ادیبہ انور
مہکتی صبح کیسی ہو؟
تم سے بہت کم بات ہوتی ہے مگر میں ہمیشہ تمہیں یاد کرتی ہوں تمہارے بارے میں سوچتی ہوں۔ بس میں کبھی تم سے کہہ نہی پائی۔سوچا آج تم سے کہہ دوں!
مانا تم دور نہیں ہو،تم میرے پاس ہو، ہر روز مجھ سے ملنے آتی ہو۔جب سے پیدا ہوئی ہوں تم اسی طرح ہر روز اپنی بانہیں کھولے مجھے ملنے آتی ہو، میرا انتظار کرتی ہو، مجھ سے اظہار چاہتی ہو۔ تم چاہتی ہو میں کچھ فرصت کے لمحے تمہارے ساتھ گزاروں. مگر میں بہت کم ایسا کر پاتی ہوں ۔ بس کبھی کبھار ایسا ہوا میں نے تمہیں بہت قریب محسوس کیا. لیکن ہمیشہ تمہارے اور میرے محسوسات کے درمیان کوئی آ جاتا ہے۔
جب میں بہت چھوٹی تھی۔ تب بھی مجھے تم اچھی لگتی تھی۔ یاد ہے میں سب سے پہلے اٹھ جاتی تھی۔ میں تمہارے ساتھ اٹھ جاتی اور کتنی خوش ہوتی تھیں؟ کیونکہ تمہارے آنے سے ہی تو مجھے کھیلنے کی اجازت ملتی تھی ۔ میں رات سے ہی تمہارا انتظار کرتی. کب تم آؤگی؟ اور مجھے کھیلنے کی اجازت ملے۔
پھر یوں ہوا کہ مجھے صبح سونے سے پیار ہوگیا۔ تمہارے آتے ہی مجھے فکر لگ جاتی کہ اب ضرور بستر چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ سچ کہوں تب کبھی کبھی میں چپکے سے دعا کرتی تھی کاش تم دیر سے آؤ لیکن تم کبھی دیر سے نہیں آئی۔
تب تم مجھے اچھی نہیں لگتی تھی۔
انہی دنوں مجھے بہت مصروف کر دیا گیا۔ میں سکول جانے لگی۔میں نے تمہیں سوچنا چھوڑ دیا۔ لیکن یہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ ان دنوں جب نوخیز جذبے دل میں جاگے، شاعری میں تمہاری تعریفیں پڑھیں تو تم سے ساری ناراضی ختم ہو گئی۔ تب میں تمہاری گود میں سر رکھ کر بہت دیر تک تم سے محبت کرنا سیکھنا چاہتی تھی۔ میں تم سے نرم اوس جیسی محبت کے بارے میں باتیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے تم سے سیکھنا تھا کہ ہر روز مسکرا کر کسی کا استقبال کیسے کرتے ہیں؟ رات میں دیکھے میٹھے خوابوں کے بارے تمہاری میٹھی سرگوشیاں مجھے اچھی لگتی تھیں، مجھے تمہاری وہ ساری گدگدیاں یاد ہیں جو دل میں کنوارے جذبے جگاتی تھیں ۔
لیکن جانتی ہو؟ تب مستقبل کے اندیشوں کا بوجھ میرے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔ ان دیکھی دوڑ میں شامل کر دیا گیا۔مجھے کہا گیا خواب خیال ،رومان و شاعری کچھ نہیں ہوتے ۔ حقیقت کی دنیا میں جیو تا کہ دنیا میں کچھ کر جاؤ۔مجھے زندگی میں بہت پیچھے رہ جانے پر ڈر لگنے لگا۔ میں بھاگنے لگی۔ میں سوچنے لگی میں ہار نہ جاؤں ،میں دنیا جیتنا چاہتی تھی۔ میں نے سوچا بس تھوڑا وقت اور پھر میں بہت سارا وقت تمہارے ساتھ گزارا کروں گی لیکن تم جانتی ہو تب کیا ہوا؟!
ہاں تم جانتی ہو کہ دنیا جیتنے سے پہلے ہی میں کسی اور کی ہوگئی۔ جب نئی نویلی دلہن بن کر تم بھی میرے ساتھ چہک رہی تھی تب میرے ساتھ ساتھ تم بھی نکھر گئی تھی۔ تب میں نے تم پر لکھے گئے سارے اشعاریاد کرنے کی کوشش کی، جذبات کی کھلکلاہٹوں کو محسوس کرنا چاہا، محبت بھرے لمحوں کو جینا چاہا، تمہارے چہرے پر بکھرے رنگوں کو سمیٹنا چاہا، میں نے سمجھا کہ یہی تو منزل تھی۔ اوراب ہر روز یہی چہک ہو گی۔ تم ہر روز یونہی مسکراتی ہوئی میرے پاس آؤ گی۔ اور میں لپک کر تمہیں بانہوں میں بھر لوں گی۔ چائے کے کپ سے اٹھتی بھاپ کے پیچھے دیکھتے ہوئے میں نے کیسی نئی خوبصورت اُجلی دنیا بسائی تھی۔ مگر تم جانتی ہو؟ محبت کے وہ سارے سبق ادھورے رہ گئے تھے۔وہ چائے سے اٹھی بھاپ کے پیچھے کا منظر کچھ اور تھا۔تب میں نے جانا تم پرائی ہو چکی تھی۔ ہاں تم پر میرا جو بہت تھوڑا سا حق تھا اب وہ بھی نہیں رہا تھا۔
جب سے تیری عنایت ہوئی ہے
میں تیرے سحر میں جو جکڑ گئی ہوں
تو لگتا ہے ایسے کہ
جیسے صبحیں میری اور شامیں میری
کھو گئی ہیں کہیں
اور اب تو یہاں کچھ بھی باقی نہیں
ہاں میرے دوست اب مجھے آزاد کر دو!
میں آج بھی کمرے کی بند کھڑکی کے پار تمہاری آہٹ سن کر جاگتی ہوں مگر اس کھڑکی کو کھولنا میرے بس میں نہیں!
اچھا پیاری صبح!آج تم سے بہت باتیں کر لیں۔ ہم پھر کسی دن ملیں گےاور ڈھیر ساری باتیں کریں گے۔ایک درخواست ہے۔تم میرے بچوں کی آنکھوں میں اپنے منظرضرور اتارنا۔ مَیں انہیں تمہاری بہت سی باتیں سناتی ہوں۔جب تم بادلوں کے پیچھے سے جھانک کر سنہری کرنیں ان کے چہرے پر بکھیرتی ہو، جب شبنم کے قطروں میں اترتی ہو،جب پھولوں پر ہنستی ہو،جب مہربان ہوا کے ساتھ چلتی ہو،جب تم مسکراتی ہو تو میں انہی بتاتی ہوں تم کتنی خوبصورت ہو!
شاید ایک دن وہ تمہیں پا لیں!
تمہاری بہت اپنی
ادیبہ انور