مصنفہ: مہوش اسد شیخ
تبصرہ: محمد احمد رضا انصاری
“مہرالنساء” مہوش اسد شیخ کی دوسری تصنیف ہے۔ اس کتاب میں معاشرتی کہانیاں شامل ہیں۔ یہ کتاب مجھے تحفتاً ملی تھی۔ کچھ عرصے تک تو دیگر جھمیلوں میں الجھ کر مطالعہ کرنے کا وقت ہی نہیں مل سکا۔ ویسے مجھے سرورق دیکھ کر لگا تھا کہ خواتین کے ڈائجسٹوں میں چھپنے والی رومانوی کہانیاں ہی ہوں گی مگر جب کتاب اٹھائی اور سرسری سی نظر اندرونی صفحات پہ ڈالی تو یہ مفروضہ جلد دم توڑ گیا تھا۔ مہوش اسد شیخ ایک کہنہ مشق رائیٹر ہیں۔ عام سے موضوع کو اتنی خوبصورتی سے لکھتی ہیں کہ قاری تحریر کو مکمل پڑھے بغیر نہیں چھوڑ سکتا۔
کہنے کو تو یہ ست رنگی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ مگر مجھے ہر رنگ آنکھوں کو چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ تحریروں میں حقیقت کی کڑواہٹ بہت زیادہ ہے۔کتاب میں سات تحریریں ہیں۔
“چاچو میاں” ایک دل گداز تحریر۔۔۔ پڑھتے ہوئے دل پہ نا معلوم سا بوجھ شدت سے محسوس ہوا تھا۔ انسان جب انا اور غرور کی سیڑھی پہ کھڑا ہوتا ہے تو خود کو پتا نہیں کیوں زمینی خدا سمجھ کر دوسروں کی قسمت کے فیصلے کرنے لگتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ وقت کا پہیہ حرکت میں ضرور آتا ہے۔ آج اوپر ہیں کل نیچے ہوں گے اور مکافات عمل کی چکی میں پسیں گے۔
“مہرالنساء” بہت حیرت انگیز کہانی تھی۔ اسے کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہوگیا تھا یا واقعی مہرالنساء پہ ابن سعید نام کا ایک جن عاشق تھا ۔۔۔۔ کچھ خوف میں ڈوبی ایک عجیب تحریر تھی۔
“جہاد” معاشرے میں پھیلی مکروہ برائیوں سے ایک عجیب جہاد کرنے والی خاتون کی سرگزشت ۔۔۔ انٹر نیٹ کے غلط استعمال اور فحش ویڈیوز کے عادی شوہر کی دوسری شادی کروا کر اس نے کئی بچیوں کو ایک حیوان سے محفوظ کر دیا تھا۔
“رب کی لاٹھی” رب کی لاٹھی واقعی بے آواز ہے۔ جب حرکت میں آتی ہے تو لگ پتا جاتا ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، ایک بہترین تحریر ۔۔۔
“دعاؤں کا سایہ” جمعہ جمعہ آٹھ دن کے عشق کے لیے والدین کی برسوں کی محبت پہ لات مار کر گھر سے بھاگ جانے والی بیٹی کا قصہ۔۔۔ اس کی زندگی اک عذاب بن کر رہ گئی تھی۔
“عشق جنوں”
ایک بے اولاد جوڑے کی کتھا۔ ایسا کون سا جرم سر زد ہوگیا تھا کہ ان کے گھر ایک عجیب الخلقت بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔ ایک عبرت ناک کہانی۔ پڑھتے ہوئے جھرجھری سی آگئی۔
” یا اللّہ رحم” ایک لندن پلٹ شخص کی کہانی ۔ اسے وطن کی محبت واپس کھینچ لائی تھی۔ مگر پاکستان کے بدخلق حالات و واقعات نے بہت جلد اس کا دل بھر دیا تھا۔اور وہ مایوس ہو کر اپنا فیصلہ بدلنے پہ مجبور ہوگیا ۔
مجموعی طور پر کتاب بہت اچھی رہی۔ انتساب معاشرے کے نام کیا گیا ہے۔
عارف مجید عارف، ذوالفقار علی بخاری ، صفیہ ہارون اور اسعد نقوی نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات لکھے ہیں۔
یہ کتاب اگر پڑھنا چاہتے ہیں تو مصنفہ سے براہ راست منگوا سکتے ہیں ۔