Wednesday, May 1
Shadow

افسانہ : قصوروار کون ؟ تحریر : ثناء ادریس

تحریر : ثناء ادریس
“گاڑی روکو ..! گاڑی روکو ..! “اسکول سے واپسی پر دس سالہ امجد نے ڈرائیور کو اتنی زور سے کہا کہ اس نے گھبرا کر ایک دم بریک مار دی ۔

گاڑی کے پیچھے آتی موٹر سائیکل اس افتاد سے بے خبر تھی ۔ اچانک لگتی بریک کی وجہ سے موٹر سائیکل گاڑی سے ٹکرا گئی ۔ جس سے گاڑی کے پچھلے حصے کو نقصان پہنچا ۔ اور موٹر سائیکل سوار خود زمین پر جا گرا ۔ ڈرائیور نے سائیڈ کے شیشے سے دیکھا اور تیزی سے اترا ۔ موٹر سائیکل والے کو گریبان سے پکڑا اور بنا اس کی بات سنے کئی تھپڑ رسید کر دئے۔

“تمہیں نظر نہیں آتا ۔ کتنا بڑا نقصان کر دیا ۔” ڈرائیور چلا رہا تھا ۔

“بھائی غلطی آپ کی ہے ۔ آپ آگے تھے اور اچانک بریک بنا انڈیکیٹر دئے آپ نے ماری ۔” موٹر سائیکل والا خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا ۔

آہستہ آہستہ لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے ۔ ایک بھیڑ جمع تھی ۔ کوئی موٹر سائیکل سوار کی طرف داری کر رہا تھا تو کوئی گاڑی والے کی ۔ ان سب سے بے نیاز گاڑی میں بیٹھا امجد اپنے آئی پیڈ پر گیم کھیلنے میں مصروف تھا ۔ بہت مشکل سے لوگوں نے معاملہ فہمی کروا کو دونوں کو چلتا کیا ۔

بھیڑ چھٹی تو ایک مولانا صاحب جنہوں نے معاملہ فہمی کروائی تھی پھل فروش کی ریڑھی کی طرف بڑھ گئے۔ مزے دار ، رسیلے آموں سے بھری ریڑھی ۔ ابھی بینک سے پیسے نکلوا کر لائے تھے ۔ سوچا گھر والوں نے نئے موسم کا پھل نہیں کھایا ۔ بسم اللّٰہ کی جائے ۔ بھاؤ تاؤ کر کے دو کلو آم خرید لئے ۔ پیسے ادا کرنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو گویا جھٹکا لگا ۔ ایک کے بعد دوسری جیب دیکھی ۔ لیکن یہ کیا….!  ان کا بٹوہ تو جیبوں میں تھا ہی نہیں۔۔ دونوں جیبوں کو بلیڈ سے کاٹا گیا تھا ۔

“کیا ہوا صاحب . . . ! ” پھل فروش نے ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑتے دیکھ کر کہا ۔

“وہ . . .! ” مولانا صاحب نے کٹی ہوئی جیبیں ان کے سامنے کر دیں ۔

پھل فروش سمجھ گیا کہ بھیڑ میں کوئی جیب کترا ان کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر گیا ۔

” ارے مولانا صاحب. . . ! پیسوں کی فکر کیوں کرتے ہیں ۔ آتے رہیں گے ۔ آپ یہ آم لے جائیں ۔”

“نہیں . . .! میں ایسے نہیں لے سکتا ۔ میں دوبارہ آتا ہوں ۔ معذرت آپ کو بھی پریشانی ہوئی ۔ ” یہ کہہ کر مولانا صاحب شرمندہ سے اپنے گھر کی طرف چل دئے ۔

                                    ————-

آج اس کی نوکری کا پہلا دن تھا ۔ ابا نے بہت محبت سے نیا موبائل فون خرید کر دیا تھا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں وہ رابطہ کر سکے ۔ اور نئے آفس میں اس کی شان بھی بڑھے ۔ پیسوں کا کیا تھا ۔ پھر آ جاتے ۔ بیٹے کی عزت سے بڑھ کر تو نہیں نا ۔ نئی نئی نوکری لگی ہے ، نیا آفس ، نئے لوگ ۔ پہلے دن ہی اچھا تاثر پڑے گا سب پر  ۔ آفس پہنچ کر سب سے پہلے اسے ابا کو اطلاع دینا تھی جو بے صبری سے اس کا انتظار کر رہے تھے کہ بیٹا افسر کی کرسی پر بیٹھ کر تصویر بنا کر بھیجے گا ۔ پھر وہ محلے میں سب کو دکھائیں گے ۔۔ خوشی سے سر شار پینٹ کی جیب سے موبائل نکالنا چاہا ۔۔

“موبائل کہاں گیا میرا ؟ ”  ایک دم کرسی سے کھڑا ہوا ۔

 اسے یاد آیا کہ جب وہ حادثے کی جگہ سے گزرا تھا تو وہاں بہت بھیڑ تھی ۔ سر تھام کر وہیں کرسی پر گر گیا ۔ ابا اس کے فون کا انتظار کرتے رہے ۔  آج آفس کا پہلا دن اسے کبھی  نہیں بھولے گا۔ 

                                         ————–

آدھی دوائیں اور انجیکشن تو موٹر سائیکل گرنے کی وجہ سے وہیں خراب ہو گئے تھے ۔ جس فارمیسی سے وہ لینے آیا تھا وہ اسپتال سے کئی کلو میٹر دور تھی ۔ دوبارہ واپس جائے گا تو ایک گھنٹہ مزید لگے گا ۔ ادھر بیٹی کے آپریشن کا وقت نکلا جا رہا تھا ۔ سرکاری اسپتال میں مقررہ وقت گزر جائے تو دوبارہ وقت ملنے میں مہنیوں لگ جاتے ہیں ۔ اب کیا کرے ۔۔۔

جیب میں پیسے دیکھے تو دواؤں کی قیمت سے کم تھے ۔ دل چاہا زور زور سے روئے ۔ شکوہ کرے اللہ سے ۔ مگر لب سے نکلا ۔۔۔

“اللہ . . . !جیسے تیری رضا ۔ تو ہی مسبب الاسباب ہے ۔ ” اسپتال واپسی پر راستے میں سگنل پر رکا تو قریبی بلڈنگ پر لگا بورڈ پڑھنے لگا ۔

“گردہ برائے فروخت . . . ! ” پل پھر کو کانپ گیا ۔ مگر گھڑی کی ہر پل سرکتی سوئیاں اور ان کی ہوتی ٹک ٹک ۔۔ دماغ پر ہتھوڑے کی ضرب معلوم ہو رہی تھیں۔ فیصلہ کرنے میں لمحہ لگا ۔

“بیٹی کے لئے تو جان بھی قربان ۔”
                                      ————-

“ہاں بھئی …! امجد بتا رہا تھا تم نے آج پھر ایکسیڈنٹ کر دیا ۔ ” منیب صاحب ڈرائیور کی کلاس لے رہے تھے ۔

” سر وہ امجد بابا نے ایک دم آواز دی تو مجھ سے بریک لگ گئے ۔ ” ڈرائیور نے صفائی پیش کی ۔

یہ سنتے ہی منیب صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا ۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔ کھڑے ہوئے اور  ڈرائیور کے منہ پر زور دار تمانچہ مار دیا ۔

“بکواس کرتے ہو …. اپنی غلطی میرے بیٹے کے سر ڈال رہے ہو ۔ نکل جاؤ ۔ تم نوکری سے برخاست ہو ۔ آئیندہ یہاں نظر نہیں آنا” غصہ سے پھنکارتے منیب صاحب گارڈز کو آواز دینے لگے ۔

ڈرائیور اپنی تذلیل برداشت نہ کر سکا ۔ گاڑی کی چابی واپس کر کے بنگلے سے باہر آ گیا ۔ کتنی ہی دیر سڑک پر کھڑا لمبی لمبی سانسیں لینے لگا ۔ مگر ذلت کا احساس کسی صورت کم ہونے کو نہ تھا ۔ اس کی غلطی ہی کیا تھا ؟
 ہاں …! اسی کی تو غلطی تھی ۔

مگر کیا …؟

“یہی کہ وہ ایک غریب آدمی ہے ۔ “

                                   ————
ان مختلف کہانیوں کے کردار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ایک معمولی حادثہ کتنی زندگیوں پر اثر انداز ہوا ۔ کرنے مسائل کو جنم دیا ۔  لیکن قصور وار کون ؟؟؟

آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact