فوزیہ اختر ردا

پھر تسلسل مری سوچوں کا بکھر جائے گا
وہ تصور میں مرے ساتھ ہی مر جائے گا

ہاتھ میں ٹھہرا ہوا لمحہ بکھر جائے گا
“وقت کا کیا ہے, گذرتا ہے, گذر جائے گا”

جس کی خاطر ہے کیا میں نے سفر صدیوں کا
کیا مرے واسطے کچھ پل وہ ٹھہر جائے گا

پھر جدائی کے اُسی خوف نے آ گھیرا ہے
اب کسی طور بھی اس دل سے نہ ڈر جائے گا

ماسوا میرے کوئی اور کہاں ہے اس کا
مجھ سے روٹھا بھی کسی دن تو کدھر جائے گا

چند خوشیوں نے ردا دل کو جِلا بخشی ہے
رُت جو بدلی تو یہ دل بھی مرا مر جائے گا

Leave a Reply

Discover more from Press for Peace Publications

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact