شمس رحمان

معاشرتی تبدیلی کیا ہوتی ہے؟

 معاشرتی زندگی میں  تبدیلی۔ اس کو  سماجی تبدیلی یا معاشرتی تغیر یا سماجی تغیر  بھی کہا جاتا ہے۔

  معاشرہ کیا ہوتا ہے؟

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ افراد معاشرہ بناتے ہیں۔ اور پھر کہا جاتا ہے کہ افراد  کی تبدیلی سے  معاشرہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور پھر کہا جاتا ہے کہ جیسا معاشرہ چاہتے ہو ویسے خود بن جاؤ ۔ مطلب جب سب ویسے بن جائیں گے تو ایسا معاشرہ پیدا ہو گا جو  آپ چاہتے ہو۔

 تاہم  اس خواہش کی خوبصورتی اور افادیت  سے پرے اور نیچے  پائے جانے والے حقائق  دیکھیں تو بات اتنی سادہ سی نہیں ہے۔ سادہ ہونی چاہیے تھی۔ سادہ ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔ لیکن سادہ ہے نہیں ہے۔ کیونکہ معاشرہ  ایسا سادہ نہیں ہے ۔یہ معاشرے کے بارے میں بہت ہی سادہ  سی سمجھ کا اظہار ہے۔  معاشرہ پیچیدہ ہے اس لیے اس کو  سادہ باتوں سے سمجھا نہیں جا سکتا۔  چلیے  معاشرے کی پیچیدگی کی تھوڑی سی تشریح کر لیتے ہیں۔

معاشرہ صرف افراد کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ افراد مجموعی طور پر معاشرہ بناتے ہیں۔ یہ دعویٰ صرف اس حد تک درست ہے کہ افراد  کے بغیر معاشرہ  نہ تو وجود میں آ سکتا ہے اور نہ قائم رہ سکتا ہے۔ کاش حقیقت اتنی سادہ ہی ہوتی تو سب اچھا ہو جاتا۔  لیکن  افراد کی   فقط ( صرف)  موجودگی سے معاشرہ نہیں بن جاتا ۔

معاشرے کی تشکیل افراد کے درمیان تعلقات کا تانا بانا کرتا ہے۔یعنی معاشرہ افراد کے درمیان تعلقات کے تانے بانے سے   بنتا ہے۔

تعلقات کا تانا بانا کیا ہوتا ہے؟

تعلقات کا تانا بانا کسی جگہ بسنے والے انسانوں کے درمیان    مختلف رشتوں ناطوں   پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس تانے بانے کو سمجھنے کے لیے اگر ہم  بات اپنی ذات سے شروع کریں

 اپنے ارد گرد دیکھیں

اور

 اپنی زندگی کی ابتداء پر غور کریں،  تو  ہمیں    رشتوں کا یہ تانا بانا   صاف نظر آ نے لگتا ہے۔

 ہمارے وجود میں آنے کے عمل کی ابتداء  ماں کی کوکھ  میں ماں اور باپ کے  باہمی حیاتیاتی  تعلق سے  ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد  ہمارا پہلا  ، بنیادی اور مادی  تعلق  ماں کے ساتھ  بنتا ہے۔  یہ  تعلق جبلی  ہوتا ہے اور  شروع میں  حیاتیاتی اور زندگی کی بنیادی ترین ضروریات/ حاجات، احتیاجات  پوری کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تاہم   عمر اور پرورش کے ساتھ ساتھ اور اس مناسبت اور مطابقت سے   ماں باپ، بہن بھائیوں، رشتہ داروں ، ہم جولیوں سے ہمارے معاشی،  نفسیاتی ، سماجی، معاشی ، و ثقافتی تعلقات  پیدا ہوتے اور پروان چڑھتے ہیں، اور ہم ایک معاشرتی تانے بانے اور معاشرتی  اعمال و  افعال  ( سوشل پراسسز)  کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر تصور میں اس تانے بانے کو دیکھیں تو پورا معاشرہ ہی اک پیچیدہ  تانا بانا نظر آئے گا۔     سوشیالوجی  کا علم ان تعلقات کے  معاشرتی پہلوؤں اور شکلوں کے مطالعے کا نام ہے ۔

