علی فیصل
جو ہو چکا ہے کچھ بوڑھا۔
جھک گیا ہے،تھوڑا سا ہے وہ خمیدہ۔
نوخیز پودے اسے ہٹانا چاہتے تھے ۔
اپنی جگہ وسیع تر بنانا چاہتے تھے ۔
شجر ناتواں کو جڑوں سے ہٹا کر۔
اپنے وجود کو فورا بڑھانا چاہتے تھے۔
بوڑھا درخت انہیں سیراب کرنا چاہتا تھا۔
ان کے ننھے وجود کا سہارا بننا چاہتا تھا۔
غافل پودے یہ جان پاتے ہی نہیں۔
یہ حقیقت وہ سمجھ پاتے ہی نہیں۔
شجر ناتواں کی جڑیں ان کا سہارا تھیں۔
ان کی بقاء و زندگی کا استعارہ تھیں۔
بوڑھے درخت کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے۔
دراصل خود کو یہ کمزور کرنا چاہتے تھے۔
اس شجر کی جڑیں تو بہت گہری تھیں۔
وہ نادان خود پر ظلم کرنا چاہتے تھے۔ !!