تبصرہ نگار: تہذین طاہر
تلہ گنگ، چکوال کی سر زمین سے اُبھرتی بے باک صحافی، قلمکار، محنتی اور باصلاحیت شخصیت کا نام نمرہ ملک ہے۔میری ان سے پہلی ملاقات اکادمی ادبیات اطفال کی کانفرنس میں ہوئی۔ وہاں موجود سب مہمانوں کی طرح محترمہ سے بھی اچھا تعارف اور ملاقات رہی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلق ایک اچھی دوستی میں بدل گیا۔ ایک دن انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں درد کی سفیر جانا جاتا ہے کیونکہ وہ نا صرف اپنا بلکہ زمانے کا درد اپنے سینے میں لیے گھوم رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا وہ درد پڑھتی ہی نہیں ، لکھتی بھی ہیں اور نہ صرف لکھتی ہیں بلکہ ایک رائٹر ہونے کے ناطے درد کو محسوس کر کے ان جذبات کو کورے کاغذوں پر اتارتی بھی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ مجھے لوگوں کو سننا اچھا لگتا ہے کیونکہ میراماننا ہے کہ ایک گاؤں کی لڑکی کو سائی کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ سائی ۔
say it all
چھ جنوری2021ء کی تازہ نظم جو ”کہیں تھل میں سسی روتی ہے“ میں شائع ہوئی، مجھے موصول ہوئی۔ جسے پڑھنے کے بعد میں نے اسے کئی بار پڑھا۔جذبات کو کوزے میں بند کیسے کیا جاتا ہے اس نظم کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا۔ تھل میں سسی تو روتے بھی چھوڑ دیا اور عشق کا چرچا بھی عام کر دیا۔
اگر کتاب ”کہیں تھل میں سسی روتی ہے“ کی بات کی جائے تو کتاب کھولتے ہیں ہمیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ”کتاب سے محبت کریں ، کیونکہ کتاب ہی گھٹن زدہ معاشرے میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔اس جھونکے کا راستہ مت روکیں بلکہ اسے پھیلائیں کیونکہ کتاب کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہیں تھی“۔ اس نصیحت کو پلو سے باندھے آگے جائیں تو انتساب پڑھ کر دل مٹھی میں آ جاتا ہے۔ لکھتی ہیں” میرے اندر سانس لیتی ، عورت عورت پکارتی، معاشرتی المیوں سے کبھی کبھی نظر چرا کے روتی ماں کے نام، جس نے مجھے مٹی سے گوندھا اور مری آنکھ کی پتلی میں دوڑتی محبت کے خالق میرے ابو جی کے نام، جنہوں نے اس مٹی سے عشق کے معانی بتائے“۔
کتاب کا شروع اگر ان الفاظ پر مشتمل ہے تو سوچیں کتاب کے اندر سسی کس کس رنگ میں روتی دھوتی رہی ہو گی۔محترمہ نمرہ ملک کہتی ہیں: ”زندگی محبت ہے۔ زندگی امتحان ہے، زندگی انتظار ہے، زندگی دکھ، سکھ کا نام ہے۔ زندگی، ہجر کی دستک، وصالِ یار کی چاہت اور ملن موسموں کی شیرینی ہے۔ زندگی، آس، اُمید، محنت اور صبر و رضا کا اجر بھی ہے۔ عروج ہے، زوال ہے۔ زندگی کمال ہے۔ ان سب ذائقوں کا خلاصہ میری یہ کتاب ”کہیں تھل میں سسی روتی ہے“ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ سسی کا ہجر عام نہیں ہے۔ وہ لیلیٰ مجنوں کے قصوں کو حقیقت کی نظر سے دیکھتی بھی ہے اور ان کی ہجرو ملال میں لپٹی کیفیات خود پر سہتی بھی ہے۔ تھل کی سسی دراصل میرے اندر کی گھٹن زدہ عورت ہے جس کی عمر کے سوکھے تھل پہ ہر موسم کی بارش تشنگی لے کر برستی ہے۔ ایک طویل ریاضت نے بس اتنا فرق پیدا کر دیا کہ تشنہ بارشیں اب سوکھے تھل کی سسی سے عشق کرتی ہیں“۔ان کے الفاظ پڑھ کر اندازہ ہوا کہ انہوں نے اپنے اندر کی گھٹن زدہ عورت کو سسی کہا، انہیں نے اعلانیہ خود کو سسی کیوں نہ کہا؟۔ شاید یہاں بھی وہ معاشرے کے ہاتھوں اپنے الفاظ کا گلا گھونٹ گئیں۔
کتاب میں شاعرہ نے پورے معاشرے اور تمام انسانیت کے دکھوں کو اپنے اندر سمو کر انہیں اپنی شاعری کے ذریعہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری گلاب کی پنکھڑیوں پر شبنم کے چمکتے ہوئے موتیوں کی طرح ہے۔ نمرہ ملک کی شاہکار نظموں کا مجموعہ ایک بہتی ہوئی ندیا کی طرح رواں دواں ہے جو زندگی کو ایک سمندر سے بھر رہا ہے۔ جہاں پر زمانے کے رنج و الم سہہ کر زندگی پھر سے مسکرانا چاہتی ہے۔ نمرہ ملک کے الفاظ کا چناﺅ بہت عمدہ ہے۔ تمام احساسات کا بہاﺅ فطری ہے۔ ہر نظم کے ساتھ گہرے جذبوں کا تانا بانا ہے۔ زیرنظر کتاب میں مصنفہ نے نہ صرف اُردو زبان بلکہ پنجابی، عربی، فارسی، ملائی، ترکش اور دوسری کئی زبانوں کو بھی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ نمرہ ملک کا حسنِ بیان بہت خوبصورت ہے وہ صحافت کی طرح اُردو ادب کا بھی چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ اللہ کرے زورقلم اور زیادہ!۔
احساس و جذبات سے گوندھی یہ کتاب ہر مشرقی عورت کے دل کا حال بیان کرتی ہے۔ وہ مشرقی عورت جسے پیدا ہوتا ہی محبت اور عشق کے ہاتھوں طلاق دلوا دی جاتی ہے۔ روتی دھوتی تھل کی سسی ہر اس مشرقی عورت کے دل کی عکاسی کرتی ہے جو اپنے اندر ہزاروں خواہشات کی قبر بنائے پھرتی ہیں۔تھل کی سسی امید اور ناامیدی کے ترازو میں ڈولتی روتی ہے تو بس روتی چلی جاتی ہے۔ نمرہ ملک کا نظموں کی صورت میں جذبات بیان کرنا کا یہ انداز ہے ،تو سوچیں!کہانی اور افسانوںکی صورت میں دل کو لرزہ کرنے والی محترمہ کی تحریروں کی داستان کیسی ہوگی۔ آخر میں محترمہ کہتی ہیں” اگر میرا ایک لفظ بھی کسی سوکھے تھل کو سیراب کر گیا تو میرے لفظوں کا حق ادا ہو جائے گا“۔ اور مجھے لگتا ہے ان کے الفاظ کا حق ادا ہو رہا ہے۔