فضل ربی راہیؔ
فضل ربی راہی سوات کے علمی و ادبی اور صحافتی حلقوں میں ایک بڑا نام ہے۔ انھوں نے بہ یک وقت ایک ادیب، شاعر، صحافی اور ناشر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ہے۔ راہی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی سے بچوں کے رسائل میں لکھنے سے کیا۔ پھر انھوں نے سوات کی تاریخ اور سیاحت پر قلم اٹھایا اور ان کے سیاحتی اور تاریخی مضامین ملک کے قومی اخبارات و جرائد کی زینت بننے لگے۔ سوات کی تاریخ و سیاحت اور حالیہ شورش پر ان کی پانچ کتابیں ’’سوات تاریخ کے آئینے میں‘‘، ’’سوات، سیاحوں کی جنت‘‘، ’’ریاستِ سوات، تاریخ کا ایک ورق‘‘، ’’اور سوات جلتا رہا!‘‘ اور ’’وادئ سوات میں جو ہم پہ گزری‘‘ (سوات میں طالبانی اور عسکری محاصرے کی روداد) شائع ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ’’وادئ مینگورہ (مسائل، حل اور تجاویز)‘‘منزل بہ منزل (یورپ اور دوبئ کے سفرنامے) ۔ تین کتابیں انھوں نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہیں:
تبسم مجید کی کتاب ’’سوات میں شورش‘‘ تنازعے کا تصفیہ اور قیام امن، ملالہ یوسف زئی کی کتاب ’’میں ہوں ملالہ‘‘ (نوجوانوں کا ایڈیشن) اور ضیاء الدین یوسف زئی کی کتاب ’’اسے پرواز کرنے دو‘‘۔
راہی نے زمانۂ طالب علمی میں دو ادبی جریدے بھی شائع کئے۔ گیارھویں جماعت میں تھے کہ ایک رسالہ اردو، پشتو اور کوہستانی زبانوں پر مشتمل ’’کوہِ سجن‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ یہ رسالہ زیادہ عرصے تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکا تو انھوں نے اپنے ایک ادبی دوست فضل محمود روخانؔ سے مل کر ماہ نامہ ’’سوات‘‘ کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا۔ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے ماہ نامہ ’’سوات‘‘ کے پہلے شمارے میں سابق والئی سوات میاں گل عبدالحق جہاں زیب سے ان کی زندگی کا آخری انٹرویو لیا۔ یہ رسالہ کافی عرصے تک شائع ہوتا رہا لیکن پھر اپنی اشاعت برقرار نہ رکھ سکا۔
فضل ربی راہی نے ماہ نامہ ’’سوات‘‘ بند ہونے کے بعد باقاعدہ صحافت کی طرف توجہ دی اور ملک کے قریباً تمام بڑے اخبارات میں علاقائی، قومی اور بین الاقوامی حالات پر مضامین لکھنا شروع کئے۔ جب سوات سے روزنامہ ’’آزادی‘‘ نے اپنے اشاعتی سفر کا آغاز کیا تو راہی صاحب بہ طور کالم نگار ’’آزادی‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 2001ء میں پہلی بار برطانیہ گئے تو وہاں سے ’’مکتوبِ لندن‘‘ کے نام سے ’’آزادی‘‘ کے لیے کالم بھیجتے رہے۔ لندن میں بھی ایک اُردو اخبار سے بہ طور سب ایڈیٹر اور کمپیوٹر آپریٹر وابستہ رہے۔ 2006ء میں لندن سے واپسی کے بعد پھر اپنے اشاعتی منصوبوں اور صحافتی سرگرمیوں میں مشغول ہوگئے۔ ان کا اشاعتی ادارہ شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز اب تک 300 سے زائد اُردو، پشتو اور انگریزی کی کتب شائع کرچکا ہے۔ سوات جیسے دور اُفتادہ علاقے میں نشرو اشاعت کا کام جاری رکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ کریڈٹ راہی صاحب کو جاتا ہے کہ انھوں نے بڑی معیاری کتب نہایت خوب صورت گیٹ اَپ کے ساتھ شائع کیں۔ انھوں نے اپنے اشاعتی ادارے کے ذریعے پشتو اور اردو ادب کی بڑی خدمت کی ہے۔
سوات میں جب طالبانائزیشن کو فروغ دیا گیا تو راہی صاحب نے اس پر بڑی جرأت سے لکھنا شروع کیا۔ سوات میں شورش کے دوران انھوں نے اپنا قلم اسی ایک موضوع کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اسی دوران وہ روزنامہ ’’آزادی‘‘ سوات کے ساتھ بہ طور سینئر ایڈیٹر وابستہ ہوگئے اور پھر انھوں نے باقاعدہ طور پر ’’آزادی‘‘ کا ادارتی صفحہ ایڈیٹ کرنا شروع کیا۔ سوات میں عسکریت پسندی کے دوران انھوں نے اپنے کالموں اور ’’آزادی‘‘ کے ادارتی صفحہ کے ذریعے سوات اور اہل سوات کی آواز کو توانائی بخشی اور نہ صرف ’’طالبان‘‘ کے ظلم و زیادتی کے خلاف مسلسل لکھا بلکہ امن کے دعوے داروں کے دوغلے پن کا پردہ بھی چاک کیا۔ اس سلسلے میں راہی صاحب کا کہنا ہے کہ انھیں روزنامہ ’’آزادی‘‘ کے چیف ایڈیٹر ممتاز احمد صادق صاحب کی حمایت اور سرپرستی حاصل تھی ورنہ اس وقت اہل سوات کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم و زیادتی کے خلاف مضامین شائع کرنا آسان کام نہیں تھا۔ شورش کے دوران ’’آزادی‘‘ کے ادارتی صفحہ کو بڑی شہرت حاصل رہی۔ راہی کے سوات کی شورش کے دوران شائع ہونے والے کالم ’’اور سوات جلتا رہا‘‘ اور ’’وادئ سوات میں جو ہم پہ گزری‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ راہی صاحب نے سوات اور اہل سوات کے مسائل اُجاگر کرنے کے لیے ماہ نامہ ’’شعور‘‘ کے نام سے بھی رسالہ جاری کیا جسے سوات کے تمام حلقوں میں غیرمعمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک پشتو رسالہ ’’مینہ‘‘ کے ادارتی فرائض بھی انجام دیتے رہے۔
فضل ربی راہی اس وقت ’’ہم سب‘‘ کی ویب سائٹ پہ باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزنامہ ’’آزادی‘‘، ’’جنگ‘‘ لندن اور روزنامہ ’’نئی بات‘‘ میں بھی ان کے کالم شائع ہوتے ہیں۔ ( یہ تعارف جناب امجد علی سحاب نے تحریر کیا ہے