فرح ناز فرح

کراچی پاکستان

(مصنفہ، شاعرہ)

  کتاب  : عشقم  (شاعری)

سن اشاعت: اکتوبر 2022  صفحات : 144 قیمت : پاکستان : 600 روپے۔یو کے اور دیگر: پانچ پاؤنڈ

کسی بھی ادارے کی کارکردگی کا تعلق اس ادارے میں کام کرنے والی ٹیم سے ہوتا ہے اس کے ارکان اپنے کام سے جتنے زیادہ مخلص ، بے لوث اور محنتی ہوں گے ادارہ اتنا ہی مستحکم اور معیاری ہو گا ۔ پریس فار پیس فاؤنڈیشن  یو کے ایک ایسے ہی ادارے کا نام ہے ، میرے پہلے شعری مجموعے“ عشقم “ کی کامیابی صرف اس کی شاعری نہیں بلکہ بے ساختہ اپنی طرف توجہ مبذول کرانے والا سرورق بھی ہے ، کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی بے ساختہ اسے کھولنے پر ابرار گردیزی صاحب کی مہارتِ فن نمایاں ہو نے لگتی ہے صفحات کی کوالٹی ، عمدہ پرنٹنگ اور اغلاط سے پاک طباعت نے اس کتاب کو چار چاند لگادیے ۔

ظفر اقبال صاحب کی شفیق اور ادب نواز شخصیت نے قدم قدم پر رہنمائی کی ،  ادارے کی مدیرہ بشری حزیں کی معاونت کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اسی طرح ادارتی ٹیم کے باقی اراکین نے اس کتاب کو میرے ایک خواب کی حسین تعبیر بنادیا ۔

کتاب کی اشاعت کے بعد اس کو قاری تک کس طرح پہنچایا جائے یہ ایک غور طلب مسئلہ تھا اس کا بیڑہ بھی  پریس فارپیس فاؤنڈیشن  کی  نے اٹھایا اور کتاب کی تشہیر  اور فروخت کے لئے اپنا پلیٹ فارم دیا ،کبھی ویب سائٹ پر اور کبھی ادارے کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر   کلام کے پرکشش  بینرز اور پوسٹرز لگا کر ، تبصرے سجا کر تحریر کو معتبر بنادیا ، ا ب اس ادارے سے تعلق ایسا بن چکا ہے کہ یہ میرا  اپنا ادارہ بن چکا ہے۔  ان شاء اللہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام اور تصانیف قاری تک پہنچتی رہیں گی ۔ان شاء اللہ۔

فوزیہ ردا

(شاعرہ  ،مصنفہ)  کولکاتا ، بنگال ( انڈیا)

کتاب : سپتک (شاعری)

اشاعت : اگست 2022

صفحات : 135

قیمت : یو کے اور دیگر : 3 پاؤنڈ

میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ   پریس فار پیس فاؤنڈیشن  جیسا عالمی اشاعتی ادارہ میرا  شعری مجموعہ  شائع کرے گا۔ اگرچہ میری پہلے بھی دو کتب شائع ہو چکی ہیں لیکن پریس فار پیس فاؤنڈیشن   یو کے کے زیر اہتمام شائع ہونے والی میری کتاب  “سپتک” نے مجھے ایک نئی ادبی شناخت دی ہے۔ میرے قارئین اور حلقہ احباب نے اس کتاب  میں شامل  کلام کے علاوہ  کتاب کے سرورق، کاغذ،  شہکار تزہین اور آرائش غرض کتاب کے ہر پہلو کو بہت فراخ دلی سے سراہاہے۔ میں  پریس فارپیس  فاؤنڈیشن کی ادارتی اور مارکیٹنگ ٹیم کی دل کی گہرائیوں سے ممنون ہوں۔

آپا قانتہ رابعہ

مصنفہ ، افسانہ و کہانی کار ، گوجرہ (پنجاب ) پاکستان

کتاب: سارے دوست ہیں پیارے  (بچوں کی کہانیاں اور  ورک بک)

اشاعت : اکتوبر 2022

صفحات : 48

قیمت : پاکستان: تین سو روپے، یو کے اور دیگر : پانچ پاؤنڈ

لے آؤٹ: آرٹ پیپر/رنگین چھپائی

 الحمد للّٰہ چھے سات کتب کے مطالعہ کا موقعہ ملا اور میری خوش نصیبی ہے کہ میری ایک کتاب بھی  پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے تحت شائع ہو چکی ہے ۔اب تک میری پینتیس سے چالیس کتب مختلف پبلشرز نے شائع کی ہیں گو میرے ساتھ کسی نے بھی برا نہیں کیا لیکن جس کام پر دل مطمئن ہو وہ کام صرف ،ادبیات ،سے ملاتھا اس کے بعد جب پریس فار پیس والوں سے رابطہ ہوا بچوں کی کتاب کا معاملہ زیرِ بحث آیا تو یوں سمجھیں جیسے میری انگلی کسی غیبی طاقت نے پکڑ لی ہر کام اپنی سوچ اور خیال سے زیادہ بہتر طور پر ہوتا چلا گیا۔ بہترین کارکردگی کے لیے اسوہ حسنہ میں مشاورت کو سر فہرست قرآر دیا گیا ہے۔ یہاں ہر کام مشاورت سے ہوا جو تجاویز دی گئیں ان کو یک جنبش قلم رد کرنے کی بجائے ان کو بہت توجہ سے سنا گیا جو قابل قبول تھیں ان پر عمل بھی ہوا وگرنہ صفحات اچھے تو کمپوزنگ ماٹھی اور اگر کمپوزنگ بھی اچھی ہے تو سرورق بھدا سرورق اچھا ہے تو رنگوں کے استعمال ۔میں  جمالیاتی پہلو پیچھے دھکیل دیا گیا
یہاں کام کا معیار عمدہ ہے کیونکہ میرے خیال میں ان کی نیت بہت اچھی ہے ۔جہاں  مقصد صرف کمانا اور نفع نقصان کو سامنے رکھا جائے گا وہاں کتاب تو مل جائے گی لیکن قاری کے لیے خوبصورت ترین کتاب نہیں تیار ہوگی
بے شک یہ سب ٹیم ورک سے ہی ممکن ہے ایک اکیلا اور دو گیارہ ۔الحمد للّٰہ مجھے ادبیات کے ساتھ ایک اور معیاری ادارہ اپنی زندگی میں ملا جس نے یہ خوبصورت احساس پیدا کیا کہ سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، سارے پبلشر ایک ہی طرح کے نہیں ہوتے۔ کچھ بہت منفرد کام کرنے والے ہوتے ہیں اور بالآخر سب  کے لیے مثال بن جاتے ہیں

پروفیسر محمد  ایاز کیانی

مصنف ، کالم و تبصرہ نگار ، راولاکوٹ آزاد جموں و کشمیر

کتاب کا نام : تماشائے اہل کرم (سفر نامہ)

اشاعت : جون 2022

صفحات: 144

قیمت : پاکستان : پانچ سو روپے، یو کے اور دیگر: پانچ پاؤنڈ

میری پہلی تصنیف تماشائے اہل کرم کی اشاعت میں تعاون اور رہنمائی پر پریس فار پیس کی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں۔

ماشاء اللہ مختصر مدت میں دو درجن سے زائد کتب کی اشاعت آپ کے ادارے اور آپ کے معاونین کا بڑا کارنامہ ہے۔۔اللہ کرے کہ یہ نان پرافیٹگ ادارہ علم و ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا کام یونہی تندہی لگن اور شوق سے کرتا رہے۔۔سب متعلقین کو مبارک

————

امانت علی

مصنف، لیکچرر  المجمہ یونیورسٹی، سعودی عرب

کتاب : انجانی راہوں کا مسافر (سفر نامہ )

سن اشاعت : جولائی  2022

صفحات: 132

قیمت : پاکستان :  600روپے ، یو کے اور دیگر: پانچ پاؤنڈ

میری پہلی کتاب  ” انجانی راہوں کا مسافر” پریس فار پیس نے شائع کی اور نہایت متاثر کن انداز میں کتاب کی ترسیل بھی کی گئی۔ نوجوان لکھنے والوں نے بڑی تعداد میں کتاب پر تبصرے لکھے  جس سے ادبی حلقوں میں میری پہلی تصنیف کو پزیرائی ملی ہے۔ مصنفین کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی  کرنے پر  اشاعتی ادارے  کی تمام ٹیم  مبارک باد اور شکریے کی مستحق ہے۔

Shahid Hussain Mir

Author, Research Scholar (Islamabad) Pakistan

Book:  What Life Says (collection of quotes) Year of Publication:   November 2022

Pages: 96 Price: Pakistan: Rs.600.00, UK and others: £ 5.00

It was a wonderful experience of publishing my first book “What life says” with Press for Peace Foundation UK. Press for Peace Foundation UK provided their best assistance, guidance, and support throughout the process of publication of my book. They designed the book cover page to appeal to the readers and provided the best quality paper and design. They also helped me to write book reviews from renowned editors and reviewers. I really appreciate their advertisement and marketing strategies for my book which earned me many readers and followers. I appreciate and acknowledge their support and services for young literary writers in Pakistan and Asia.

کرن عباس کرن

مصنفہ، ناول نگار،   (مظفر آباد ) آزاد جموں و کشمیر

 

کتاب کا نام: دھندلے عکس  (ناول)

سن اشاعت : اکتوبر 2022

صفحات: 132

قیمت : پاکستان : 500 روپے۔یو کے اور دیگر: پانچ پاؤنڈ

 
 

کسی بھی کتاب کی

کامیابی کا انحصار جہاں ادیب کے قلم پر ہوتا ہے وہیں پبلشر بھی ہوتا ہے۔ اچھا بپلیشنگ ہاؤس مل جانا ادیب کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔   ’’گونگے خیالات کا ماتم‘‘ کی اشاعت اور تجربے کے بعد ’’دھندلے عکس‘‘ کی اشاعت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ کب کہاں سے ناول کو کتابی صورت دینی ہے؟۔ اسی دوران پریس فار پیس کی کئی کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی تھی۔ پریس فار پیس کی ادب کے سلسلے میں بےلوث اور بے غرض محنت کو دیکھتے ہوئے کتاب کا مسودہ ان کے حوالے کیا۔ میری کوشش تھی کہ ناول میں کوئی غلطی نہ رہے کہ بسا اوقات بلکہ بیشتر پبلشر زکسی ایک فردسے پروف خوانی کروا کر اسے ایڈیشن کا نام دے دیتے ہیں باوجود اس کے  کہ کمپوزنگ کی کئی غلطیاں کتاب سے جھلکتی رہتی ہیں جو پڑھنے والوں پر بہت گراں گزرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اغلاط سے پاک شائع شدہ ادب کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسودہ حوالے کرتے میں سمجھ رہی تھی کہ بس مسودہ حوالے کرتے ہی ایک ایگریمنٹ سائن کرنا ہے اور بس چند دن میں ہی کتاب شائع ہو جائے گی اور پھر مصنف جانے کتاب جانے (جیسے اکثر دیکھنے میں آتا ہے)، لیکن مجھے کافی حیرت ہوئی کہ یہ ادارہ عام ادارے کے برعکس کام کر رہا ہے، چونکہ یہ ایک فلاحی ادارہ بھی ہے اور ادب اور اہل ادب کی فلاح کے لیے بےغرض کام کر رہا ہے تو ایک الگ ہی ماحول دیکھنے کو ملا۔ ادارے کا مقصد محض کتابوں کی اشاعت ہی نظر نہیں آیا بلکہ ایک عمدہ ادب کی ترویج اور نئے مصنفین کو متعارف کروانے کے سلسلے میں بھی  انتھک اور بے لوث محنت دیکھنے کو ملی۔ کتاب پر تبصرے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی ادیبوں سے بھی لیے گئے کہ ادب کے افق پر طلوع ہوتے نئے مصنفین کو اپنی کتاب کو متعارف کروانے میں زیادہ دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حتیٰ کے کتاب کی  رونمائی کے لیے کی جانے والے انتظامات اور کوششیں، مصنفین سے تعاون غرض سب کچھ بہترین اور غیر متوقع نظر آیا۔  کتابیں پرنٹنگ کے بعد مکمل طور پر مصنف کے حوالے  کی جاتی ہیں لیکن بغیر کسی مفاد کے تشہیر کا کام ادارہ خود کرتا ہے۔
کتاب پر تبصروں سے لے کر کئی کئی مرتبہ پروف خوانی ہو یا کتاب کی ڈیزائنگ یا اشاعت سے متعلق دیگر امور، ایک عمدہ اور محنتی ٹیم محوِ عمل نظر آئی۔
اگرچہ تمام کام ادارہ بذات خود گہری دلچسپی لے کر سرانجام دے رہا تھا، لیکن اس کے باوجود ایک ایک عمل کے بارے میں مصنف کو بھی ساتھ ساتھ آگاہ رکھا جاتا ہے اور اس کی رائے لی جاتی ہے۔
کتاب کے مسودہ کی کئی مرتبہ پروف خوانی کے دوران ادنیٰ سی ادنیٰ غلطی کو بھی دور کیا گیا۔ جب کتاب پرنٹنگ پریس جا چکی تھی  تو مجھے ایک ڈیش کی غلطی سی محسوس ہوئی۔ جس کا میں نے تذکرہ کیا تو اس نظر انداز کیے جانے کے لائق غلطی کو پریس میں جانے کے بعد بھی درست کروایا گیا۔
فلاحی امور سے لے کر ادبی خدمات تک، بانی پریس فار پیس، درویش صفت انسان ظفر اقبال صاحب کی کوششیں لائقِ تحسین اور انتہائی سراہے جانے کے قابل ہیں جو پس منظر رہ کر بہت منظم انداز میں ادارے کے باقی امور کے ساتھ ساتھ ادب کے فروغ کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ کتاب کی اشاعت میں ان کی لی گئی ذاتی دلچسپی، رہنمائی، ہمہ وقت اور بےلوث تعاون کے لیے ہمیشہ مشکور و ممنون رہوں گی۔
مختصراً یہ ہے کہ پریس فار پیس سے کتاب شائع کروانے کا تجربہ نہایت شاندار، مختلف اور بہترین رہا ہے۔ ادارے سے بطور مصنف منسلک ہونے پر فخر ہے۔
ادارہ پریس فار پیس اور اس کی تمام ٹیم کے لیے نیک خواہشات اور کامیابیوں کے لیے بےشمار دعائیں۔

مظہر اقبال مظہر

مصنف، محقق، لندن (یوکے)

کتاب : بہاول پور میں اجنبی

سن اشاعت : دسمبر  2021

صفحات : 120

قیمت: پاکستان : 500 روپے، یو کے اور دیگر : 10پاؤنڈ

نصرت نسیم

(مصنفہ، ادیبہ، ماہر تعلیم) رسالپور (کوہاٹ) پاکستان

کتاب : بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں (  خودنوشت )

سن اشاعت : دسمبر 2021

صفحات : 280

قیمت : پاکستان: 800 روپے،  یو کے اور دیگر: دس پاؤنڈ

 

 

یہ 2021 کی بات ہےکہ تسنیم جعفری کے حوالے سے پریس فار پیس فاونڈیشن نے ایک تحریری مقابلہ کروایا۔جس میں میری تحریر کو تیسرا انعام ملا۔ایوارڈ کی تقریب پنڈی آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی اور پریس فار پیس فاونڈیشن کے ڈائریکٹر ظفر اقبال صاحب سے فون پر بات چیت ہونے لگی۔مجھے ان کے فلاحی ورفاعی کاموں نے متاثر کیا۔ساتھ ہی ان کابہت مشفقانہ اور برادرانہ انداز اچھا لگا۔مجھے بہت احترام سے کبھی آپا کہنا اور کبھی بہت عزت سے ماں کے درجے پر فائز کرنا، یہ دونوں رشتے بہت تقدس اور احترام رکھتے ہیں۔جو انہوں نے مجھے دیا۔
میں اپنی خود نوشت” بیتے ہوے کچھ دن ایسے ہیں “کی نوک پلک درست کر رہی تھی۔تو ظفر اقبال صاحب اولین کتاب “بہاولپور میں اجنبی ” کی پروف ریڈنگ میں مصروف تھے۔
میں نے اپنا مسودہ انہیں دکھایا تو انہیں میرا مسودہ پسند آیا اور مجھے ان کی تجاویز اچھی لگیں۔یوں میں نے ان کی شخصیت اور کام پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا۔اور اپنا مسودہ ان کے حوالے کر دیا۔(یاد رہے کہ “بہاولپور میں اجنبی ابھی منصہءشہودپرنہیں آئی تھی)
ان کی ژرف نگاہی اور عمیق نظری سے مسودے کی مزید نوک پلک سنواری۔
انہوں نے میری کتاب کی ڈیزائنگ ابرار گردیزی صاحب سے کروائی۔جو ان کی طرف سے برادرانہ تحفہ اور پر خلوص تعاون تھا۔خوش قسمتی سے ان دنوں یونیورسٹی سے انہوں نے چھٹی لے رکھی تھی۔لہذا بیشتر وقت انہوں نے مسودے کی پروف ریڈنگ کو دیا۔
ابرار گردیزی صاحب نے بہت اچھی ڈیزائنگ کی۔جس کی سب نے تعریف کی۔بلاشبہ ان کا ایک منفرد انداز ہے۔ٹائٹل میری اصل تصویر کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا۔ابرار گردیزی صاحب کا کہنا تھا۔کہ جلدی نہ کریں تو ڈیزائنگ اور بھی بہتر ہو سکتی ہے۔مگر میرا اصرار تھا۔کہ کتاب دسمبر میں آجاے۔اس کے لئے رات رات بھر جاگ کر ترمیم، اضافے اور پروف ریڈنگ کرتی رہی۔میرے ساتھ ظفر بھائی بھی مستقل مصروف اور رابطے میں رہے۔ مسودے کو حتمی شکل دینے میں کئ مشکل مقامات آئے۔
یونی کوڈ، ان پیج، کورل ڈرا، سر چکرا کر رہ گیا۔ایسے میں میری پہلی کتاب کے پبلشر جنہیں میں برادر خورد کہتی ہوں۔مدد کو آئےاور انہوں نے تمام تکنیکی مسائل کو بہت مہارت سے سلجھا کر فائنل مسودہ پروف ریڈنگ کے لیے بھیجا۔یہاں میں اپنی عزیز اور ہونہار شاگرد صبا اسلم کی محنت اور پروف ریڈنگ کی تعریف وتوصیف نہ کروں تو زیادتی ہوگی۔کہ ساری ساری رات جاگ کر فائنل مسودے کی نہ صرف پروف ریڈنگ کی۔بلکہ ایک ایسی فاش غلطی پکڑی۔جو ہم سب کی نگاہ سے اوجھل رہی۔  مسودے میں  کچھ صفحات میں ڈبلنگ تھی۔اور ان کی جگہ لگنے والے صفحات غائب تھے۔صبا کی نشان دہی پر اس خامی کو دور کیا گیا۔فضل ربی راہی صاحب اور ظفر اقبال صاحب نے صبا کی بہت تعریف کی۔میں نے صبا کا شکریہ
اور اللہ کا شکر ادا کیا۔کہ اگر اس طرح کتاب چھپ جاتی تو۔۔
پھر تو مزید دو تین دفعہ مسودے کو پڑھا۔آخری مراحل میں فضل ربی راہی صاحب نے بھی بہت وقت دیا اور محنت کی۔یوں دسمبر میں مسودہ پریس چلا گیا۔اور الحمدللہ کہ وعدے کے مطابق کتاب بہت جلد طباعت کے مرحلے سے گزر کر ہمارے ہاتھ آئے۔

دوستو  !لکھنے کے لیے تو خون جگر صرف کرنا پڑتا ہےمگر مسودے کو کتابی شکل میں لانے کے لیے دوچار کیا بہت سے مشکل مقام آتے ہیں۔( ستم بالاے ستم یہ کہ پھر یہ کتاب مفت تقسیم بھی کرنی پڑتی ہے )
خیر جب نئے سال کے آغاز پر خوش رنگ کتاب ہاتھ میں آئی تو گویا ساری تھکن جاتی رہی۔اس اولین کتاب کی پریس فار پیس فاونڈیشن یوکے نے بھی بھر پور پذیرائی کی۔خود نوشت کو اہل فکر ونظر کے علاوہ عام وخاص نے سراہا۔
سعود عثمانی صاحب نے اسے سرحد کی کسی خاتون کی اولین خود نوشت قرار دیا۔جس میں اپنی تہذیب وثقافت کو اتنے عمدہ اسلوب میں بیان کیا گیا ہو۔انہوں نے اپنے طویل تبصرے کو روزنامہ دنیا میں اپنے پورے کالم میں چھاپا۔محترم ناصر علی سید صاحب نے روزنامہ آج کے ادب سراے میں مفصل تبصرہ تحریر کیا۔سید ابرار حسین، کہنہ مشق صحافی جبار مرزا صاحب نے اپنے تبصرے میں سراہا۔برادر مظہر اقبال صاحب نے بہت عمدہ تبصرہ کیا۔اور کتاب میں موجود صفدر ہمدانی، ثروت رضوی، شجاعت علی راہی، ناصر علی سید، سعود عثمانی کے تبصروں کی بہت عمدہ آڈیو ویڈیو بنائی۔یہ ایک نیا اور خوبصورت انداز تھا۔جسے مظہر بھائی کی مدھر، سریلی اور شائستہ آواز نے خوبصورت تر بنایا۔جو دل کو بھایا اور دل سے دعائیں نکلیں۔
کتاب کی تشہیری مہم زبردست رہی۔کتاب کو ایما زون پر بھی ڈالا گیا۔عالمی افسانہ فورم کے ایڈمن اور بہترین لکھاری میر وسیم نے کوریا کتاب منگوائی اور عالمی افسانہ فورم پر بہترین تبصرہ تحریر کیا۔بش احمد بھی عالمی افسانہ فورم کے منفرد لکھاری ہیں۔انہیں آسٹریلیا کتاب بھجوائی گئ۔انہوں نے جو تبصرہ کیا۔اس کی پہلی قسط ہی خاصے کی چیز ہے۔دوبئی ، یوکے، امریکہ کئ ممالک میں  پریس فار پیس ٹیم کی کوشش سے کتاب دوستوں تک کتاب پہنچائی  گئ۔  پروفیسر وجاہت گردیزی، عائشہ اکبر، نیلم علی راجہ اور خاص طور پر قانتہ رابعہ کے تبصرے بہت جاندار اور میعاری تھے۔نسیم سحر مشہور ومعروف شاعر، ادیب اور نقاد ہیں۔انہوں نے بیتے ہوے کچھ دن ایسے ہیں پر مفصل

تقریظ لکھی۔اور پاکستان اخبار میں چھپوائی۔اس دفعہ کے موقر ادبی جریدے” تخلیق ”   میں بھی اس تبصرے

کو شائع کرایا۔
یہ اللہ کا خاص فضل وکرم رہاکہ میری توقع سے کہیں زیادہ اس کتاب کو عام وخاص نے سراہا۔
مشرف مبشر ہری پور کالج کی پرنسپل رہی ہیں۔انہوں نے کتاب لیتے ہوئے کہا۔میں عام زندگی میں بہت نرم خو جب کہ نمبر دینے میں بہت سخت ہوں۔تنقید کروں تو خفا مت ہونا۔مگر جب انہوں نے دس صفحات پر مشتمل اپناتحریر کردہ تبصرہ مجھے دیا۔تو خوشی وحیرت نے آن لیا۔کہ انہوں نے میری لکھی ہوئی ہر بات کی تصدیق، تائید اور توصیف کی۔وہ  خود تین سفر ناموں کے علاوہ کئ کتابوں کی مصنفہ اوراستاد الاساتذہ ہیں۔
اللہ سبحان وتعالی کے فضل وکرم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہےکہ مالک لوح وقلم نے لکھنے کی، کتاب لانے کی توفیق عطا کی۔اور مجھ ناچیز کے لکھے کو پذیرائی بخشی۔ہاں ایک اہم بات کاذکر کرنا توبھول ہی گئ کہ کے پی کا سرکاری سطح پر سب سے بڑا اباسین ادبی ایوارڈ براے نثر اس کتاب کوملا ۔ایک پروقار تقریب میں دس ہزار نقد،سرٹیفیکیٹ اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یہ ایوارڈ صرف میرا نہیں۔پریس فار پیس فاونڈیشن یوکے کابھی ایوارڈ اور اعزاز ہےکہ ادارے کے تعاون اور ذوق لطیف سے ایک خوش رنگ کتاب سامنے  آئی جس کی سب نے تعریف کی۔بلاشبہ ان کی محنت قابل تحسین ہے اور میں دل کی گہرائیوں سےمشفق ومکرم ظفر اقبال صاحب اور مظہر اقبال صاحب کی مشکور ہوں اور دعا گو بھی کہ ان کی پر خلوص کاوشیں بارآور ہوں۔فلاحی ورفاعی ادارے اور اشاعتی ادارے کے طور پر پریس فار پیس فاونڈیشن یوکے سرفراز اور کامیاب وکامران رہے۔

تسنیم جعفری

کہانی اور ناول نگار ، سائنسی فکشن رائٹر،   (لاہور) پاکستان

تسنیم جعفری کی کتب

زمین اداس ہے (مرتبہ ) 2022 کتاب: صفحات: 128

اشاعت: ستمبر 2022

قیمت: پاکستان: چار سو روپے، یو کے اور دیگر: پانچ پاؤنڈ

A Galaxy from Other Moon (Science Fiction Novel) 2022

سائنسی جنگل کہانی  (مارچ 2022)

معظمہ نقوی
ڈی۔ جی ۔ خان (پاکستان)
شاعرہ، مصنفہ

کتا  ب: آخری بارش
اگست 2023، قیمت : 1200 روپے، 8 پاؤنڈ

کتاب  کا لفظ اپنے اندر وسیع معانی رکھتا ہے ۔ ایک کتاب کا مواد بھی اُس وقت تک کسی کو اپنی معنویت نہیں سمجھا سکتا۔ جب تک اس کی کتابت کسی منظم طریق سے نہ کی گئ ہو۔ یہ مرحلہ کتاب لکھنے سے زیادہ کٹھن ہوتا ہے۔ اس کا مکمل انحصار ادارہ کے بہتر ین  اور منظم کام کے باعث ہی ممکن ہے۔ اور ادارے کی کامیابی اپنے مخلص کارکنان کی محنت کا ثمر ہوتی ہے ۔” پریس فار پیس ” کا اشاعتی ادارہ گو نشر واشاعت کے میدان میں پرانے اداروں کی نسبت نو مولود ہے مگر اس کے کام اور محنت کی شہرہ پوری دنیا میں ہو رہی ہے اور یہ اپنے بہترین کام کی وجہ سے صف ِ اول کے اداروں میں آ چکا ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ اس کے سرپرست ِ اعلی نہایت ہی مخلص و ادب پرست شخصیت جناب ظفر اقبال صاحب کو جاتا ہے ۔ جو ہر لکھاری کے کام کو اپنا کام سمجھ کر کرتے ہیں اور اس میں کسی بھی  زیر زبر کی غلطی نہیں ہونے دیتے ۔ اس تمام عمل میں ان کے دست و بازو یعنی  انکی پوری ٹیم  کی محنت شامل ہو تی ہے ۔  “آخری بارش” میری کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک خوب صورت کڑی ہے۔ ” آخری بارش” کی خوب صورت کتابت کروانا میرا بچپن کا خواب تھا۔ جس کو پریس فار پیس    پبلی کیشنز نےشرمندہ تعبیر کیا ہے۔ اور میری توقعات سے بڑ ھ کر اس کتاب کا سرورق اور کتابت کی ڈائزئنگ   دلکش ہوئی ہے ۔ جس پر اس کتاب کو ملکی و غیر ملکی ادبی حلقوں  و معتبر ادبی شخصیات کی جانب سے داد وتحسین سے نوازا جا رہا ہے ۔ اور اس کی مقبولیت میں کتابت کی تعریف سرِ فہرست ہے۔  میں ادارے کے کامیاب مستقبل کے لیے پُر امید ہوں ۔ دعا گو ہوں کہ ادب اور کتاب سے ُجڑا یہ رشتہ تاابد قائم و دائم رہے۔

 
     پروفیسر خالد بزمی/ عافیہ بزمی
“جبین نیاز” (حمدیہ نعتیہ مجموعہ) اشاعت: نومبر 2023     تاثرات: عافیہ بزمی   

جبین نیاز

میرے مرحوم والد پروفیسر خالد بزمی کا حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ ہے جو پریس فار پیس فاؤنڈیشن کے تعاون سے اشاعت کے مراحل طے کرتے منظر عام پر أیا ہے ۔
والد محترم کی ناگہانی وفات کی وجہ سے ان کا بہت سا کلام شائع ہونے سے رہ گیا تھا ۔ میں عرصۀ دراز سے ان کا لکھا کلام شائع کروانا چاہ رہی تھی ۔ اسی سلسلے میں ان کا ایک نعتیہ مجموعہ پہلے ہی شائع کروا چکی ہوں، 
اب مجھے تلاش تھی کسی ایسے پبلشر کی جو والد محترم کے مجموعات کو ذاتی دلچسپی لے کر شاندار طریقے سے شائع کرے ۔
اس سلسلے میں بہت سے لوکل پبلشرز کے ساتھ رابطہ بھی کیا  لیکن کہیں بھی دل مطمین نہیں ہو رہا تھا ۔
والد محترم کا علمی و ادبی دنیا میں جو مقام اور مرتبہ تھا میں ان کی کتاب کی اشاعت بھی اتنی ہی شاندار طریقے سے چاہتی تھی ۔
دوسرا میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں بار بار پبلشر کے پاس چکر نہیں لگا سکتی تھی ۔ ایک تو میری رہائش اردو بازار سے کافی دور ہے دوسرے ایک دو پلشرز کے برے تجربے نے مجھے دوبارہ اس جھنجھٹ میں پڑنے سے دور رکھا ۔
البتہ والد صاحب کی کتابوں کو شائع کروانے کا عزم اپنی جگہ تھا ۔
جب  آپ کے جذبے سچے اور لگن پکی ہو تو وسیلے رب کی ذات خود بناتی ہے  ۔ میں اسی کشمکش میں تھی کہ یہ سب کیسے شائع ہو گا کہ ایک دن مجھے پریس کے ایک رضا کار کا انبکس آیا کہ محترمہ کیا آپ خود بھی لکھتی ہیں اور کیا أپ کی کوئی کتاب شائع ہو چکی ہے یاآپ شائع کروانا چاہتی ہیں تو ان نمبرز پر رابطہ کر سکتی ہیں،
جب نمبر دیکھے تو انگلینڈ کے نمبر دیکھے تو ایک بار پھر دل نے کہا کہ یہاں بیٹھے پبلشرز سے میں مطمئن نہیں ہو رہی تو یہ تو اتنی دور ہیں ۔
کچھ قریبی دوستوں سے مشورہ کیا تو ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ اتنی دور ، نا تیری جان نا پہچان  پھر کیسے ہو گا یہ سب ۔
خیر میں نے سوچا کہ یہاں بھی نہیں تو اب کسی اور سے بات کرتی ہوں ۔
ایک دن یوں ہی بیٹھے بیٹھے میں نے رضاکار کے دئے  گئے نمبر پر رابطہ کیا اور اپنا مدعا بیان کیا ۔
بدلے میں میری توقع سے زیادہ مثبت رویہ دیکھنے کو ملا ۔
میری بات جن صاحب سے ہو رہی تھی ۔ تھوڑا سا اطمینان ہوا ۔
سب سے بڑی بات مجھے ان کو پی ڈی ایف کے ذریعے مسودہ بھجوانا تھا یعنی والد محترم کے ہاتھ کا لکھا سند کے طور پر میرے پاس ہی رہنا تھا ۔ یہ سب سے اچھی بات تھی کیونکہ ماضی میں ایک پبلشر کو میں نے مسودہ دے دیا تھا اور بعد میں وہ ٹال مٹول کرتا رہا ۔ وہاں سے میں نے بہت تگ و دو کے بعد وہ مسودہ واپس اٹھایا تھا ۔
پھر کہوں گی کہ وسیلے اللہ کی ذات خود بناتی ہے ۔ میں نے بیٹے کو پی ڈی ایف بنانے کا کہا اور خاموشی سے کسی کو بتاۓ بغیر ظفر صاحب کو مسودہ بھجوا دیا ۔
یہ بات میرے اور میرے بیٹے کے درمیان تھی ۔ میں نے اسے کہا کہ دیکھتے ہیں کہ چھپ گیا تو سب کو بتا دیں گے نا چھپا تو بات یہیں ختم۔  کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے پی ڈی ایف بھجوایا تھا ۔
دل میں خوف تھا کہ نہ ان کو میں جانتی ہوں اور نا ان تک پہنچ سکتی ہوں ۔
بحرحال جس لگن دلجمعی اور شوق سے پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے اس مسودے کی کمپوزنگ شروع کروائی وہ میرے لیے حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ باعث مسرت بھی تھا
کمپوزنگ شروع ہوئی تو رابطہ ہوا کمپوذر کے ساتھ جو بہت محنت سے کمپوزنگ کے مراحل سے مسودے کو گذار رہے تھے ۔ایک ایک لفظ پر ان کا رابطہ کرنا اور ساتھ ساتھ مجھے گائیڈ کرنا واقعی قابل داد تھا ۔

میری ڈیمانڈ بس یہی تھی کہ ایک ایک لفظ اسی طرح شائع ہو جیسے والد محترم نے لکھا ہوا ہے ۔ والد محترم جیسے بلند پایہ شاعر کا لکھا ایک ایک لفظ میرے لیے بہت قیمتی اور انمول ہے ۔ اس میں مجھے ایک زبر زیر پیش کی تبدیلی بھی قابل قبول نہیں تھی ۔
مشکور ہوں کہ پریس قار پیس فاؤنڈیشن کے بینر تلے چھپنے والی میرے والد محترم کی نایاب کتاب میری ڈیمانڈ اور خواہش کے عین مطابق ہے ۔آج میں شکر گذار ہوں پریس فار پیس کی پوری ٹیم کی۔
فخریہ کہتی ہوں کہ پریس فار پیس فاؤنڈیشن نے جس شاندار طریقے سے سعادت سمجھ کر والد محترم کے مرتبے کے عین مطابق ایک شاہکار حمدیہ مجموعہ شائع کر کے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ۔
آج میں سب کو کہہ رہی ہوں  کہ” جبین نیاز “کی اشاعت کی مجھ سے زیادہ خوشی پریس کی ٹیم کو ہے جنہوں نے اس کی اشاعت کے ہر ہر مرحلے پر مجھے شامل رکھا ۔
میں  شکر گزار ہوں پریس کی اس پوری ٹیم کی جن کی محنت اور لگن کی بدولت والد محترم کی شاندار کتاب  “جبین نیاز”آج مجھ نا چیز کے ہاتھوں میں ہے ۔
مجھے کتاب آج ہی موصول ہوئی تو یہ چند الفاظ لکھنا میں نے اپنا فرض سمجھا ۔آخر میں پریس فار پیس فاؤنڈیشن اور ان کی ٹیم کے لیے ڈھیروں دعائیں کہ اللہ ان سب کو مزید کامیابیاں عطا فرماۓ ۔آمین

مہوش اسد شیخ

ترا عشق بہاروں سا   (ناول)

اکتوبر 22023، قیمت  1400 روپے

محمد مہتاب تابی

کہانی نویس / افسانہ نگار

کانٹوں میں پھول  (افسانے )

شیخ ریاض  (جرمنی)

ریاض نامہ: یادوں کے چراغ (سوانح اور کالم)

اکتوبر  2023،   قیمت  1900  روپے،

ارشد ابرار ارش (راولپنڈی)

ریزگاری  (افسانے)

اکتوبر 2023،  قیمت   روپے 1200

رباب عائشہ  ، مصنفہ ، افسانہ نگار، سنئیر صحافی ، اسلام آباد

سدا بہار چہرے  (خاکے، کالم ، انٹرویوز)

خاک کے آس پاس  (افسانے اور کالم)

لمحوں کی دھول  (خود نوشت)

انتخاب  (ناول) ماہم جاوید (کراچی)


یہ  میرے لیے صرف ایک کتاب نہیں ہے نہ ہی یہ میرے لیے صرف میری پہلی کتاب ہے بلکہ یہ میری زندگی کا وہ اہم حصہ ہے جسے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی، زندگی کے معنی و مفہوم سمجھنا کبھی کبھی بہت مشکل امر بن جاتا ہے لیکن جہاں آپ کو تنہائی میسر ہو وہاں سوچ کے نئے در کھلتے ہیں، یہ کتاب گو کہ ایک فرضی کہانی پر مبنی ہے مگر میں ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں کہ کہانی لکھنے والا اپنی ہر کہانی میں تھوڑا بہت پایا جاتا ہے اور ہر کہانی لکھنے والے میں تھوڑی بہت پائ جاتی ہے،  ہر انسان کا اللّٰہ اسے جڑنے کا سفر مختلف ہوتا ہے کبھی کبھی ہم زندگی کی مشکلوں پر غور کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ تو آئ ہی اس لیے تھی کہ ہمیں ژندگی کا مفہوم بتا سکے، بس یہی سوچتے ہوئے میں ایک کہانی لکھتی چلی گئ جیسا کہ میں کہانی کے شروع میں بھی لکھ چکی ہوں کہ اسے لکھتے وقت میں اس کہانی کے انجام سے بالکل ناواقف تھی مگر پھر کہانی نے کیسے اپنی جگہ بنائی یہ تو بس اللّٰہ ہی جانتا ہے، یہ کتاب میرے لیے اس لیے بھی بہت ضروری ہے کہ اس کتاب کی بدولت میرے نام کے ساتھ لکھاری لکھا جانے لگا اور اس کتاب کو شائع کرنے والے ادارے ” پریس فار پیس فاؤنڈیشن” سے جڑنے کا موقع بھی فراہم ہوا اور پھر میں ایسے لوگوں سے ملی جنہوں نے بتایا کہ آج بھی انسانیت اور اخلاقیات زندہ ہیں جن میں سرِ فہرست نام میم ” فرح ناز” کا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اس کتاب ہی کی بدولت اللّٰہ نے مجھ پر کئ اور بھی بہت بڑی مہربانی کیں جس کا شکر ادا کرتے رہنے  دل چاہتا ہے، انتخاب میری کتاب ہی نہیں میری زندگی سے جڑی کئ چھوٹی بڑی خوشیوں کے ملنے کا ذریعہ ہے اور میری دعا ہے کہ اس کتاب سے ملنے والا پیغام سو نہیں تو کم از کم کسی ایک کی زندگی میں بہتریں بدلاؤ لانے کا ذریعہ بنے آپ سب کی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کو پڑھ کر مجھے عزت بخشی اور اسے سراہا اور بہت ساری دعاؤں کی طالب بھی ہوں کہ آپ سب کی دعاؤں کے نتیجے اللّٰہ کا رحم و کرم عطا ہوا۔
” ماہم جاوید

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact