تحریر: بیگم سیدہ ناجیہ شعیب احمد ، کراچی

کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں ان کی زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچیس سال گزارنے والی بی بی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہیں۔ جیسے چاہوں جیو کا نعرہ بلند کرنے والی موصوفہ نے اپنی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔ دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں کہ میں تمہارے ماں باپ کی خدمت کیوں کروں؟  تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر ایسی گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے فردِ جرم عائد کرکے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے چھٹے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔ گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار ، رنگ ڈھنگ ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر بیٹیوں کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ کنواری بیٹیاں ہیں۔ پانچوں شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستی رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ افسوس کہ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔ 2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت دیا گیا ہے کہ ”ہم تمہارے ساتھ ہیں تم جیسے چاہو جیو۔“ معاشرے کے افراد میں فرائض سے آگاہی ، روایت و ثقافت، اخلاقی اقدار، اسلامی اقدار اور civic sense کی تعلیم دینے والی بھی کوئی قابلِ ذکر تنظیم موجود نہیں ہے۔ اگر ہیں بھی تو آٹے میں نمک کے مطابق۔ یہاں تک کہ پڑھے لکھے افراد بھی ان سب چیزوں سے قطعاً ناواقف ہیں اگر واقف ہیں بھی تو اس پر عمل نہیں کرنا چاہتے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا فرد حق تلفی کرے تو برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے اور معاشرے میں انتشار کی فضا بن جاتی ہے جو ہمارے معاشرے میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے عدم برداشت یہاں تک کہ قتل بھی عام سی بات ہے۔ ننانوے فیصد شادی شدہ خواتین اپنے ایامِ دوشیزگی کے بارے میں بڑے حساس جذبات رکھتی ہیں اکثر خواتین اپنے کنوارے پن کی پرانی یادوں کو سینے سے لگائے ہوئے ٹھنڈی آہیں بھرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ آپ برملا یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج ہمارے معاشرے میں خواتین کو شادی کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ عورتیں شادی کرنا ہی نہیں چاہتیں۔ شادی شدہ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کی بھٹی سے گزرنے والی عورتوں میں سے کوئی کندن بن کر نکلتی ہے تو کوئی راکھ کی ڈھیری۔ آج میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والوں کی فہرست میں کھڑی یہی راکھ کی ڈھیریاں اپنی تلخیاں کنواری دوشیزاؤں کے حلق میں ایسے اتار رہی ہیں کہ بیچاریاں شادی کے نام سے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہتی ہیں بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔  ازدواجی زندگی کے ایسے ایسے نقصانات تلاشے جاتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ خواتین کے درمیان کیے گئے متعدد سروے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اکثریت کے مطابق کنوارے پن کی زندگی گزارنے کے فوائد و ثمرات، شادی شدہ عورت کی پھوٹی قسمت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کیا شادی ایک قید ہے؟ کیا آج کی عورت کے لیے شادی قید و بند کے مترادف ہے۔ اکثر کہیں گی ہاں قید بامشقت۔ غالباً حقیقت یہ ہے کہ بہت سی لڑکیوں کو چھوٹی عمر میں لاشعوری طور پر رشتۂ ازدواج میں باندھ دیا جاتا ہے، ان کے نازک کندھوں پر جو ابھی پوری طرح ذمہ داری نہیں اٹھا پاتے پھر ایسے ایسے مسائل جنم لیتے ہیں جو اس بالی عمر کے لیے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ ایسے میں شوہرِ نامدار اخلاقی، ذہنی طور پر بیوی سے زیادہ مضبوط اور مستحکم نکلتا ہے وہ اس کے بچپنے اور لاابالی پن کو دبا دیتا ہے جو یقیناً حاکمیت پسند بیوی کے مزاج شریف پر سخت گراں گزرتا ہے اور پھر کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔  محض اپنی انا کی تسکین کے لیے صنف نازک ، صنفِ کرخت کے سامنے نہیں جھکتی۔ اپنی غلطی تسلیم کرنا ملکہ عالیہ کی شان میں گستاخی کرنے کے برابر ہے سو جو ڈالی جھکنا نہیں جانتی وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ میں اپنی مرضی کی مالکہ ہوں۔ یہ زعم عورتوں کو ایسی دلدل میں دھنسا دیتا ہے جہاں سے وہ لاکھ ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود نہیں نکل سکتیں۔

اپنی مرضی کے مطابق جینے کی آرزو ، جو چاہوں کروں، جیسا چاہوں لباس پہنوں ، جس سے چاہوں ملوں، جیسے چاہوں جیوں۔ شادی کیوں کروں؟ مجھے کنورا رہنے دو۔ کوئی میری روح پر کوڑا لیے کھڑا نہیں ہوگا۔ چوبیس گھنٹے میرے اعصاب پر سوار نہیں ہوگا ، کوئی وضاحت نہیں دینی پڑے گی ۔ دیر سے کیوں اٹھی؟ ناشتہ کیوں نہیں بنایا؟ میرے موزے کہاں ہیں؟ کپڑے کیوں نہیں دھلے؟ کیوں، کیوں، کیوں کی اس خوفناک گردان سے بچنے کا واحد حل شادی شدہ زندگی سے مکمل پرہیز۔ پھر شادی شدہ خواتین کو اپنے سسرالیوں ، شوہر کے عزیز و اقارب سے خوش اخلاقی سے ملنا بھی پڑتا ہے تو جو بیویاں اپنے شوہر صاحب کو ہی کسی گنتی میں نہیں گردانتی ان کے رشتے داروں کے ساتھ بات چیت ، میل جول تو انہیں سخت بوجھ معلوم ہوتا ہے۔ لڑکیوں کے لیے لفظ ساس ایک عفریت بن کر رہ گیا ہے۔ نند کو گند گردانتی ہیں۔ شومئی قسمت سے اگر کوئی شادی کرنے کی حامی بھر بھی لے تو پہلا مطالبہ یہی کیا جاتا ہے کہ لڑکا اکیلا ہو۔ مشورہ خانم کہتی ہیں کہ ٹھیک ہے جائیے کسی یتیم خانے سے رابطہ کر لیجیے وہاں آپ کو بیسیوں ایسے لڑکے مل جائیں گے جن کا آگے پچھے کوئی نہیں ہوگا، پھر  مست زندگی جیسے چاہیں جئیں۔ مگر اس حال میں بھی انہیں چین نہیں۔ شوہر نہیں شوفر چاہیے۔ میاں نہیں غلام چاہیے۔ جو چوبیس گھنٹے ان کی جی حضوری کرے۔ ہمیں غلط بات پر روکنے ٹوکنے والا مرد مجاہد ناقابلِ قبول ہے۔

کنواریوں کے رنگ ڈھنگ دیکھیے تیس چالیس سال کی کنواری بھی ہمیشہ سجیلی سنوری نظر آئیں گی۔ یہ ہر کسی سے اس اخلاق سے ملتی ہیں کہ کوئی ان سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا۔ دیر سے شادی کرنا گویا فیشن ہی بن گیا ہے۔ عمریں نکلتی جا رہی ہیں خواتین کے نخرے، مطالبوں کی دوزخ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ مردوں میں بھی دیر سے شادی کرنا کا رحجان تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ وجہ کوئی بھی ہو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ہم کسی ایک کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے مگررر تصویر کائنات میں رنگ وجود زن ہی بھرتی ہے۔ اب یہی رنگ میں بھنگ ڈالتی پھرے تو راوی کہاں منہ چھپائے۔

اکیلی زندگی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ خواتین خود اپنا کما رہی ہیں ، کھلا خرچ کر رہی ہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ کوئی قید و بند نہیں۔

آخر یہ سب کس کا کیا دھرا ہے؟ اجی! الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، مغربی ہو یا، سرکاری نشریاتی ادارے ہوں یا غیر سرکاری، صحافتی ہوں یا ثقافتی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے معلوم ہوتے ہیں۔ کیسے ملاحظہ کیجیے کہ وہ تمام شرکیہ تصورات جو مغرب میں رائج ہیں اور ان کی دجالی تہذیب کا شاخسانہ ہیں، کس طرح ہمارے اسلامی معاشرے میں فروغ پارہے ہیں۔ ابھی بھی نہیں سمجھے مثال کے طور پر تہذیبِ مغرب کی بنیادی تین اقدار یعنی ”آزادی“، (خصوصاً آزادئ نسواں) ”مساوات“ اور ”ترقی“ کو ہی لے لیتے ہیں۔ سابقہ دو دہائیوں میں مسلم معاشروں میں بہت تیزی سے ان کا غلغلہ اٹھا ہے اور اب گلی گلی میں یہ دعوت عام ہو چکی ہے، بچہ بچہ”جیسے چاہو جیو“ کے فلسفے سے واقف ہے۔ یہ سب ذرائع ابلاغ ہی کا شاندار کارنامہ ہے۔ بھانت بھانت کی وہ نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور این جی اوز جنہیں مغرب ہمارے یہاں درآمد کرتا ہے، تاکہ بطورِ ’مشنری مبلغین مسلمانوں میں اس کا ناسور پھیلائیں انہی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ یہی نشریاتی ادارے ایسی تمام کانفرنسوں، سیمیناروں اور مذاکروں کو جن میں ”روشن خیالی“ اور ”اعتدال پسندی” کا درس دیا جاتا ہے عام مسلمانوں کے سامنے یوں خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں مسلمانو! تمہیں کڑوی کسیلی کونین کی شوگر گولیاں خوب چبا چبا کر کھلائی جا رہی ہیں اخ تھو

کہاں کی بات کہاں نکل گئی۔ یاد آیا ہم نے تو قریشی صاحب کی بیوہ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ مرحوم قریشی صاحب کی لاڈلیاں شادی کے نام سے کیوں بھاگتیں ہیں۔ سیدھی سادی سی بات ہے انہوں نے بھی شوگر کوٹڈ گولیاں وافر مقدار میں کھا لی ہیں۔ لہٰذا دانا اطباء کرام کی تشخیص کے مطابق مرض ناسور بن کر پورے جسم میں پھیل چکا ہے جس کا شافی علاج ممکن نہیں۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact