Saturday, April 27
Shadow

دو روزہ ادبی کانفرنس کی روداد تحریر ۔حافظ ملک جمشید

تحریر ۔حافظ ملک جمشید

ہفتہ کی دن کا ایک خاص حصہ ہمیشہ اتوار کے شیڈول کو سوچنے میں گزر جاتا ہے کہ یہ اتوار اور ہفتہ کی شام کدھر گزرے گی ۔مگر اس دفعہ کا ویک اینڈ پہلے سے بک ہو چکا تھا کیونکہ دو روزہ ادبی کانفرنس کے لیے اپنے ادبی ہم سفر ابن اشرف کے ہمراہ اسلام آباد جانا تھا جس کے لیے ایک ماہ قبل ہی بکنگ کروا چکے تھے ۔سو ہفتہ کو سویرے ہی ناشتہ کر کے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گت تا کہ پروگرام کے شروع ہونے سے قبل ہی ہہنچ کر تازہ دم ہو سکیں اور ابتدا ہی سے ہروگرام کی رونقیں سمیٹ سکیں۔ خیر سفر بھی ہو چلا اور پروگرام میں بھی بخیریت پہنچ چکے ۔ظہر کی نماز کے بعد انتظامیہ کی جانب سے پرتکلف ظہرانے سے مہمان نوازی کا آغاز ہوا اور اس کے بعد پروگرام اپنی ابتدائی کاروائی کی جانب چلنے کے لیے محو سفر ہوا۔ حسب ترتیب تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبولؐ کے بعد پراوگرام کا باقائدہ آغاز ہوا ۔ابتدا میں دائرہ علم و ادب کے احوال و کانفرنس کے مقاصد بیان کیے اور ساتھ ساتھ مہمانوں کا تعارف کرواتے گے تو سفر کی ساری تھکاوٹ یکدم ختم ہو گئی ۔کیونکہ اتنی بڑی کانفرنس اور ملک کے بڑے بڑے نامور ادیبوں شعراء و پروفیسرز حضرست کے درمیان بندہ ناچیز کا بھی ہال میں موجود ہونا خوش قسمتی کی علامت ہے ۔اور خوشی کیوں نہ ہوتی کہ آل پاکستان سے منتخب ادیبوں میں راقم کا نام بھی شام تھا ۔عصر کی نماز تک کانفرنس جاری رہی اسی دوران ایک پرانے ادبی دوست و کہانی کار جناب عاقب سلیم سے ملاقات ہوئی جنہوں نے کانفرنس میں شرکت کا مزہ دوبالا کر دیا اور ساتھ ہی لاہور کے ادبی دوست عثمان صاحب سے ملاقات بھی اسی لمحہ کی یادگار کڑی تھی ۔عصر کی نماز کا وقفہ ہوا تو باہر نماز کے بعد چائے کا وقت ہوا اور کیوں نہ ہوتا کہ چائے ہی تو اصل شئے ہے سستی و تھکاوٹ کی دشمن ۔خیر چائے تو لذت و مٹھاس دیتی ہے ساتھ عاقب سلیم کی مزاح باتیں ہوں تو چائے کا مزہ مزید دوبالا ہو جاتا ہے ۔اور ساتھ ساتھ ملک کے معروف و مشہور شخصیات سے ملاقاتیں بھی ہوتی گئیں جن میں ملتان کے عظیم شاعر انعام الحق معصوم ، شیراز بخاری دائرہ علم و ادب صوبہ خیبر پختونخواہ کے صدر احمد حسین  اور مرکزی صدر دائرہ علم و ادب احمد حاطب صدیقی شامل تھے ۔ خیر عصر کے بعد دوسری نشست بھی اپنی ادبی رنگوں میں گزری اور تیسری نشست مغرب کے بعد منعقد ہوئی ۔ تین نشستیں لگاتار لگانے کے بعد ظاہری سی بات تھی سب کے پیٹ میں چوئے دوڑنے لگے سو رات کا کھانا اور منتظمین کا خلاص دونوں کا ذائقہ انتہائی لذیذ رہا ۔اور خاص کر جب کھانے کی میز پر ملاقات ہو گئی عظیم ادیب سید مکرم شاہ صاحب اور شیراز بخاری  جو مصنف ہیں کے ساتھ کہ جن کی تصانیف میں اہم تصنیف قرآن پاک کی سورتوں کے اہم نکات شامل ہیں نے کھانے کا مزہ دوبالا کر دیا۔ کھانے کے بعد عشاء کی نماز اور ہلکے سے آرام کے بعد ہوا پروگرام کا خاص حصہ شروع یعنی کہ محفل مشاعرہ کہ جو ساری تھکاوٹ کو اتار دینے والی چیز ہے ۔یہاں ایک خاص چیز کا ذکر نہ کرنا بھی ظلم ہو گا کہ اس مشاعرے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ مشاعرہ میں کلام پڑھنے کے لیے شرط یہ تھی کہ ایک کلام یا بند مظلوم فلسطین کے نام ہو جس سے پروگرام میں مزید حسن پیدا ہو گیا۔ مشاعرہ تو چلا وقت مقرر پر مگر ختم ہوتے ہوتے بارہ کے قریب ہو گے یوں مشاعرے کے اختتام میں عظیم مفکر و مصنف و شاعر مولانا خلیل الرحمن چشتی صاحب کی دعاء نے پہلے دن کی محفل کو سمیٹا اور حاظرین کو تھوڑا وقت سونے کو دیا کہ صبح دوبارہ ایک نئے جذبے کے ساتھ کانفرنس کی بقیہ نشستوں کا بھی لطف لینا تھا اور مزید بڑے بڑے نامور ادیبوں و مصنفین حضرست کے بیانات سے مستفید ہونا تھا ۔یوں سب اپنے اپنے خوابگاہوں میں چلے گے کہ جس کا احسن انتظام بھی منتظمین کی شفقت سے ہوا تھا ۔خیر رات سے سکون سے گزر گئی اور وقت مقرر پر جاگ کر صبح کی نماز ادا کی اور تلاوت سے فارغ ہو کر جب اپنے بیڈ کے ساتھ والوں سے تعاردف ہوا تو وہ شخصیت بھی کوئی عام شخصیت نہ تھی بلکہ ایک سائنسدان اور مصنف ڈاکٹر طارق صاحب  تھے جو بچوں کے لیے ادبی و اخلاقی  کہانیاں لکھتے کہ جس میں ادبی سبق کے ساتھ ساتھ سائنسی معلومات بھی ہوتی تھی ۔ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب کی ایک کہانی سانولا خرگوش بھی سنایا کہ جس کو سن کر ان کی مزید کتب پڑھنے کی دلچسپی بھی دل میں بیٹھ گئی ۔اس کے بعد ناشتہ سے نئی صبح کا آغاز کروایا اور اسلام آباد کا مشہور ناشتہ حلوہ پوری کے ساتھ ساتھ نان چنے اور خاص پکے آلو کی ڈش تھی جس کے ساتھ ایک میٹھی بزرگ شخصیت  شیراز بخاری کی مجلس نے ناشتے کا مزہ دوبالا کر دیا ۔ نو بجے پروگرام کی پانچویں نشست اپنے جوبن پر تھی اور پھر سے عظیم شخصیات کا دیدار ان کا بیان اور ملاقات کا شرف حاصل ہوتا گیا ۔اور قیمتی قیمتی نصیحتینں ملتی گئیں  یوں ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور ظہر کی نماز کے بعد سیوور اسلام آباد کی بہترین بریانی اور شامی کباب اور بعد ازاں میٹھی ڈش نے دل و جگر کو سکون بخشا اور شیراز بخاری و انعام الحق محصوم کو ذکر نہ کرنا ظلم ہو گا کہ جو ہر کھانے کی میز پر راقم اور ابن اشرف کے ہمراء تھے اور کھانے کے ساتھ ساتھ ادبی و علمی گفتگو سے معلومات میں اضافہ کرتے جاتے ۔کھانا اور نماز کے بعد شروع ہوا آخری اور اختتامی سیشن کہ جس میں شرکاء کو اسناد اور مہمانان کو شیلڈ سے نوازا گیا اور مرکزی صدر نے تمام احباب کا شکریہ ادا کیا اور اس عظیم تیسری سالانہ کانفرنس کو خوشیوں اور یادوں کے ساتھ اختتام کو لے گئے ۔اور راقم بھی چائے نوش فرما کر سامان سمیٹے واپس اپنے شہر ایبٹ آباد کی تیاری میں لگ گئے ۔قیمتی معلومات اور عظیم یادوں کو ساتھ لے کر کہ نامعلوم کب دوبارہ ان سب سے ملاقاتیں ہوں اور یہ معلوماتی و ادبی میلہ کب سجے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact