زخموں سے کہاں لفظوں سے ماری گئی ہوں میں

جیون کے چاک سے یوں اتاری گئی ہوں مَیں

مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ہی تُو ملا

ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں

افسوس مجھ کو اُس نے اتارا ہے گور میں

جس کے لئے فلک سے اُتاری گئی ہوں مَیں

مجھ کو کیا ہے خاک تو پھر خاک بھی اُڑا 

اے عشق تیری راہ میں واری گئی ہوں مَیں

لو آ گئی ہوں ہجر میں مرنے کے واسطے 

اتنے خلوص سے جو پکاری گئی ہوں مَیں

میری صداقتوں پہ تمہیں کیوں نہیں یقین

سَو بار آگ سے بھی گزاری گئی ہوں مَیں

تم جانتے نہیں ہو اذیت کے کیف کو 

ہجرت کے کرب سے تو گزاری گئی ہوں مَیں

مَیں مٹ چکی ہوں اور نمایاں ہوا ہے تُو

مُرشد خمار میں یوں خماری گئی ہوں مَیں

اس وجد میں موجود کہاں ہے مرا وجود

جانے کہاں پہ ساری کی ساری گئی ہوں مَیں

مقتل میں جان دینا تھی پیاروں کے واسطے 

مَیں ہی تھی ان کو جان سے پیاری گئی ہوں مَیں

یہ قرضِ عشق مَیں نے چکانا تھا اس لئے 

شاہین اپنی جان سے واری گئی ہوں مَیں

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact