دانیال حسن چغتائی

 یہ دنیا مختلف اور متنوع پہلوؤں کا مجموعہ ہے۔ اس جہان رنگ و بو میں ایسی شخصیات بھی آئیں جو آسمان شہرت پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکیں اور شہرت دوام پا کر رخصت ہوئیں۔ انہی شخصیات میں سے ایک کو ہم علامہ اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔

علامہ اقبال کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا ۔ اگر ہم علامہ اقبال کی شاعری کا بنظر غائر جائزہ لیں تو یہ ہمیں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

 قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے تابع ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف، محاسن جمیلہ کے تذکرے کے لئے اردو ادب میں نعت شعراء کے کلام کا جزو ہے۔

اسی طرح علامہ اقبال کے کلام کا بہت بڑا حصہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا کہ علامہ اقبال کی شاعری کا خلاصہ اور لب لباب ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اطاعت رسول ہے۔ علامہ اقبال کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت اور لگن تھی۔ ان کے رگ و پے میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سرایت کر چکا تھا۔ ان کا تصور، ان کا خیال ،ان کا کلام، ان کے حالات، ان کے واقعات اور ان کی عادات و افعال اس بات کا ثبوت ہے کہ علامہ اقبال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق تھا اور عشق رسول کے پیکر تھے۔

 علامہ اقبال کی زندگی کا سب سے قابل قدر وصف عشق رسول ہے۔ ذات رسالت کے ساتھ انہیں جو عشق تھا اور جو والہانہ عقیدت تھی۔ اس کا اظہار ان کی چشم غمناک سے ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی علامہ اقبال کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا، ان پر جذبات کی شدت طاری ہوجاتی۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بندھ جاتی۔ رسالت ما آب کا ذکر آتے ہی علامہ اقبال بے قابو ہو جاتے۔ کفار نے محسن کائنات پر جو ظلم ڈھائے تھے اور جس طرح سے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کیا تھا، یہ سب کچھ سن کر علامہ اقبال پر رقت طاری رہتی۔ علامہ اقبال نے جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کی ہے اس کا انداز سب سے الگ ہے۔ انہیں محسن انسانیت کی تلاش تھی۔ ان خوبیوں کی حامل ایک ہی شخصیت نظر آئی اور وہ رسالت ما آب کی ذات تھی۔

علامہ اقبال نے یورپ کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ بڑے بڑے فلسفیوں کے خیالات سے استفادہ کیا۔ دنیا کے کونے کونے میں گہر ہائے علم تلاش کئے۔ خود علامہ اقبال کا شمار معروف شاعروں اور فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ اس زمانے میں فلسفے کا مطلب ہی منکر مذہب سمجھا جاتا تھا، جس کا مذہب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ لیکن علامہ اقبال نے خود فرمایا ۔

 سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

عشق رسول علامہ اقبال کے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔ وہ بہت بڑے فلسفی تھے اور فلسفے کا سارا معاملہ عقل کے بل بوتے پر چلتا ہے لیکن علامہ اقبال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی جرات نہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ ایمان بالغیب کے قائل تھے۔ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی ایمان ہے اور سر آنکھوں پر ہے۔ اس معاملے میں کسی چوں چرا کی گنجائش کے قائل نہیں تھے۔ ہر وقت مدینہ کے خواب دیکھتے تھے۔ مدینہ کا ذکر ان کے کلام میں کثرت سے ملتا ہے۔

بلاد اسلامیہ کے عنوان سے علامہ اقبال نے ایک طویل نظم لکھی جس میں دلی بغداد قرطبہ اور دوسرے شہروں کا ذکر بڑے درد انگیز لہجے میں کیا۔ ان کی حالت زار پر ماتم کیا مگر جب مدینہ منورہ کا ذکر زبان پر آیا تو شاعری کی حالت ہی بدل گئی۔ انداز فکر تبدیل ہوگیا۔ طرزِ گفتار میں ٹھہراؤ پیدا ہوگیا۔

 وہ زمین ہے تو مگر اے خواب گاہ مصطفیٰ

 دید ہے کعبہ کو تیری حج اکبر سے سوا

 علامہ اقبال مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول کا تصور بٹھا دینا چاہتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو دوبارہ ان کے اصل کی طرف راغب کرنا چاہتے تھے جسے فراموش کرکے مسلمان قوم ذلت کی عمیق گہرائیوں میں جاگری تھی۔ وہ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کڑھتے رہتے اور ان پر یہ غفلت بہت شاق گزرتی۔انہوں نے اس وقت مسلمانوں پر زور دیا کہ اسلام کی خاطر ایک الگ وطن حاصل کریں ۔خواب غفلت سے جاگیں اور جدوجہد کا آغاز کریں۔

 بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے

 اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے

 ذات رسالت ما آب سے اقبال کا عشق جس والہانہ انداز میں ہے، وہ چھپائے نہیں چھپتا۔ طرح طرح سے حیلے بہانہ کر کے مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب بے قراری زیادہ بڑھتی ہے تو اس کے مداوے کے لیے تصور کی دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں کی کیفیت ،وہاں کی حالت، وہاں کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ اس بیان اثر کا کیا ہی کہنا۔ اس کے بیان سے ہی عجیب کیفیت اور سرور کا عالم ہم جیسے گناہگاروں پر بھی طاری ہو جاتا ہے۔

 فرشتے بزم رسالت میں لے گئے مجھ کو

 حضور آیہ رحمت میں لے گئے مجھ کو

 علامہ اقبال نے جو گلہائے عقیدت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں پیش کئے اس سے بڑھ کر کوئی بھی نذرانہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمانوں کی تاریخ کے مختلف ادوار کے لئے شکوہ اور جواب شکوہ جیسی طویل ترین نظمیں لکھیں۔ ان نظموں میں اللہ سے شکوہ بھی کرتے ہیں اور پھر اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر عجیب دل پذیر انداز میں کرتے ہیں۔

 قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

 دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

اقبال کے مطابق یہ عالم رنگ و بو اور رونق گلستان حضور کے دم قدم سے ہے۔ اس کا ذکر اقبال کے اکثر اشعار میں ملتا ہے ۔علامہ اقبال وہ شخصیت ہیں جو عشق رسول کی حقیقت جان گئے اور جن کا کلام اس حقیقت کا آئینہ دار ہے۔ ذکر رسول پر ان کے آنسو جاری ہو جاتے تھے، رقت طاری ہو جاتی تھی، فرط محبت سے بیقرار ہو جاتے تھے۔

 کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں

 علامہ اقبال نے اس دنیا کی حالت زار دیکھی۔ تکفیر کا شوق، فرقہ پرستی، اپنے مفاد کے لیے مذہب کی اڑتی ہوئی دھجیاں ، یہ دین کے نام پر سودے بازی سب کچھ دیکھا۔

علامہ اقبال کی زندگی میں مختلف تبدیلیاں آتی ر ہیں۔ تغیرات ظہور پذیر ہوتے رہے مگر عشق رسول کو دوام حاصل رہا اور ویسے بھی کوئی حب رسول کے بعد کسی در پر نہیں جا سکتا ۔سیرت النبی کے متعلق علامہ اقبال نے تفصیل سے لکھا اور حضور کے اخلاق و عفو محاسن جمیلہ کا کا نقشہ کھینچا اور اپنی شاعری کو اس سے زینت بخشی۔ علامہ اقبال کو اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا بھی احساس تھا۔ شروع میں دانش افرنگی سے مرعوب ہوئے۔ وطن کے بت کو ابتدا میں تسلیم کیا مگر جیسے جیسے اسلام سے رغبت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق بڑھتا گیا، واقف اسرار ہوتے گئے اور دھبے دھلتے گئے۔

 جب کسی شاعر کے دل پرکوئی اثر کارفرما ہوتا ہے تو وہ اسے دل آویز طریقے سے پیش کرتا ہے۔ علامہ اقبال کی بھی یہی حالت تھی۔ انہوں نے عشقِ رسول میں بہت کچھ لکھا اور جتنا لکھا کمال لکھا۔ ان کے کلام کا وافر حصہ اس بات کا آئینہ دار ہے۔ مدینے سے وابستگی اور رسول خدا سے عشق اقبال کا سرمایہ کلام ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں علامہ اقبال جیسا عشق رسول عطا فرمائے اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact