کہانی کار : نعمان جنجوعہ – منڈھول آزاد کشمیر
منڈھول کا اسٹوپا
یہ کنشک عہد (78ء تا 123ء) میں تعمیر ہونے والی بدھ مت کی قدیم درسگاہ ہے۔ جسے “سٹوپا” یا “گومپا” بھی کہا جاتا ہے۔
یہ تاریخی عمارت وادی منڈھول پونچھ آزادکشمیر میں واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ کنشک (Kanshaka) ، جو بذاتِ خود بدھ مذہب تھا۔ اس نے جب کشمیر فتح کیا ۔ تو اس دور افتادہ خوبصورت علاقے (کشمیر) کو اپنا مرجع سمجھا۔ یہاں مختلف عمارتوں کے علاوہ کنشک پورہ شہر بھی تعمیر کروایا ۔ اور کابل سے لیکر پاٹلی پتر تک کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کیا۔
یہ تاریخی عمارت حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے۔ اور چند رجعت پسند عناصر کی ناجائز تجاوزات کا شکار ہے۔ تقریبا دو ہزارسال پرانی یہ بودھ درسگاہ اپنی اصل ساخت اور خوبصورتی کھو رہی ہے۔ اور ایک بڑا حصہ ڈھے جانے کا بھی اندیشہ ہے۔
منڈھول کے باسیوں میں یہ عمارت “دیرہ” کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جس کے بارے میں کئی دیومالائی قصے بھی مشہور ہیں۔ اپنی دادیوں ، نانیوں اور دیگر بڑے بوڑھوں کی زبانی یہ قصے سنے ہیں۔ جو نہایت دلچسپ اور کشمیری لوک داستانوں کا حصہ ہیں۔
شاردہ یونیورسٹی
وادی ء نیلم میں شاردا کے مقام پر موجود قدیم “شاردا یونیورسٹی” کے آثار موجود ہیں۔ راولاکوٹ، سرینگر، بانڈی پورہ، کپواڑہ اور ریاست جموں و کشمیر کے باقی اضلاع میں بھی ایسی عمارت موجود ہیں۔ یہ قدیم درسگاہیں آج سے ہزاروں سال قبل اہلیانِ کشمیر کی حُب العِلمی ، باہمی برداشت اور امن پسندی کی آئینہ دار ہیں۔
ان پُرشکوہ عمارتوں نے اشوک اعظم کے جانشینوں سے لیکر للتادتیہ، اونتی ورمن اور بعد ازاں سلطان زین العابدین بڈشاہ اور یعقوب شاہ چک تک علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کا عروج دیکھا ہے۔ اندرونی اور بیرونی سازشوں اور اول العزم بادشاہوں کی جوانمردی کے جوہر دیکھے ہیں۔
جابروں اور غاصبوں کا جبر و استبداد دیکھا ہے۔ اور اسی مٹی کی کوکھ سے جنم لینے والے ان سرفروشوں کو دیکھا ہے جن کی للکار سے ظالموں کے دل دہل دہل جاتے تھے۔۔۔
مہاتما بدھ سے لیکر صوفی سید شرف الدین بلبل شاہ اور حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی تک ہر مذہب کو پروان چڑھتے دیکھا ہے۔ غنی کاشمیری ، ارنی مال اور حبہ خاتون کے سحرآفریں اور سوز و گداز میں ڈوبے ہوئے نغمے سنے ہیں۔
قراقرم ، ہمالیہ اور پیرپنجال کے دامن میں پھیلے جموں تا گلگت و تبت ہا ، مختلف النسل باشندگانِ ریاست کی یکتائی دیکھی ہے۔ محبت اور امن پسندی کے جذبات کو سورج کی کرنوں میں ضم ہو کر سرزمینِ کاشمر کی مٹی میں اترتے دیکھا ہے۔۔