تحریر مہرین ملک
دین اسلام اور دیگر مذاہب بھی انسانیت کا درس دیتے ہیں،اسلام میں کوئی انسان دوسرے سے برتراورکوئی کمتر نہیں ہے اسلام میں جنس کے لحاظ سے کسی کو کوئی فوقیت حاصل نہیں کوئی بھی انسان ہو کسی مذہب کا ہو اور کوئی بھی رنگت رکھتا ہو اور کسی بھی جنس سے ہو۔  اللہ کے ہاں برتری کا معیار یہ ظاہری اسباب نہیں ہیں ۔موجود ہ دور حاضر میں تعلیم عام ہو گئ لیکن کہیں نہ کہیں انسانیت دم توڑ گئی لوگوں کو پیسے کے پیمانے سے عزت ملنے لگی اور سب سے زیادہ نا انصافی اور حقوق کی پامالی جس طبقے کے ساتھ کی جا رہی ہے وہ ہیں خواجہ سرا ٕ جس کو ہم ٹرانسجینڈر بھی کہتے ہیں تعلیم تو عام ہوئی لیکن شعور نہ آیا۔خواجہ سرا کو لوگ مختلف ناموں سے پکار کے محظوظ ہوتے ہیں۔
ان کے الفاظ کو ہنسی اور ٹھٹھہ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
اور تواور ان کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
نام بگاڑنے سے بار بار قرآن پاک میں منع فرمایا گیا ہے۔لیکن صرف ڈگریوں کے ڈھیر میں اضافہ ہوا انسانیت میں کمی ہوئی۔کبھی غور کریں تو یہ لوگ کسی کو بھی غلط لفظ یا نام سے نہیں پکارتے بلکہ ہنس کر گزر جاتے ہیں۔
کبھی ان لوگوں کی اس ہنسی پہ غور کریں تو معلوم ہوگا وہ مکمل انسانوں پہ افسوس کی ہنسی ہے۔کہ تم لوگ مکمل اور تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی ایسی گِری ہوئی سوچ رکھتے ہوکہ ہمارا نامکمل ہونا مذاق لگتا ہے آپ کو۔مکمل انسانوں کا مکمل ہونے میں بھی کوئی کمال نہیں ہے۔افسوس ایک پڑھا لکھا معاشرہ ایک ایسے طبقے کو باعزت مقام نہ دے سگا جو اس دین کو ماننے کا دعوے دار ہے جس میں ایسے افراد کو نامناسب الفاظ میں مخاطب کرنے بھی ستر دوروں کی سزا ہے
لیکن یہ پڑھا لکھا معاشرہ کیا کر رہا ہے؟اسکا حساب نہیں ہوگا کیا؟ ۔
خواجہ سرا ٕافراد کا تعلق جنس مرد یا  جنس عورت سے نہیں ہوتا ان کا تعلق تیسری جنس سے ہوتا ہے جسے خواجہ سرا ٕ کہتے ہیں یہ بھی اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے لیکن لوگوں کی نظر میں ایسا ہے جیسے ان کا کوئی رب نہیں ان کا کوئی احترام نہیں کیاجاتا ہے اس کے علاوہ بھی دیگر اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کو قبول نہیں کیا جاتا یہ وہ لوگ ہیں جو جس گھر میں اگر پیدا ہو جائیں تو انہیں وہاں رہنے نہیں دیا جاتا والدین انہیں گھر میں رکھنا نہیں چاہتے۔ والدین کو گھر میں رکھنا رکھنا چاہیے اگر والدین ان بچوں کو گھر رکھ  بھی لیں تو معاشرہ انہیں جینے نہیں دیتا۔طرح طرح کی باتیں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے والدین اس مشکل اذیت سے بچنے کے لئے اسے گھر سے نکال دیتے ہیں۔ یا  انہیں مارنےکوترجیح دیتے ہیں۔
لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے یہ انسانیت سے گر جانے کا سب سے گٹھیا ترین درجہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے اوراگر معاشرہ تسلیم نہیں کرتا تو والدین کو چاہیے کہ وہ ایسے بچوں کا سہارا بنیں خود تعلیم دیں انہیں کوئی نہ کوئی ہنر سکھائیں تا کہ وہ باعزت طریقے سے روزی کما سگیں ۔
حکومت کو ان افراد کے لیےباقی اسپیشل افراد کی طرح سہولیات دینی چاہیے ایسے بچوں کے لئے الگ سکول بنانے چاہئیں تا کہ خواجہ سرا ٕ بچے  تعلیم حاصل کر سگیں ان کے لئے ماہانہ وظائف مقرر کئے جائیں اور انہیں سکولوں میں بطور استاد بھی انہیں پڑھے لکھے خواجہ سرا کو رکھا جانا چاہیے تاکہ ان لوگوں کو بھی معاشرے میں باعزت مقام حاصل ہو سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ ان کے لئے الگ سے اقدامات کرے ان کے لئے قوانین بنائے جائیں ان کے حقوق کے تحفظ اور سلامتی کے تحفظ کے لئے قانون بنائے جائیں اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو  سخت سزا دی جائے اور اس کے علاوہ بُری محفلوں کا حصہ بننے سے روکا جائے۔تاکہ یہ باعزت طریقےزندگی گزارسکیں۔

لکھاری کا تعارف
مہرین ملک ایک قلمکار اور مصنفہ ہیں، انکاتعلق پاکستان کے خوبصورت شہر اولیاء کرام کی دھرتی ملتان سے ہےاللہ سبحان وتعالی کی ذات نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور رکھی ہوتی ہےجو اسے باقی لوگوں سے ممتاز کرتی ہے،بس کمی ہمارے دیکھنے اور سمجھنے میں ہوتی ہے، دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والی مہرین ملک کو بھی اللہ پاک کی ذات اقدس نے قلمی صلاحیت سے نوازا ہے
آپ نے باقاعدہ قلمی سفر کا آغاز دسمبر 2021میں کیا، انکاپہلا کالم بعنوان میری آنکھوں نے پھولوں کے جنازے دیکھے کو بے حد سراہا گیا۔ اب تک آپ نے کئی اداروں سے منسلک ہو کراپنی خدمات سرانجام دی ہیں جن میں رائٹر فورم پاکستان ،ایم ایس ایم ریسرچ سوسائٹی ملتان  کے علاوہ نیشنزآرگنائزیشن شامل ہیں۔ اب تک متعدد کالمز کے ساتھ ایک کتاب کی مؤلفہ (سوچ سے عمل تک) اور ایک کتاب میں شامل مصنفہ( اصحابی کالنجوم)کے طور پہ لکھ چکی ہیں

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact