تحریر ۔نازیہ آصف

مہاجر پرندوں کے دکھ وکرب پہ لکھی گئ تحریر

پوہ گزر چکا ، ماگھ کے مہینے کی آخری راتیں چل رہی ہیں ۔چاند اپنی منزل پہ پہنچ چکا ہے  اور سردی کے ساتھ تاریکی بھی  بڑھتی جا رہی ہے ۔یہاں سے دریا کا پاٹ کافی چوڑا اور تاحد نگاہ پانی پھیلا ہوا ہے ۔پانی کے اوپر کہرے کی ایک دبیز تہہ جمی ہوئ ہے۔ کنارے کے ساتھ ساتھ سرکنڈوں کی باڑ چلتی ہے جس کا رنگ سبز سے بھورا ہو چکا مگر ان کے اندر ابھی ایک زندگی سانس لے رہی ہے ۔ہلکی ہلکی سوں سوں کی آواز آتی ہے ۔اوہ سوسی ! تم پھر رونے لگیں ،اب چپ کر جاؤ۔

للی!للی!مجھے سردی لگ رہی ہے۔

للی بولا میرے ساتھ ہو کر سو جاؤمیں جاگ رہا ہوں۔پھر خاموشی چھا گئ اور پانی کے بہنے کی آواز ایک  گونج کی طرح سنائ دے رہی تھی ۔سردی کی  شدت سے ہوا نے بھی دم سادھ لیا تھا کہ پھر سوں سوں کی آواز آنے لگی ۔

اوہ پیاری سوسی! تم اتنا کیوں روتی ہو اب سو جاؤ ۔ ہم بہت جلد یہاں سے اپنے دیس چلے جائیں گے ۔

سوسی چونکی! للی بھیا کیسے،کیا آپ کو راستہ معلوم ہے ؟ہاں سوسی ،ہم بہت جلد واپس چلے جائین گے بس تم جلدی سے سو جاؤ۔

چند سرکنڈوں کی اوٹ میں بابے بیٹھا کتنی ہی  دیر سے ان کی باتیں سن رہا تھا ۔وہ خاموش رہا ،نیند اسے بھی نہی آرہی تھی بس آنکھیں موندے پڑا تھا ۔

اس بار بھی خاموشی کا دورانیہ کافی مختصر رہا اور پھر سوں سوں کی آواز آنے لگی ۔اوہ پیاری سوسی! میری پیاری!دیکھو میں تمھارے پاس بیٹھا ہوں میں نہی سو رہا ،تم ڈرو مت اور سونے کی کوشش  کرو ،”میں صبح تمھارے لیے مزیدار کھانا لاوءں گا تمھیں سعادے کی جڑ اور پروٹین کھانا بہت پسند ہے ناں ۔ صبح دونوں چیزیں لاوءں گا” دریا کے اس کونے میں اک بار پھر خاموشی چھا گئ ۔تہجد کا وقت ہو رہا تھا ،پانی کے شور میں خاصی کمی آ چکی تھی ۔بابے نے لیٹے لیٹے اپنی گردن گھمائ،آسمان کی طرف دیکھا ستارے مدھم مدھم سے ٹمٹما رہے تھے تاریکی پہلے سے زیادہ ہو چکی تھی ۔اس نے یہ سوچ کر اپنی ادھ کھلی آنکھ بند کر لی کہ “صبح ہونے میں ابھی کافی وقت ہے”۔ ابھی تھوڑا سا سو لوں،رات بھر کی سوں سوں نے اسے بھی کافی پریشان رکھا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ سرکنڈوں میں اس سے پہلے ایسی پریشان حال رات کبھی  نہی آئ تھی ۔ابھی اس کی آنکھ لگی تھی کہ اسے شڑاپ کے ساتھ پانی میں ہلکا سا ارتعاش محسوس ہوا ،  اس نے گردن نکال کر دیکھا، بہت پتلی اور لمبی ٹانگوں والا سارس ادھر ادھر پھر رہا تھا ۔بابے کو اس کی لمبی زردی مائل چونچ اور سرخ کلغی بہت بھائی ۔

بابے نے آواز لگائ ،سنو!  تم کون ہو؟ پہلے تو تمھیں کبھی ادھر نہی دیکھا ،اجنبی سے لگتے ہو۔

للی آواز سن کر چونکا ۔بابے بولا ” ڈرو مت،میرے پاس آوء،میں ایک کچھوا ہوں اور میرا نام بابے ہے “

للی بابے کی طرف بڑھا اور بولا ،میرا نام للی ہے اور میرے ساتھ میری چھوٹی بہن سوسی  رہتی ہے ،ہم کل رات ہی یہاں آئے ہیں ۔دراصل سوسی ڈرتی بہت ہے  ۔”لیکن پتر ،کیوں ڈرتی ہے؟”

للی !بابے، ہم یہاں اس سال ہی آئے ہیں اس سے پہلے ہم سردیاں گزارنے فریدونکنار(ایران کی ایک جھیل) جاتے تھے ہمارے والدین نے وہیں کسی سے سندھ ساگر کے میٹھے پانیوں کا ذکر سنا،تو اس سال وہ ہمیں یہاں لے آئے”

فریدونکنار، یہ تو بہت اوکھا نام ہے پتر ،میں نے تو اس سے پہلے کبھی یہ نام نہی سنا ۔

بابے،یہ ایران کا شہر اور بحیرہ کیسپئن کی ساحلی پٹی پہ  آباد ہے ۔بحیرہ کیسپئن ایک بہت بڑی جھیل یا خشکی میں گھرا ہوا سمندر ہے۔ اس کے گہرے سبز پانیوں میں سعادے،کائ اور پروٹین کی بہتات ہے ۔ بابے “آپ یوں سمجھ لو کہ کہ وہ ہم جیسے مہاجر پرندوں کی جنت ہے” ۔

للی رونے لگ گیا ۔بابے رینگ کر اس کے قریب ہو گیا۔ ” پھر کیا ہوا پتر،بتا ناں”۔

للی” اب سوسی اپنے دیس واپس جانا چاہتی ہے “

بابے “تمھارے وطن کون سا ہے ؟

للی ،اصل میں ہمارا وطن جھیل بیکال ہے ۔

بابے ” مگر وہ تو بہت دور ہے اور سنا ہے کہ وہاں صرف برف ہی برف ہے  “

سوسی !جی بابے ،جھیل بیکال یہاں سے بہت دور سائبیریا میں واقع ہے اور یہ دنیا کی سب سے گہری اور خوبصورت جھیل ہے۔ وہاں ستمبر اور اکتوبر مین برفانی جھکڑ چلتے اور درجہ حرارت منفی ہو جاتا ہے اور ہر چیز جم جاتی ہے۔ تو یوں وہاں زندگی ناممکن ہوجاتی ہے  تو ہم جیسے پرندے رزق کی تلاس میں گرم پانیوں کا رخ کرتے ہیں ۔

بابے” تو اب تمھارے والدین کہاں ہیں ؟”

للی:ایک دن بہت اچھی دھوپ نکلی ہوئ تھی ہم سب اپنے والدین کے ساتھ مچھلی کا شکار کر رہے تھے کہ ہمارے والدین کو کچھ لوگ آتے دکھائی دیے تو انھوں نے ہمیں اڑ جانے کے لئے بولا،مگر خود مچھلی پکڑتے رہے ۔ہم اڑے اور  تھوڑا دور ہو کر بیٹھ  گئے ۔کچھ ہی لمحوں بعد ہم نے اپنے والدین کو پانی میں بہتے ہوئے دیکھا اور پھر وہ انھیں اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے ۔

اوہ پتر !بس کر رو ناں یہاں لوگ ایسا ہی کرتے ہیں ۔

للی:انھوں نے ہمارے والدین کو مار دیا ۔بس سوسی اس دن سے سو نہی پاتی تھی۔ پھر کل ہم وہاں سے اڑ کر یہاں آگئے ہیں، مگر اس کا خوف ابھی بھی کم نہی ہوا ۔بابے اس کی باتیں سن خاموش ہو گیا ۔

للی نے مڑ کر دیکھا تو سوسی ایک ٹانگ پہ کھڑی اپنا سر پروں میں دبائے سو چکی تھی اسے اس وقت اپنی بہن بہت پیاری لگی ۔

بابے :دیکھو للی،” اب پریشان نہ ہونا ۔میں سالوں سے انھیں سرکنڈوں میں رہ رہا ہوں ، میرا یہ سندھ ساگر  بہت کھلے دل والا ہے، اس کے پانی قراقرم کی مقدس برفوں  سے آتے ہیں “۔ پتر ،یہ دریا صدیوں سے سب میں امن شانتی اور رزق  بانٹتے آیا ہے۔ یہ کسی کو بھوکے پیٹ نہی  سونے  دیتا ۔تو آج میرے ساتھ کھانے کی تلاش میں چل ،دیکھ صبح ہو رہی ہے” ۔

للی : ” نہی بابے ،سوسی ابھی سوئ ہے” ۔

بابے:” پتر ،اسے سونے دے ہم اس کے جاگنے تک واپس آجائیں گے “۔للی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔

رات گزر چکی اور پو پھوٹ رہی تھی ۔سورج کی  کرنیں آسمان پہ پھیل رہی تھیں ۔دریا سے اٹھنے والے بخارات دھند کی شکل اختیار کر رہے تھے ۔پرندوں کے غول کے غول رات بھر کی نیند کے بعد اب دریا پر اتر رہے تھے ۔بابے اور للی بھی ان میں شامل ہو گئے ۔سوسی دیر تک پڑی سوتی رہی،اسے  اپنے پروں پر حدت سی محسوس ہوئ تو جاگ گئ ۔صبح ہو چکی تھی اور سورج کافی چڑھ آیا تھا ۔اس نے دیکھا، للی کسی  سے باتیں کر رہا ہے ۔للی بھیا،” اوہ سوسی!تم جاگ گئیں؟” ۔ہاں

للی :” یہ دیکھو میں تمھارے لیے ناشتہ لایا ہوں اور ان سے ملو، یہ انکل  بابے ہیں ، انھوں نے ناشتہ لانے میں میری بہت مدد کی ہے اور یہ انھیں سرکنڈوں میں ہی رہتے ہیں ۔سالوں سے یہ ان کا گھر ہے تمھارے لیے سعادے کی جڑ اور پروٹین لائے ہیں ۔اسے کھاؤ، اس سے تم بدن میں طاقت محسوس کرو گی ۔سوسی کل سے بھوکی تھی ۔کھانا دیکھ کر خوشی خوشی کھانے لگی ۔للی بھی آج خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا وہ بابے سے دیر تک باتیں کرتا رہا ۔اپنی باتیں دوستوں،والدین اور جھیل بیکال کی باتیں،اسے یاد آ رہا تھا کہ وہ کتنے خوش رہتے تھے اسے اپنے والدین کے ساتھ بیتائے کتنے خوشگوار پل یاد آرہے تھے ۔پھر برف کے طوفانوں نے ساری سرگرمیاں محدود کر دیں ۔وہ سوچنے لگا کہ لوگ اتنے خوبصورت پرندوں کا شکار کیوں کرتے ہیں ؟یہ نہی سوچتے کہ گھونسلے میں کوئ ان کا منتظر بھی ہو سکتا ہے ۔اسے خیال آنے لگا کہ کاش!وہ دوستوں کے ساتھ فریدونکنار چلا جاتا تو بحیرہ کیسپئن کے گہرے سبز اور کھلے  پانیوں میں وہ کتنا خوش ہوتا ۔اوہ !آج تو صبح سے بابے بھی نظر نہی آیا ۔وہ اس کی موجودگی میں اب کم ہی پریشان ہوتا تھا ۔للی بھیا !للی بھیا ! ” آپ کدھر ہو ؟میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہی ہوں آپ مجھے بہت اداس لگ رہے ہو” ۔

للی :”ہاں سوسی آج مجھے اماں ابا یاد آرہے ہیں “۔

سوسی: “بھیا دل چھوٹا نہ کرو ،بہادر بنو “۔

او بچو کدھر ہو ؟ بابے بھی آ نکلا۔

انکل آپ کدھر تھے صبح سے نظر نہی آئے؟سوسی بولی ۔

بابے: ” بس بچو طبیعت زرا بھاری ہو رہی تھی ،۔سویا رہا ہوں ۔عجیب سا موسم ہو گیا ہے ۔طبیعت میں ایک سستی سی چھائے رہنے لگی ہے۔ تم لوگوں کو نہیں لگتا کہ رت بدل رہی ہے ؟۔

جی بابے میں دیکھ رہا ہوں کہ سرکنڈوں کا رنگ بھی اب بھورے سے نیم سیاہ ہو رہا ہے اور یہ اپنا وجود بھی کھوتے جا رہے ہیں ۔

بابے:ہاں پتر اب ان میں پھوٹک پڑنے والی ہے تمھیں پتہ ہے بچے ،موت کی کوکھ سے زندگی جنم لیتی ہے ۔اب پرندوں کی چہکاروں میں ایک نئ تراہٹ سی سنائی دینے لگی تھی کتنے پرندے سوکھی شاخیں اور پتے اکٹھے کرتے پائےگئے تھے ۔پانیوں پر بہہ کر آنے والی جھاگ میں تازہ برفوں کی باس تھی ۔آج صبح للی جاگا تو اسے عجیب سی خوشبو محسوس ہوئ دھوپ بھی خاصی تیز لگی ۔اس نے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہوئے اپنی گردن لمبی کی اور چونچ کے اوپری حصے پہ لگے ماس سے اس نے کچھ محسوس کیا کہ بہت کچھ بدل چکا ہے اب اپنے دیس واپس چلے جانا چاہیے ۔اس نے یہ خبر فورا سوسی کو سنانا چاہی ۔وہ بھی اب خاصی مضبوط ہو چکی تھی ۔اب اسے ڈر بھی نہی لگتا تھا ۔سارا دن کھلے پانیوں پہ اڑتی ، اٹھکیلیاں کرتی اور مچھلیاں پکڑتی رہتی۔ وہ بھی اپنے بدن میں اس تبدیلی کو محسوس کر رہی تھی۔اب ان دونوں نے بابے کو یہ خوشخبری سنائی ۔ بابے ہم دونوں دو دن بعداپنے دیس لوٹنے والے ہیں۔ بابے ان کی بات پر کچھ نہ بولا ۔للی اور سوسی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔ ” لگتا ہے بابے آپ کو ہمارے جانے کی خوشی نہیں ہوئ ؟۔ پتر! ” کسی کے جانے سے خوشی تھوڑی ہی ہوتی ہے۔ ایسا کرو تم لوگ واپس نہ جاءو “۔

نہیں بابے، ہم اپنے دیس واپس جانا چاہتے ہیں ۔

پتر! اتنی دور کیسے جاؤگے ؟

کوئ مشکل نہیں بابے۔ للی کی آنکھوں میں خوشی کی چمک نظر آ رہی تھی ۔ بابے ہم بہت جلد ہمالیہ اور قراقرم کی بلندیوں کو عبور کرتے ہوئے واپس بیکال چلے جائیں گے ۔

اچھا تو اگلے سال آؤ گے ناں۔

بابے ہم اگلے سال چین کے دریا ژانگ ژی جائیں گے۔ سنا ہے کہ وہاں بہت کھلے پانی اور پروٹین ہے۔

یعنی تم سندھ ساغر نہیں آؤ گے ۔

بابے سندھ ساغر بہت کھلے دل والا ہے مگر یہاں کے لوگ بہت ظالم ہیں ۔ایک پل کی تفریح کے لئے خوبصورت پرندوں کو مار کر ڈھیر لگا دیتے ہیں ۔بابے ہماری نسل پہلے ہی اس دنیا سے ختم ہونے والی ہے ۔ آپ اپنے لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ ایسا نہ کریں ، ” خوبصورت پرندے دھرتی کا حسن ہوتے ہیں ۔ان کو مت ماریں “۔ یہ کہتے ہوئے للی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

بابے للی کی باتیں سن کر شرمندہ اور پریشان ہو گیا۔

ٹھیک ہے پتر! تم ٹھیک کہتے ہو ۔

” بابے آپ پریشان نہ ہوں ۔آپ بہت اچھے ہیں ۔آپ کے سندھ ساغر نے ہمارا بہت خیال رکھا ہے ۔اس کے لیے آپ کا بہت شکریہ ۔بس آپ ہمیں جانے کی اجازت دیں” ۔

بہت وقت گزر گیا۔ ملجگی تاریکی میں دیکھنے کو تو بہت کچھ تھا ،مگر بابے کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ بابے ان دو بیچارے پرندوں کی باتیں سن کر ٹوٹ سا گیا تھا ۔

اب موسم خاصا تبدیل ہو چکا تھا۔ پانی کی روانی میں  خاصی تیزی آ گئ تھی مگر پرندوں کے غول اب خاصے کم ہو چکے تھے  ۔

پھر یوں ہوا کہ کئ دنوں تک خوبصورت پرندوں کے غول ہمالیہ اور قراقرم کی وادیوں میں اترتے دیکھے گئے ۔جو سر شام وادیوں میں  اترتے اور اگلے دن پو پھوٹتے ہی  اڑ جاتے۔ وہ دھوپ کی تیزی سے پہلے  ان عظیم چوٹیوں کو پار کر لیتے تھے کہ انھیں ایک لمبی مسافت طے کرنا تھی ۔

بابے کے جسم میں اب وہ طاقت نہ رہی تھی،گرمی اور بہت سے مہاجر پرندوں کے چلے جانے سے بابے بھی خاصا بد دل سا ہو چکا تھا ۔ وہ سارا دن ایک جگہ پڑا ان پرندوں کا منتظر رہتا تھا، جو اس دھرتی و پانیوں کا حسن تھے۔ جانے کتنی دیر تک بابے بے سدھ پڑا رہا ، شاید وہ سو رہا تھا۔ اس نے منہ کھولنا چاہا تو لگا کہ اس کا تالو سوکھ چکا ہے ۔اس کے پاؤں میں گرم بھوبل اور ٹھیکریاں تھیں ۔ اس سے تیرنا تو کیا چلا بھی نہیں جا رہا تھا ۔ اسے  دھوپ کی حدت و شدت اور گرم ہوا کے تھپیڑوں نے آدھ مو ا کر دیا تھا ۔ وہ منتظر رہا خوبصورت پرندوں اور مقدس پانیوں کا۔۔۔۔۔۔

مگر انہوں نے  آنا تھا اور نہ وہ آئے۔

      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact