نوید ملک

“سلیبس مکمل جو کروا سکیں ایسی نایاب رنگیں مشینیں

 کہاں  بِک رہی ہیں؟

وہ  رنگیں مشینیں

جو ذہنوں میں کھِلتے گلستاں کو بے رنگ کر دیں

جو “بستوں” میں ویرانی بھر دیں

جو خوابوں پہ ہر امتحاں کا نتیجہ بکھریں

تھکاوٹ انڈیلیں

مشینیں کہ جن سے

لبوں پر سرکتے سوالوں کو باندھیں

قلم سے ہمکتے خیالوں کو باندھیں

 سحر کی جبیں سے چھلکتے اجالوں کو باندھیں

مشینیں کہ جن سے

اڑانیں کُترنے میں آسانیاں ہوں

نگاہیں کچلنے میں آسانیاں ہوں

تجسس نگلنے میں آسانیاں ہوں

کہاں ہیں؟

 مشینیں !

جو آنکھوں کےپیڑوں یہ دولت کے آرے چلائیں

سرابوں، عذابوں کی “بٹ بٹ” سے کانوں کے جنگل جلائیں

جو گوندھیں کئی جگنوؤں کو ، کئی سورجوں کو

تمدن کے ملبے سے ڈھونڈیں خزائیں

دھڑکتے ہوئے عکس سارے بجھائیں

بصارت پہ دستک نہ کوئی اگائیں

“کلاسوں” میں قبریں سجائیں

جو یونانی مٹی سے تیار ہر  ایک پیکر کو روندیں

کھلونے بنائیں

جو سُقراطی پنچھی بہت چہچہاتے  ہیں ان کی

ہواؤں سے چہکار ساری مٹائیں

ابھرتی ہوئی جنبشوں  پر غضب آندھیوں کا گرائیں

مشینیں !

جو بس نوکری کی مشینیں بنائیں

کہاں ہیں؟

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact