چناؤ اس بات کی دلیل ہے کہ مقالہ نگار اور نگرانِ مقالہ نے تحقیق کو پیشِ نظر رکھ کر اس کو منتخب کیا ہے۔ قصیدے کا میدان بہت وسیع ہے اور اردو ادب میں سودا اور ذوق کو تو اس میدانِ خارِ زار کا شہسوار مانا جاتا ہے بعد کے ادوار میں قصیدہ گوئی کا اگرچہ رجحان کم رہا لیکن شعراء نے اس میدان کو خالی نہیں چھوڑا ۔ عباس علی شاہ کا منفرد موضوع ہی اس مقالے کی اہمیت کو سامنے لے آتا ہے۔ 

عباس علی شاہ نے مقالے کے لیے تحقیق کا جو طریق اختیار کیا ہے وہ عمدہ ہے ان کی تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کتنی کتابوں کی عرق ریزی کی اور تب جاکر حوالہ جات کو تلاش کیا ہے لیکن اس مقالے میں حوالہ جات کی بھرمار مقالے کی اصل تحریر کو دھندلا دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عباس علی شاہ نے ان حوالہ جات کو تلاش کرنے میں دن اور رات کے فرق کو ختم کردیا ہوگا اور اس پر ان کو بے پناہ داد بھی دی جانی چاہیے لیکن اگر ہر صفحہ تین یا چار حوالوں سے بھرا ہوگا تو مصنف کی رائے کہیں گم ہوجائے گی۔اصل میں مقالے کی ادبی اور علمی صلاحیت کا توازن ہی اسے انفرادیت بخشتا ہے۔

لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحقیق اور جستجو کا اس سے بہترین انداز بہت کم دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ مقالہ مستقبل میں قصیدہ کے حوالے سے ایک اہم دستاویز کی شکل اختیار کرسکتا ہے کیونکہ پہلے باب سے اختتام تک معلومات اور علم کا دریا بہتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ بعض مقامات پر علمی کاوش ادبی انداز پر غالب آجاتی ہے اور کچھ جگہوں پر گمان گزرتا ہے کہ ادبی رچاؤ نے علمی رنگ کو خود پر اوڑھ لیا ہے۔ اس مقالے کا تحقیقی معیار نہ صرف پڑھنے والے کو متاثر کرتا ہے بلکہ مستقبل میں لکھنے والوں کو اپنی طرف مائل کرتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس مقالے کا پہلا باب ہی قاری کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن یہ بات یہی تک محدود نہیں رہتی ہے عباس علی شاہ نے باقی ابواب میں بھی تحقیق کا یہی انداز اختیار کیا ہے۔ لفظی مطالب سے قصیدے کی اقسام اور اقسام سے اساسی محرکات تک کسی بھی موضوع کو ادھورا نہیں چھوڑا۔ اسی طرح قرانی آیات کے حوالے بھی فاضل مصنف کی محنت کا وہ ثبوت ہے جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ پہلے باب میں 54 حوالے ہیں جبکہ دوسرے باب میں 60 سے زائد حوالے ہیں اسی طرح باقی ابواب بھی عباس علی شاہ کی تحقیقاتی طبیعت کے ترجمان ہیں ۔ حقیقت میں اس تحقیقی مقالے کو دیکھنے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ اُردو ادب کی گود ابھی مکمل بانجھ پن کا شکار نہیں ہوئی ابھی ایسے افراد موجود ہیں جو اُردو ادب کے ماتھے کا جھومر برقرار رکھنے کے لیے تگ ودو کر رہے ہیں ۔ عباس علی شاہ تاریخ کے گھوڑے پر بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتے ہوئے ہر اس بات کا ذکر کرتے ہیں جو کسی نہ کسی انداز سے قصیدہ گوئی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ابتدائے قصیدہ سے موجودہ عہد تک قصیدے کی روایات کو شعراء کے ناموں کے ساتھ بیان کرتے چلے جاتے ہیں ۔ عباس علی شاہ کی تحقیق نہ صرف قصیدہ گوئی کو معتبر کرتی ہے بلکہ ان کی اپنی علمی صلاحیتوں کو بھی آشکار کرتی ہے۔ یہی علمی رنگ پورے مقالے کی فضا پر چھایا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا اسلوب قاری کو مقالے کی علمی اور ادبی فضاؤں میں لے جاتا ہے جہاں وہ خود کو معنوی دنیا کا باسی خیال کرتا ہے ان کا اسلوب جہانِ نکتہ خیزی سے موضوعاتی پھول چن کر تحریر کو کئی جہتیں عطا کرتا ہے۔ عباس علی کا اسلوب جہاں عام فہم اور سادہ گوئی سے آشنا ہے وہاں پر ان کے اسلوب میں ارتقاء کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ تحریری ارتقاء لفاظی کی خوشبو سے مہکا ہوا محسوس ہوتا ہے اگر کسی جگہ پر تحریر بوجھل ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ مقالے کی علمی نوعیت کا ہونا ہے کیونکہ علمی اصلاحات بعض اوقات تحریر میں خشکی اور کھردراپن پیدا کر دیتی ہیں لیکن عباس علی شاہ مشکل تحریر کو بھی آسان پسندی کا لباس پہنانے پر قادر ہیں۔ مقالے میں جملوں کی ساخت اور ربط نہ صرف قاری کو متوجہ رکھتا ہے بلکہ مصنف کی تحریری صلاحیت کو نمایاں بھی کرتا ہے۔ عباس علی شاہ کا اسلوب کہیں بھی عامیانہ یا پست محسوس نہیں ہوتا کیونکہ ان کی تنقیدی صلاحیت اس اسلوب کو اور نمایاں کردیتی ہے ایک اچھا مقالہ کیوں کہ تنقیدی ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے اس لیے عباس علی شاہ نے اس وصف کو بہت منفرد انداز میں برتا ہے۔ شعراء کے اشعار پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے ان کی خوبیوں اور خامیوں کا اس طرح محاکمه کیا ہے کہ ان کے کام کو بطورِ حوالہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عمومی طور پر مولانا ظفر خان کی قصیدہ نگاری سے چشم پوشی کی جاتی ہے لیکن عباس علی شاہ نے ان پر تنقیدی جائزہ پیش کر کے ایک نئی طرح ڈالی ہے اسی طرح پاکستان بننے کے بعد قصیدہ نگاروں کا صرف تعارف نہیں دیا گیا بلکہ ان کے قصیدوں کی پرکھ ایک ماہر سرجن کی طرح کی گئی ہے۔ یہ پرکھ وہی شخص کرسکتا ہے جو خود قصیدہ گوئی سے شغف رکھتا ہو جو یہ جانتا ہو کہ ایک اچھے قصیدے میں کون سی خوبیاں موجود ہیں اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عباس علی شاہ نہ صرف قصیدہ گوئی کو سمجھتے ہیں بلکہ ان کا تنقیدی شعور دوسرے قصیدہ نگاروں کی صرف خوبیوں کو نمایاں نہیں کرتا بلکہ خامیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عباس علی شاہ کے مقالے میں وہ تنقیدی توازن موجود ہے جو کسی بھی بہترین مقالے کی جان سمجھا جاتا ہے ۔ اس طرح کے ادبی اور علمی مقالات کو کتابی شکل دینے کے لیے ایچ ای سی یا ادبی اداروں کا عملی میدان میں آنا وقت کی ضرورت ہے ایچ ای سی یا پھر اکادمی ادبیات جیسے ادبی اداروں کو تمام یونیورسٹیوں سے رابطہ کر کے بہترین مقالہ جات کو چھپوانے اور کتابی شکل میں لانے کا انتظام بھی کرنا چاہئے کیونکہ اگر عباس علی شاہ کی اس کاوش کو نظر انداز کیا گیا تو مستقبل میں اچھا ادب تخلیق ہونے کی آرزو دم توڑ جائے گی۔ اگر غیر جانبداری سے عباس علی شاہ کے مقالے پر نگاہ ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ مقالہ لکھنے والا ادب نواز اور سر سے پاؤں تک اُردو ادب کی خدمت سے سرشار ہے عباس علی شاہ کی یہ کاوش اُردو ادب میں ہمیشہ ایک خاصے کی چیز سمجھی جائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact