تحریر: مرحا شہباز
”ارے سرخ آنکھیں لیے ہر صبح کہاں سے آ جاتی ہو؟“
سوالات کی بوچھاڑ لیے ایک نٸ صبح فاریہ کی منتظر تھی۔ پل پل تنہا ئی میں سِسَکنا اور تخیل میں ایک ہی چہرہ بناتے رہنا، زندگی کا حقیقی مقصد فاریہ سے دور کرتا جا رہا تھا۔ وہ خلا کو تکتے بولی:
”کھونے کا درد تم کہاں جانو۔ بس وہ جانیں جن پر زوال کا یہ دل شکن دور آتا ہے۔“
”ہوش میں آٶ فاریہ کہ کھونے اور چلے جانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیوں اُس کے لیے دُکھیاری ہوٸی پڑی ہو جو خود گیا ہے۔“
سوچوں میں محو ذہن شعور کے مراحل طے کر رہا تھا سو وہ عالمِ سکوت کی باادب مسافرہ رہی۔ مگر کبھی کچھ بول بھی دیتی۔
”نۓ لباس زیب تن کیوں نہیں کرتی؟“ نرمی سے پوچھا گیا۔
”سب عزت کا پیرہن چاک کر دیتے ہیں، سو جی نہیں چاہتا۔“ کرچی کرچی وجود کے پیوند عیاں ہونے لگے۔
”ہنسا کرو تاکہ درد میں افاقہ ہو۔“ اُسے سمجھایا گیا۔
”ہنسنا درد بڑھاتا ہے۔ دل مزید مارتا ہے۔“ کرب کی انتہاتھی۔
”کتابوں میں مدفون گلاب پھینک دو۔ وہ اپنی مردگی تم میں منتقل کر رہے ہیں۔“ مقابل کو تشویش ہوٸی۔
”مگر ان سے آج بھی خوشبو آتی ہے۔“ محبت کی ماری بےبس تھی۔
”خوشبو کا دیرپا ہونا تو سراب ہے۔ محرم کے دیے کاغذ کے پھول نامحرم کے دیے لالہ و گلاب سے بہتر ہیں۔ ان کی قدر جانو جانم!“ جانے الفاظ نے اپنا کمال دکھایا یا لہجہ نے اثر مگر وہ آٸینے میں اپنی آنکھوں سے ہوتی، پورے غمزدہ چہرے کا طواف کرتی خود سے لپٹنے کے سے انداز میں آئینےپر گرتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
دراصل اس کا مخاطب اپنا ہی عکس تھا جوآئینےمیں دِکھ رہا تھا۔ پر وہ اتنا پژمردہ تھا کہ فاریہ کو اپنے ہونے کا گماں تک نہ ہوتا تھا۔ ہر بار اندر سے آتی آواز نے اس کی درست سمت میں راہنماٸی کی تھی۔ مگر یہ دل کا معاملہ تھا۔ جہاں کسی کی سنی نہ جانی تھی۔ مگر محرم کے ہاتھ کے کاغذ کے پھولوں نے دل میں ایسی جگہ بنا ڈالی کہ بقیہ ہر چاہ کی چاہ مر گئی۔
اگر جانے والے شخص کو اوجِ کمال تک پہنچانے میں فاریہ کا ہاتھ تھا تو فاریہ کی زندگی میں نیا آنے والا بھی خدا کی جانب سے کاغذ کا وہ پھول تھا جو کبھی پھٹ تو سکتا تھا مگر محبت و اپنائیت سے عطاکردہ تھوڑی سی توجہ سے جڑ سکتا تھا۔
لکھاری کا تعارف
مرحا شہباز ایک افسانہ نگار اور مضمون نویس ہیں ۔ آپ شاعر ی کا ذوق بھی رکھتی ہیں ۔حال ہی میں بچوں کے رسائلمیں سبق آموز کہانیاں لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ آپ نے 2022 ہی میں کالم نگاری کا آغاز کیا اور کرمِ یزداں سے آپ کے کالمز، مضامین، آرٹیکلز اور شاعری اخبارات و جرائدمیں شائع ہو چکے ہیں۔ آپ چار انتھولوجیز میں بطور شریک مصنف لکھ چکی ہیں اور کالج کے بعد انگریزی اور اردو کے شعری و نثری مقابلہ جات جیت چکی ہیں۔ مستقبل میں بھی میں ادبی میدان میں مزید آگے بڑھنے کی اُمید رکھتی ہیں ۔۔ 2016 میں ایک ناول کا آغاز کیا مگر اسے ادھورا چھوڑ دیا۔ ۔ آپ کالج کے زمانے میں مقررہ اور سٹیج سیکرٹری بھی رہ چکی ہیں۔