یہ تعلقات   انسان کے وجود میں آنے سے  دنیا کے مختلف خطوں میں ، مختلف شکللوں  میں ، موجود چلے آرہے ہیں۔ تعلقات کی سادہ ترین  شکل سے  لے کر ان کے  مسلسل ارتقاء  سے ہی  معاشرے کو بنانے والے مختلف گروہ، ادارے اور اعمال (پراسیس) تاریخ کے مختلف ادوار میں  پیدا ہوئے اور  سادگی سے پیچیدگی کی طرف پروان چڑھے ہیں ۔

اب اگر دنیا   کی سطح پر  سوچیں تو معلوم علم کی روشنی میں  ہم جانتے ہیں کہ   قدیم ترین سماج میں  انسان خود کچھ پیدا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ جو کچھ قدرت کی طرف سے موجود تھا وہی کھاتا تھا۔ وہ سادہ ترین شکل تھی معاشرے کی۔  تب سے  آج مصنوعی ذہانت کے عہد  تک ارتقاء کے سفر میں  معاشرے انتہائی پیچیدہ ہو چکے ہیں۔

معاشرے اور انسان کے انفرادی  ( نفسیاتی) اور اجتماعی ( معاشرتی ) حالات و اعمال کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے قدیم زمانے سے  ہر معاشرے میں کچھ انسانوں نے  اپنی زندگیوں میں  اپنے شعور و سمجھ کے مطابق کوششیں کیں  جو اگلی نسلوں کو  منتقل ہوتی رہیں ۔ یوں وقت کی اونچی نیچی  راہوں پر  علم  کا دریا بھی بہتا رہا۔ ارتقاء کے سمندر میں گرتا رہا۔

کائنات اور اس  کے اندر ان گنت طبعیاتی، کیمیائی  قوتوں ،  انسانی جسم     اور انسانی  معاشرے  کو سمجھنے کی ان کوششوں کے دوران قدیم فلسفیوں سے لے کر موجود  سماجی علوم کے ماہرین تک   زندگی کے فلسفیانہ، روحانی اور  سماجی و نفسیاتی  پہلوؤں اور طرز عمل کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کئی ایک دعوے ، مفروضے اور نظریات پیدا ہوئے اور پروان چڑھے۔

تاریخی مادیت بھی ایک ایسا ہی  علمی نظریہ ہے۔  جس کا  بنیادی دعویٰ یہ  ہے کہ  معاشرے میں موجود اداروں کی جڑیں اس معاشرے میں  جاری پیداواری سرگرمیوں اور پیداواری تعلقات میں اتری ہوئی ہوتی ہیں۔ تمام علمی نظریات کی طرح تاریخی مادیت بھی کوئی حرف آخر اور کامل  اور ساکت و جامد نظریہ نہیں ہے ۔ یہ علمی  نظریہ جو انیسویں صدی  کے وسط میں پیدا ہوا تھا  اس  میں بھی ارتقاء ہوا ہے۔ اس کی  کمزوریوں ،  کجیوں  کو   تنقیدی بحث مباحثے اور  تحقیقی کے ذریعے بہتر بنا یا گیا اور بہتری کا یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ تاہم  اس  کو آج بھی  سماجی علوم میں انسانی سماج یعنی معاشرے کو سمجھنے کا بہترین  زریعہ  ،  بہترین عینک سمجھا جاتا ہے۔

مضامین کے اس سلسلے میں میرپوری معاشرے اور    معاشرتی تبدیلی کا مطالعہ اس ہی علم کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی گئی  ہے۔

 تاریخی مادیت کے نظریے کے مطابق:

معاشرہ    کسی علاقے میں بسنے والے افرد کے درمیان پیداواری سرگرمیوں  یعنی روزی روٹی پیدا کرنے کے لیے کیے جانے والے کاموں  کاجوں کے دوران پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے تعلقات،  رشتوں ناطوں  اور ان سے جنم لینے والے اداروں، رسم و رواج، اقدار ، سوچ  و فکرکے اندازوں  اور   طور و اطوار  وغیرہ  پر مشتمل ہوتا ہے۔

 یوں معاشرتی تبدیلی پیداوار کے ذرائع، پیداواری سرگرمیوں، پیداواری تعلقات اور ان  سے جنم لینے اور پروان چڑھنے والے اداروں،  کام کاج (اعمال)  ، اقدار و طور اطوار میں تبدیلی  کو کہا جاتا ہے۔اس تبدیلی کی  مختلف وجوہات اور شکلیں ہوتی ہیں۔

