Sunday, May 19
Shadow

سموگ بن گئ    جان کا روگ/ تحریر و تصاویر: نازیہ آصف

نازیہ آصف

     سموک یعنی دھواں اور فوگ کا مطلب دھند

   فوگ اور سموک  کا مختصر اور جدید نام 

                 “سموگ”

چند سال پہلے ہم صرف لفظ  “دھند ” سے آشنا تھے ۔پھر ہماری ڈکشنری میں فوگ بھی آ گیا۔

 دھند کا لفظ سنتے ہی چہرے پہ مسکراہٹ آ جاتی اور رومانوی جذبے بیدار ہونے لگتے ۔

ہم پیدل چلتے ، بائیسکل یا تانگے کی سواری کرتے۔ دور جانا ہوتا تو بس یا کسی ریلوے سٹیشن پہ ریل کی لمبی سی پراسرار سیٹی کا انتظار کرتے اور فصلوں کی کٹائی  کسان ہاتھ سے کرتے اور ان کی باقیات جانوروں کے چارے اور پناہ گاہیں بنانے کے کام آتیں۔ پھر ہم نے انھیں آگ لگا کر ضائع کرنا مفید جانا۔

 ہم نے مزید ترقی کی  اور دشت نما سڑکوں پہ ٹریفک کا اژدھام لے آئے اور مزید یہ کہ ہم  آکسیجن کی جگہ بھٹوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والی کاربن مونو آکسائید جیسی خالص گیسں پھانکنے لگے۔ سو درجے پہ ابلتے پانی سے بڑھ کر 800 سے 1200  سینٹی گریڈ تک کھولا دینے والے بم نہ صرف بنا لیے بلکہ برسا بھی رہے ہیں ۔ زرخیز زمینوں پہ سبزے کی جگہ اپنے ہاتھوں اپنے لیے کنکریٹ کی قبریں تیار کر لیں۔اب وہی قبریں ہماری سانسیں روک کر ہمیں درگور کرنے پہ تلی ہوئی ہیں ۔ماضی کی طرح اب قحط تو نہی، مگر رزق کی فراوانی مار رہی ہے ۔بھرے پیٹوں پھونکا جانے والا قہر زندگی عذاب کر رہا ہے ۔اب انسان کو پناہ صرف قدرت کی آغوش دے سکتی ہے مگر اب اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا گیا یہ تغیر ہمیں زندگی تو نہی موت دے سکتا ہے۔  تاوقت یہ کہ ہم پھر سے چیزوں کے اصل کی طرف لوٹ جائیں ۔ ٹریفک ،فیکٹریوں کے دھوئیں ، آبی دھانوں پہ سلیکون کے پہاڑ، فصلوں سبزیوں پہ زہریلے کیمیکلز کی بھرمار ، سے ہم خود زہر آلود ہو چکے۔ 

قران پاک میں سورہ “الدخان”میں اللہ پاک نے غالبا  اسی عفریت کی طرف اشارہ کیا۔

“سو اس دن کا انتظار کیجئے کہ آسماں ظاہر دھواں لائے اور وہ انسانوں کو ڈھانپ لے،بس یہی درد ناک عذاب ہے “۔

  ۔مگر کیا کیجئے کہ ہم منہ کے ساتھ دماغ پہ بھی ماسک لگا ئے بیٹھے ہیں ۔سوچنے سمجھنے سے عاری۔

فیچر نگار کا تعارف

پچھلی صدی کا قصہ ہے جب ہم اس دنیا میں تشریف لائے ۔نوائے وقت کے  بچوں کے ایڈیشن “پھول اور کلیاں “سے اردو پڑھنا سیکھا ۔

تعلیم،  اردو ادب اور تاریخ میں پنجاب یونیورسٹی سے  ایم اے کیا ۔پھر 2002 میں شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد ایک طویل عرصہ کتاب سے تو نہیں مگر قلم سے رشتہ ٹوٹا رہا ۔پھر طویل وقفے کے بعد 2018 میں  قلم سے رشتہ جوڑا ۔جو ماشااللہ اب تک قائم ہے ۔

بچوں کے لیے کہانیاں ،افسانہ اور تاریخ پہ مبنی مضامین لکھتی ہوں۔متعدد فیچر بھی تیار کیے۔جن میں سر فہرست اپنے سوہنے شہر گجرات کی تاریخ ہے ۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ  دوسرا شوق چونکہ سیاحت ہے ۔اس لیے متعدد سفر نامے ملک کے بہترین جرائد میں چھپتے رہتے ہیں ۔میری تحریریں  ماہنامہ “پھول” روزنامہ ،نوائے وقت ، “ایکسپریس، “کشمیر “پاکستان ” حریف  کے سنڈے میگزینز میں  اور ہفت روزہ “فیملی میگزین “میں  تواتر کے ساتھ جگہ پا رہی ہیں ۔اس کے علاوہ متعدد تحریریں پڑوسی ملک کے میگزینز میں بھی چھپ چکیں ۔الحمداللہ ۔مختلف فورم ادبی فورمز نے سرٹیفکیٹس اور شیلڈز سے بھی نوازا۔ 

                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

×

Send a message to us on WhatsApp

× Contact