  یہ تبدیلی شعوری بھی ہوتی ہے اور قدرتی یا فطرتی یا غیر شعوری بھی۔ شعوری تبدیلی عام طور پر اس تبدیلی کو کہا جاتا ہے  جو  سماج میں بسنے والے مختلف  افراد ، طبقوں / پرتوں  یا  حلقوں کی طرف سے   شعوری طور پر ذاتی اور  معاشرتی  زندگیوں میں  تبدیلیاں لانے کے لیے کی جانے والی  شعوری کوششوں  اور جدوجہدوں کے ذریعے آتی ہے۔ جبکہ لاشعوری یا غیر شعوری تبدیلی وہ ہوتی ہے جو شعوری کوششوں کے بغیر بھی  اس  سماج کے بنیاد ی حالات   میں جاری رہتی ہے ۔

تبدیلی کے اسی عمل کو علامہ  اقبال نے اس مصرے میں سمویا تھا۔

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

تاہم یہ  مشاہدہ ابتدائی طور پر  اقبال کے اس  مصرع  سے ہزاروں سال پہلے یونانی فلسفی  ہر کلیدس  سے منسوب ہے کہ زندگی میں صرف تبدیلی ہی ایک ایسا عمل ہے جو مستقل رہتا ہے۔ باقی سب کچھ   ہر ایک لمحے  بدلتا رہتا ہے۔

 تبدیلی کی عام طور پر تین شکلیں ہوتی ہیں ۔

ارتقائی تبدیلی ۔ یعنی بتدریج  ۔  جو ہر ساعت ، ہر گھڑی ، ہر   پل اور پل  پل جاری رہتی ہے ۔ معاشرے میں انسانوں کی تمام سرگرمیاں ، قدرتی واقعات ، موسمی حالات وغیرہ  مجموعی طور پر اس کو جاری رکھتے ہیں  ۔ حکمران جتنے بھی طاقتور ہوں تبدیلی کے اس عمل کو نہیں روک سکتے۔ دنیا میں کتنے  طاقتور گزرے مگر تبدیلی کو  نہ روک سکے۔ غاروں سے ستاروں تک پہنچنے کی انسانی تاریخ   میں ایک ارتقائی عمل مسلسل جا ری رہا ہے اور آج بھی،  اس لمحے بھی جاری  و ساری ہے ۔

اصلاحی تبدیلی ۔ یعنی جب معاشرے میں  شعوری طور پر اصلاحات لائی جاتی ہیں۔ بادشاہوں کے زمانے میں یہ اصلاحات کچھ اچھے نیک اور رحم دل باشاہ لایاکرتے تھے اور چند صدیاں قبل  سے   اکثر عوامی تحریکوں  کے ذریعے لائی جاتی ہیں۔ اس میں یوں ہوتا ہے کہ جب عوام کی ایک بڑی اکثریت یا مخصوس طبقہ یا کمیونٹی  کسی موجود ادارے یا پورے نظام کی فرسودگی، نا انصافی اور عوام کی اکثریت کے مفادات کے خلاف ہونے کو جان لیتی ہے اور مل کر اس میں تبدیلی کے مسلسل  آواز بلند کرتی ہے اور حکمرانوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ اگر وہ عوام مخالف  پالیسی، قوانین اور اعمال میں تبدیلی نہ لائے تو بات انقلاب تک پہنچ سکتی ہے تو وہ اصلاحات متعارف کروا کر  احتجاج کرنے والے بڑے حلقے کو مطمین کر لیتے ہیں اور انقلاب ٹل جاتا ہے۔

 انقلابی  تبدیلی۔  یہ وہ شعور تبدیلی ہوتی ہے جس کا مقصد معاشرے  کے موجود نظام  کی جڑ بنیاد کو بدل دینا ہوتا ہے۔ اگر حکمران جائز عوامی مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے مطلوبہ اصلاحات متعارف نہ کروائیں تو اکثر انقلاب برپا ہا جاتا ہے یا کبھی خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔  انقلابی تبدیلی پرامن  سیاسی جدوجہد کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے اور پرتشدد بھی۔ اس کا دارومدار موجود  ڈھانچے میں حکمران طبقے کے رویوں پر ہوتا ہے۔ فرانس ،  روس ، چین ، کیوبا، ایران  کے انقلاب   متشدد  انقلابوں کی مثالیں ہیں۔  جب کہ 1989 میں مشرقی جرمنی  اور بعد ازاں  روس میں گلاسنوسٹ اور پریسٹرائیکا  کے بعد  سویت یونین اور مشرقی یورپ میں آنے والے انقلاب پر امن انقلابوں کی  مثالیں ہیں۔

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact